آخری قسط:
ایک چوتھی مدعیہ نبوت سجاح تھی۔ خاتون تھی، اس نے نبوت کا دعوی کیا کہ میں بھی نبی ہوں۔ بنو تغلب میں سے تھی۔ بڑا لشکر اکٹھا کیا، یہ بھی مقابلے پر آ رہی تھی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں، تو مسیلمہ اور سجاح ان دونوں کا رابطہ ہو گیا، طے کیا کہ اکٹھے مل کے لڑتے ہیں۔ مورخین نے تو بڑی ”لو اسٹوری“ بیان کی ہے، ون ٹو ون مذاکرات ہوئے ایک خیمے میں اور کہتے ہیں دو دن ”مذاکرات“ چلتے رہے۔
دونوں نے ایک دوسرے کو تسلیم کر لیا اور اکٹھے جنگ لڑنے کا فیصلہ ہوا۔ اس نے بھی شکست کھائی، مسیلمہ کو شکست ہوئی تو سجاح کو بھی ہو گئی۔ مسیلمہ تو قتل ہو گیا تھا، یہ غائب ہو گئی اور اپنے علاقے میں چلی گئی۔ اب گمنام ہے، عورت کا گمنام ہونا آسان ہوتا ہے۔ خاصا عرصہ گزر گیا، امیر المومنین حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کا زمانہ تھا، سجاح کے علاقے میں قحط پڑا۔ لوگ علاقہ چھوڑنے لگے۔ سجاح کے بارے میں کہتے ہیں یہ بھی دمشق چلی گئی۔ امیر المومنین حضرت معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش ہوئی اور اس نے کہا جناب! میں سجاح ہوں، وہی سجاح جس نے مسیلمہ کے ساتھ مل کر جنگ لڑی تھی، ہمارے علاقے میں قحط پڑ گیا ہے، میں آئی ہوں مجھے آپ مسلمان کرلیں، کلمہ پڑھائیں۔ اس سے توبہ کی، رجوع کیا، کلمہ پڑھا، مسلمان ہو گئی۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی تشکیل کوفہ میں کی۔ کوفہ کے گورنر سمر ہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ تھے، ان کو خط لکھا کہ اس خاتون کو عزت و احترام کے ساتھ کوفہ میں بساو¿۔ پھر سجاح کوفہ میں رہیں۔ اس دور کے بارے میں محدثین لکھتے ہیں کہ بڑی پارسا، عابدہ، عبادت گزار خاتون تھیں۔ وہیں کچھ عرصہ رہیں، کوفہ میں ان کا انتقال ہوا۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ نے جنازہ پڑھایا اور ان کی تدفین کی۔ میں نے ان چار مدعیان نبوت کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ رسول اللہ کے زمانے میں، صحابہ کرام کے زمانے میں انہوں نے دعوے بھی کیے، سامنے بھی آئے۔ دو قتل ہو گئے، دو نے توبہ کر لی۔ ان کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طرز عمل میں نے عرض کیا ہے کہ حضور کا طرز عمل کیا تھا اور صحابہ کا طرز عمل کیا تھا۔ کسی کے دعوے کو کسی درجے میں تسلیم نہیں کیا۔ ایک واقعہ اور ساتھ شامل کروں گا جو امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی نے السنن الکبری میں بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمر کے زمانے میں کوفہ میں چلے گئے تھے حضرت عمر کے حکم پر۔ آپ کوفہ کے قاضی تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ تھا، ان کی خلافت کے دور کے دو واقعات امام بیہقی نے ذکر کیے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کوفہ کے کسی علاقے میں کچھ لوگوں کے خفیہ اڈے کا پتہ چلا کہ مسیلمہ کذاب کے طبقے کے بچے کھچے لوگ وہاں الگ بیٹھتے ہیں اور اپنی مجلس جماتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پتہ کرایا۔ کہتے ہیں کوئی ستر کے قریب مرد و عورت، بوڑھے بچے انہوں نے اپنا ایک ٹھکانہ بنا رکھا تھا، وہاں جمع ہوتے تھے اور مسیلمہ کذاب کے طریقہ پر اذان اور یہ بات بھی درمیان میں عرض کر دوں کہ مسیلمہ کذاب جب کسی سے اپنا اقرار کرواتا تھا تو پہلے رسول اللہ کا اقرار کرواتا تھا۔
