اپنے حصے کا کام!

علامہ شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فتویٰ دینے والا شخص دراصل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب ہونے کا فرض سرانجام دے رہا ہوتا ہے۔ علامہ ابن قیم الجوزیہ کہتے ہیں: فتوے پر دستخط کرنے والا دراصل اللہ رب العزت کی طرف سے یہ کام انجام دے رہا ہوتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ مجھ سے سنتے ہو اور لوگ تم سے سنیں گے۔ پھر جن لوگوں نے تم سے سنا ہے، لوگ ان سے سنیں گے۔ (سنن ابوداﺅد، 3659) قرآن مجید کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی فتویٰ دیتا ہے: یستفتونک فی النساءقل اللہ یفتیکم فیھن (النساء: 127) لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے: ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فتویٰ دیتا ہے۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ فتوی دینا کس قدر عظیم کام ہے۔
اس کی اہمیت تو دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چنیدہ صحابہ کرام ہی فتوی کے منصب پر فائز ہوئے۔ اسلام کے سنہری دور میں چاروں خلفائے راشدین، پھر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، حضرت ابوموسی اشعری اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم جیسے بڑے صحابہ کا تعارف فقہ اور فتوی بنا۔ 130 سے زائد صحابہ کرام پھر تابعین اور تبع تابعین کی ایک تعداد۔ کتنے بڑے بڑے نام کہ جن کی علمیت اور عظمت کا ذکر آتے ہی سرادب سے جھک جاتے ہیں۔ اسی لیے یہ کام بہت احتیاط، نہایت سمجھداری اور بے حد بیدار مغزی سے کرنا ہوگا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر دور میں فتوی جاری کرنے کے مستند ادارے وجود میں آئے۔

مسلمانوں نے اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی سے متعلق شرعی رہنمائی کے لیے فتوی کے ادارے کا تحفظ کیا، اسے مضبوط کیا اور اس کے احکامات پر عمل کیا۔ فتوی، قضاءاور احتساب ان تینوں شعبوں کا قیام ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے رہا ہے۔ فتوی کے لیے لوگوں کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا، دینی و دنیوی مسائل میں رہنمائی لی جاتی، عبادات، معاملات، اخلاق اور معاشرت کی تعلیم حاصل کی جاتی۔ لوگ جیسے ہی کسی مشکل کا شکار ہوتے، مفتی کے پاس پہنچ جاتے اور وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھتا۔ لڑائی جھگڑوں اور مسائل و مشکلات میں اہل علم کے پاس ہی جایا جاتا تھا۔
اسلام کے آغاز میں ریاست اور دعوت ایک ساتھ چلتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ریاست کے بھی سربراہ تھے اور ساتھ ہی دعوت اور تبلیغ کا بھی مرکز تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں ایسا ہی ہوتا رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے لے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ تک ان برگزیدہ صحابہ کرام نے علم و فتوی، دعوت دین اور سیاست کو ایک ساتھ مینج کیا اور کامیابی سے چلایا۔ اسی لیے فقہ پر لکھی جانے والی سب کتابوں میں آپ کو امامت صغری اور امامت کبری کی تفصیلات ملتی ہیں۔ یعنی ایک عالم دین دین میں بھی رہنما ہوگا اور سیاست دنیوی میں بھی امام ہوگا۔ امامت عظمی یعنی ریاست کی سربراہی جن بنیادی کاموں کے لیے ضروری ہے، ان میں پانچ اہم مقاصد شریعت ہیں: دین کی حفاظت، انسانی جان کی حفاظت، عقل، نسل اور مال کی حفاظت۔
ابن خلدون لکھتے ہیں: نماز، فتوی، قضائ، جہاد اور احتساب یہ تمام ذمہ داریاں امامت کبری یعنی خلافت پر عائد ہوتی ہیں۔ گویا امامت کبری اور خلافت بنیاد ہیں اور یہ تمام ذمہ داریاں اسی سے نکلتی ہیں اور اسی کا حصہ ہیں، کیونکہ خلافت کے بنیادی کاموں میں دینی اور دنیوی کاموں کو سدھارنا شامل ہے۔ فتوی کے بارے میں خلیفہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اہل علم کی جانچ پھٹک کرے اور ان میں سے ایسے افراد کا انتخاب کرے جو اس ذمہ داری کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اسی طرح ایسے لوگوں کو منع کرے جو اس کی اہلیت نہ رکھتے ہوں۔ فتوی کا یہ ادارہ اگر کمزور ہوگیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم دین کی طرف توجہ کم کردیں۔ بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ ہم کاروباری اداروں، تجارتی شعبوں میں دین کو زندہ کریں۔ اپنے اپنے شعبے سے متعلق مفتیان کرام سے مشورہ کریں۔ اپنی کمپنیوں میں شریعہ ڈپارٹمنٹ قائم کریں اور ایسے ماہر مفتیان کرام کی سرپرستی کریں جو جدید مسائل میں امت کی رہنمائی کرسکیں۔ ہم اپنے حصے کا کام تو سرانجام دیں نا!