فلسطین کی مقاومتی تنظیموں نے جمعرات کو قیدی تبادلے کے ساتویں راونڈ میں پہلی مرتبہ زندہ یرغمالیوں کی بجائے چار لاشیں حوالے کردی ہیں۔
19 جنوری کو ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں مزاحمتی تنظیموں نے چار تابوت ریڈکراس کے حوالے کردیے ہیں۔ لاشوں کی حوالگی کے لیے حماس نے غزہ کے جنوب میں خان یونس کے مشرق میں واقع بنی سہیلا نامی مقام پر انتظامات کیے تھے، جس دوران چار اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے حوالے کی گئیں۔
فلسطینی انفارمیشن سنٹر نے بتایا ہے کہ لاشوں کے حوالے کرنے کی تقریب بنی سہیلا قبرستان میں منعقد کی گئی تھی۔ اس سے قبل اسرائیلی قابض افواج نے اس علاقے پر حملہ کے دوران اس قبرستان کو بھی نقصان پہنچایا تھاجس کی وجہ سے مزاحمتی تنظیم نے لاشوں کی حوالگی کے لیے اسی جگہ کا انتخاب کیا۔ اسرائیلی فورسز نے اس قبرستان کو بری طرح نشانہ بنایا تھا اور یہاں کی تقریباً تمام قبروں کو کھود کر اندر کی تلاشی لی تھی کہ کہیں ان قبروں کے اندر مغوی اسرائیلیوں کی لاشیں چھپائی تو نہیں گئی ہیں۔
حسب روایت مزاحمتی تنظیموں کی جانب سے حوالگی تقریب کے لیے حربہ نفسیات کے پیش نظر انتظامات تھے۔ تابوتوں میں تین تابوت بیباس خاندان کے تھے۔ یاردن بیباس نامی اسرائیلی کو القسام بریگیڈ نے سات اکتوبر 2023ء کو اس کی اہلیہ شیری اور دو کمسن بچوں کفیر اور ارئیل کے ساتھ حراست میں لیکر یرغمال بنالیا تھا۔ شیری بیباس اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس کے سائبر انٹیلی جنس یونٹ 8200 میں کام کرتی تھی اور ایک ماہر وذہین خاتون کے طور پر پر اپنے ملک کے لیے کام کرتی تھی۔
یاردن بیباس کو چوتھے راونڈ میں رہائی دی گئی تھی جبکہ اس کی اہلیہ شیری اور بچے اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں جان کی بازی ہار گئے تھے۔ عبرانی میڈیا کے مطابق لاشوں کی وصولی کے وقت بڑی تعداد میں اسرائیلی باشندوں نے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر اسرائیلی حکومت کی ناکامی کے الفاظ درج تھے۔ بیشتر افراد نے بتایا کہ 465 دن تک جنگ کے باوجود بھی ہمیں اپنے افراد زندہ نہیں ملے، جس پر وہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنارہے تھے۔ بیشتر اسرائیلیوں نے کل کا دن یوم سیاہ قرار دیا اور فوج وحکومت کے بارے میں اپنی شدید مایوسی ظاہر کی۔
سوشل میڈیا پر اسرائیلی باشندوں نے تابوتوں کی تصاویر لگا کر فتح کے اسرائیلی دعووں پر سوالیہ نشانات لگادیے ہیں اور کہاہے کہ یہ کونسی فتح ہے جس نے ہمیں اپنے پیاروں کو پیروں پر چلنے کی بجائے تابوتوں میں لایا۔
عرب میڈیا کے مطابق تابوتوں کے معاملے نے اسرائیل میں عوامی منظر نامہ تبدیل کردیا ہے اور انتہا پسند حکومت ایک بارپھر غزہ کے خلاف بڑی کارروائی کے اشارے دینے لگی ہے۔اسرائیل کے نمایاں عسکری تجزیہ کار امیر بارشالوم نے نیتن یاہو پرشدید تنقید کرتے ہوئے بتایا کہ وہ خود کو ہمیشہ بچاتے ہوئے فوجی ادارے کی ناکامیوں کی بات کرتے ہیں، لیکن اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم اسرائیل کو ملنے والی سیاہ تابوتوں کی تلخ یادیں اسرائیلیوں کے حافظے میں نقش ہوکر رہ گئی ہیں۔ وہ کبھی نہیں بھولیں گے اور آج ہے یا کل نیتن یاہو کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ صہیونی تجزیہ کار نے بتایا کہ اسرائیل میں نیتن یاہو کے علاوہ باقی تمام ادارے اور ذمہ دار ناکامی کا اعتراف کرچکے ہیں۔ واحد نیتن یاہو ہیں جو اب تک مختلف حیلوں بہانوں سے کام لے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ شیری، اُس کا شوہر اور دو کمسن بچوں کو غزہ کی ایک مزاحمتی تنظیم کتائب المجاہدین نے سات اکتوبر 2023ء کو اغوا کرکے اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا اور لاشیں بھی اسی تنظیم کے پاس تھیں۔ کتائب المجاہدین 2005ء میں فلسطینی تنظیم الفتح سے الگ ہونے والا گروپ ہے جس نے سات اکتوبر کے طوفان الاقصیٰ آپریشن میں حصہ لیا تھا اور اب تک پوری جنگ میں دیگر مزاحمتی تنظیموں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ تابوتوں کی وصولی کی اسرائیلی تقریب میں وزیراعظم نیتن یاہو کی شرکت کی تیاریاں مکمل تھیں، تاہم تابوتوں کی حوالگی کے وقت کے مناظر ٹی وی پر دیکھنے سے اسرائیلی عوام کے جذبات مشتعل ہوگئے۔
الجزیرہ کا عبرانی میڈیا کے حوالے سے کہناہے کہ غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالیوں کے رشتہ داروں نے اسرائیلی حکومت کو غدار قراردیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یرغمالیوں کی زندہ واپسی کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ خیال رہے کہ حماس کے کالے رنگ کے ان تابوتوں کے اوپر لکھا ہوا تھا کہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ حماس ترجمان نے بھی بارہا کہاہے کہ ان یرغمالیوں کی موت اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے ہوئی ہے جبکہ اس سے قبل فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کی جانب سے نومبر 2023ء میں 105 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہائی دی گئی تھی، جبکہ 19 افراد کی 24 یرغمالیوں کو اس مرتبہ زندہ رہا کیا گیا ہے، جن میں سے کسی ایک قیدی پر کسی قسم کے تشدد یا غذائی قلت سمیت آثار نظر نہیں آئے، جس سے مزاحمتی تنظیموں کے بیانیہ کو نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ اسرائیلی عوام میں بھی اہمیت ملی ہے۔
عبرانی میڈیا کے مطابق تابوتوں کی وصولی نے اسرائیل کے اندر نیتن یاہو حکومت کے بارے میں عوامی جذبات ایک بار پھر شدید مشتعل کردیا ہے۔ عوامی غصے کو کم کرنے کے لیے نیتن یاہو نے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کو ختم کرنے کے اشارے دے دیے ہیں، جبکہ سابق انتہا پسند وزیر بن غفیر نے غزہ پر دوبارہ جنگ مسلط کرنے کی تجویز دی ہے۔حماس کے ترجمان عبداللطیف القانوع نے بتایا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر مذاکرات میں ٹال مٹول سے کام لینا شروع کردیا ہے اور اب تک عملی مذاکرات کا آغاز نہیں ہوا۔
دوسری طرف جمعرات کو تل ابیب کے جنوبی حصے بات یام میں تین آئل ٹینکرز میں دستی بم دھماکے ہوئے ہیں، جسے اسرائیل نے فلسطینی کارروائی قراردیتے ہوئے مغربی کنارے میں آپریشن کو مزید توسیع دینے کی دھمکی دی ہے۔