پہلے حضور کا کلمہ پڑھاتا تھا پڑھو ”اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ“ پھر نعوذ باللہ ”اشھد ان مسیلمة رسول اللہ“ اذان بھی یہی تھی، پہلے ”اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھد ان محمدا رسول اللہ“ پھر”اشھد ان مسیلمة رسول اللہ“ پہلے حضور کا اقرار کرواتا تھا پھر اپنا۔ حتیٰ کہ ختم نبوت کے پہلے شہید حبیب بن زید انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جو کسی جگہ پکڑے گئے، مسیلمہ کے سامنے پیش کیے گئے تو مسیلمہ نے ان سے پوچھا ”اتشھد ان محمدا رسول اللہ“ انہوں نے فرمایا ”اشھد اشھد“ پھر پوچھا ”اتشھد انی رسول اللہ“ پہلے رسول اللہ کی رسالت کا اقرار کروایا، پھر پوچھا مجھے بھی مانتے ہو؟ حبیب بن زید نے بڑا تاریخی جملہ فرمایا ” ان فی اذنی صمما عن سماع ما تقول“ میرے کانوں میں ڈاٹیں ہیں تیری بات اندر نہیں جا رہی۔ یعنی محاورے کا ترجمہ کہ میرے کان تمہاری یہ بات سننے سے انکاری ہیں کہ رسول اللہ کے بعد بھی کوئی نبی ہو سکتا ہے۔ اس پر مسیلمہ نے انہیں شہید کر دیا۔ یہ ختم نبوت کے پہلے شہید ہیں۔
خیر حضرت عبداللہ بن مسعود نے اڈے پر چھاپہ مارا، کیس امیر المومنین حضرت عثمان کی خدمت میں بھیج دیا کہ کیا کروں۔ یہ روایت امام بیہقی نے بیان کی ہے السنن الکبریٰ میں۔ انہوں نے فرمایا کہ کیا کرنا ہے، ان کو اسلام کی دعوت دو، توبہ کی مہلت دو۔ مرتد کے لیے قانون یہ ہے کہ مرتد کو تین دن کی مہلت دی جاتی ہے اسلامی ریاست میں۔اس کے ساتھ اس کے شبہات دور کرنے کا اہتمام کیا جائے گا۔ صرف دعوت نہیں دی جائے گی بلکہ اس کے شبہات کے دور کرنے کی کوشش کی جائے گی، سمجھایا جائے گا۔ تین دن کا موقع دیا جائے گا۔ فرمایا جو توبہ کر لے تو چھوڑ دو، نہیں تو جو سزا ہے وہ دو۔ روایت میں یہ ہے کہ ان سب نے توبہ کرلی۔
لیکن ایک واقعہ اور بھی ہے، حضرت عثمان کے زمانے میں ہی کوفہ میں عبداللہ بن مسعود قاضی ہیں، ایک دن بازار جا رہے ہیں۔ ایک شخص پر نظر پڑی، غور سے دیکھا۔ بلایا، فرمایا تمہیں کہیں دیکھا ہے۔ اس نے کہا دیکھا ہوگا۔ فرمایا مجھے یوں لگتا ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسیلمہ کذاب کا خط لے کر جو دو بندے آئے تھے ان میں شاید ایک تم تھے؟ اس نے کہا آپ نے ٹھیک پہچانا ہے، میں وہی ہوں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا اب بھی مسیلمہ کو رسول مانتے ہو؟ اس نے کہا جی مانتا ہوں۔ پوچھا اب سفیر تو نہیں ہو؟ نہیں۔ فرمایا تشریف لاو¿، اسے گرفتار کر لیا۔ یہ کیس بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا کہ کیا کرنا ہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کا جواب بھی وہی دیا۔ توبہ کا موقع دو، توبہ کر لے تو ٹھیک، ورنہ قتل کر دو، چنانچہ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو موقع دیا۔ سمجھایا، تین دن کے بعد اس کو پھانسی دے دی۔
یہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طرز عمل تھا مدعیان نبوت کے بارے میں اور منکرین ختم نبوت کے بارے میں۔ یہ اس دور کے واقعات ہیں، حضرات صحابہ کے دور کے واقعات ہیں۔ میں اس پر دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے لیے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ اسوہ آج بھی ہمارے لیے یہ اسوہ ہے کہ ہم اس طریقے کے مطابق جیسے حضور نے ان کے ساتھ طرز عمل اختیار کیا ہم بھی وہ طرز عمل اختیار کریں۔ صحابہ کرام نے جو رویہ اختیار کیا ہمارا رویہ بھی وہ ہونا چاہیے اور دوسری بات یہ ہے کہ قادیانیوں سے میں کہتا ہوں، قادیانیوں سے اور تمام منکرین ختم نبوت سے۔ میں عام طور پر، یہ بات چناب نگر میں بھی کئی اجتماعات میں کہہ چکا ہوں قادیانیوں سے کہ یار! تمہارے سامنے بھی تاریخ ہے۔
مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی بننا ضروری نہیں، طلیحہ اور سجاح بھی بنا جا سکتا ہے، تمہارے لیے راستہ کھلا ہے۔ طلیحہ نے توبہ کی تھی، کلمہ پڑھا تھا، امیر المومنین کے سامنے خود کو پیش کر دیا تھا۔ پھر انہوں نے تشکیل کی تھی کہ کیا کرنا ہے تم نے۔ سجاح نے بھی توبہ کی تھی، امت میں شامل ہوئی تھی، خود کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا تھا۔ اس کی اگلی تشکیل حضرت معاویہ نے کی تھی۔ میری یہ قادیانیوں کو بڑے کھلے طور پر دعوت ہے آئیے طلیحہ کا راستہ اختیار کیجیے، سجاح کا راستہ اختیار کیجیے۔ اگر آپ اپنے غلط عقائد سے توبہ کر کے امت کے عقائد پر دیانتداری کے ساتھ، خلوص کے ساتھ آئیں گے، توبہ کریں گے، رجوع کریں گے، تو آپ کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
لیکن قادیانی حضرات یہ بات یاد رکھیں کہ وہ موجودہ عقائد پر پر قائم رہتے ہوئے امت میں اپنے آپ کو شامل منوانے کےلئے جو مرضی کر لیں، یہ نہیں ہوگا۔ ان کے لیے دو ہی راستے ہیں، تیسرا کوئی راستہ نہیں۔ ایک یہ کہ امت مسلمہ نے ان کے بارے میں جو فیصلہ کیا ہے، پاکستان کی پارلیمنٹ نے، پاکستان کی عدالت عظمی نے جو فیصلہ کیا ہے اور علمائے امت کا جو اجماعی فیصلہ ہے اس کو قبول کریں اور خود کو غیر مسلم تسلیم کریں، پھر جو معاملات آگے چلیں گے اور اگر مسلمان کہلانا چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ اپنے غلط عقائد سے توبہ کر کے امت مسلمہ کے اجماعی عقائد میں واپس آئیں اور دوبارہ کلمہ پڑھیں اور امت مسلمہ میں شامل ہو کر اپنے جھوٹے عقائد سے توبہ کریں، اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو صحیح راستے پر قائم رہنے کی اور اللہ تبارک و تعالی ہر کفر سے، ہر ارتداد سے، ہر زندقہ سے توبہ کرنے کی اور اس کا مقابلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اللہم صل علی سیدنا محمد النبی الامی وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