میاں کا دس سالہ منصوبہ

کچھ بڑے با خبر حلقوں کا دعوی ہے کہ بڑے میاں جی نے وسط مدتی انتخابات کا عندیہ دیا ہے لیکن اس سے پہلے پنجاب اور وفاقی حکومت کو عوام کے لیے نظر آنے اور ملنے والا ایسا ریلیف ہونا ضروری ہے جس کا مخالف بھی اعتراف کریں۔

ڈیڑھ دو سال عوام کو خوب خوش کریں پھر ان کی خوشیوں کی مدد سے تحریک انصاف اور اس کے ہم نواو¿ں کا مزار تیار کیا جائے۔ یہ بھی شنید ہے کہ انتخابات کے لیے نگران حکومت کے چکر سے بچنے کا پلان بنایا جا رہا ہے، اس کےلئے آئینی اور قانونی تقاضے پوری کرنا ہوں گے جو ظاہر ہے پی پی جے یو آئی اور متحدہ قومی مومنٹ کے توسط اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہوگا بلکہ پی ٹی آئی کو بھی ایسی جگہ پہنچانا ہوگا کہ وہ رخنہ اندازی کر ہی نہ کرسکے۔ جو لوگ سمجھتے تھے، بڑے میا ں جی تھک گئے ہیں اور الگ کر دیے گئے ہیں ، اب ان کی رائے تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے، ان کا کہنا ہے شاید بڑے میاں دس سالہ منصوبے پر کام میں مصروف ہیں۔
٭٭٭
خبر ہے وفاقی حکومت بجلی کی قیمت میں 8 سے 10 روپے فی یونٹ کمی کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے، یہ کام آسان ہے نہ سادہ ، ا س کے کئی مراحل ہوتے ہیں اور ہوں گے۔تاہم حکومتی ذرائع اس پر مصر ہیں کہ حکومت سے جو کچھ بن سکا کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف اس منصوبے کو مسترد کرتا ہے یا منظور، کوشش جاری رکھی جائے گی، استعمال نہ ہونے والا ترقیاتی بجٹ بھی خسارے میں کمی کا سبب بن سکتا ہے۔ منصوبہ جو بھی ہو جیسا بھی ہو اسے شفاف رکھنے کے ساتھ آئی ایم ایف سے باقاعدہ منظوری ضروری ہوگی۔حکومت کا کہنا ہوتا ہے وہ آئی ایم ایف پروگرام لے رہی ہے، اس لیے آئی ایم ایف تجاویز حکم کا درجہ رکھتی ہیں، دوسری طرف آئی ایم ایف کا دعویٰ ہے ہم غریبوں کے لیے قیمت میں کمی سے منع نہیں کرتے، البتہ رقوم کے درست استعمال پر زور دیتے ہیں۔

اگر حکومت اپنے اخراجات پر کٹ لگاتی ہے اور غریبوں کی جھولی میں ڈالتی ہے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔ حکومت کو چاہیے اپنی عیاشی کےلئے کھانچوں سے رقم حاصل کرنے کی بجائے کھانچوں میں پڑی رقم کا درست اور مثبت استعمال کرے۔ قومی خزانے سے غیر ضروری دریا دلی دکھانے کی بجائے عوام کو جائز مصرف سے ریلیف پہنچائے۔ حال ہی میں ارکان اسمبلی کی مراعات اور تنخواہوں میں جو شاہانہ اضافہ کیا گیا ہے، اگر اسے ایک ڈیڑھ سال موخر کیا جاتا یا اسے پچیس بیس فیصد رکھا جاتا تو عوام بھی سمجھتے کہ حکومت ان کی خیر خواہ ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن مل کر اپنے لیے مراعات پر راضی ہو جائیں اور غریبوں کا ریلیف آئی ایم ایف کی مرہون منت ٹھہرے تو یہ انتہائی غلط رویہ ہے۔
٭٭٭
عدالت عالیہ اسلام آباد آنے والے تین جج حضرات کی تقرری اور جسٹس سرفراز ڈوگر کے قائم مقام چیف جسٹس بننے پر اسی عدالت میں پہلے سے موجود 5 جج حضرات ناراض ہیں او ر انھوں نے مشہور زمانہ منیر اے ملک کے ذریعے عدالت عظمیٰ میں درخواست جمع کروائی ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صدر نے جس شق کی روشنی میں اختیار استعمال کیا ہے وہ در اصل اپنے اصل اختیارات سے لامحدود تجاوز ہے، اس لیے عدالت عظمیٰ اس فیصلے کے خلاف ہمیں سنے اور صدارتی حکم نامہ کالعدم قرار دے، جب تک اس درخواست پر عدالت عظمیٰ فیصلہ نہیں کر دیتی کسی بھی قسم کی تبدیلی اور تحریک کو عدالت عالہ اسلام آباد میں روکا جائے۔

سرفراز ڈوگر جو لاہور ہائی کورٹ سے تشریف لائے ہیں، اول تو ان اکا آنا ہی یہاں ان حضرات کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا، اوپر سے انھوں نے کچھ انتظامی فیصلے ایسے کیے ہیں جس پر پہلے سے موجود ناراضی کو ایسی ہوا لگی کہ وہ بھڑک کر شعلہ بن گئی۔ عدالت عظمی اور عدالت عالیہ اسلام آباد در اصل دونوں اہم موڑ سے گزر رہی ہیں۔ دونوں جگہ جج حضرات میں اختیارات ہی نہیں سوچ اور ایک طرح مکتب فکر میں شدید ترین تضاد و اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کسی درخواست اور کسی خط کا کوئی فائدہ نہیں، نظام اور کام جو چل رہا ہے یہ چل کر رہے گا اور اس کا ہر مخالف بس جل کر رہے گالیکن دوسری طرف کے جج حضرات ان کے ساتھی وکلا اور حامی حضرات کسی صورت میں ہار اور شکست مانے کو تیار نہیں۔
٭٭٭
کرکٹ چمپئنز ٹرافی شروع ہو چکی ہے، پاکستان اپنا پہلا میچ بہت شان دار انداز میں گنوا چکا اور ہندوستان پہلا میچ گروپ کی سب سے کمزور ٹیم سے جیت چکا، اگلا مقابلہ ان دونوں کے درمیان ہوگا جس میں پاکستان کی جیت کو از بس ضروری کہا جا رہا ہے، اس کے بغیر سیمی فائنل میں جانے کا خیال بس خواب ہی رہے گا اور میزبان ملک کی ٹیم کھیلنے کی بجائے بس تماشائی کے روپ میں ہی نظر آئے گی، ابھی تو بنگلا دیش نے بھی ہندوستان سے ہار کا غصہ پاکستان پر اتارنا ہے۔ اگر چہ کرکٹ میں کوئی ٹیم مضبوط اور کوئی بھی کمزور نہیں ہوتی، کمزور بڑی ٹیم کو پچھاڑ سکتی ہے اور مضبوط ٹیم کمزور سے ہار سکتی ہے لیکن پھر بھی مضبوط ٹیموں کا رعب داب ہمیشہ سے مانا جاتا ہے اور کمزوروں کو تر نوالہ خیال کیا جاتا ہے، پاکستان کا شمار کمزور ٹیموں میں نہیں ہوتا لیکن یہ کمزور ترین ٹیم کو بھی جتوانے کا حوصلہ رکھتی ہے، اسے مضبوط اور طاقتور قرار دینا کبھی آسان نہیں رہا لیکن یہ مانی ہوئی سپر مینوں سے بھری ٹیم کو کب لمبا لٹا دے، کچھ کہا نہیں جا سکتا!