چوتھی قسط:
اتحاد بین المسلمین کے داعی اور سابق ترک وزیر اعظم نجم الدین اربکان 29اکتوبر 1926ءکو شمالی ترکیہ کے ’سینوپ‘ نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔ یہ علاقہ بحرہ اسود کے ساحل پر واقع ہے۔ آپ کے والد کا نام ’محمت صابری‘ تھا۔ آپ ان کی دوسری بیوی کے بطن سے تھے۔ نجم الدین اربکان نے ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی سے میکینکل انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں آپ نے جرمنی کی ایک معروف جامعہ میں داخلہ لیا۔ یہاں سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔
نجم الدین اربکان نے جرمنی میں مشہور زمانہ جرمن ٹینک لیپرڈ اے ون کی ڈیزائننگ ٹیم کے چیف انجینئر کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ترکی واپسی پر آپ استنبول ٹیکنیکل یونی ورسٹی میں لیکچرار مقرر ہوئے، جہاں آپ کو 1965ء میں پروفیسر کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔ ان اہم ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینے کے بعد آپ نے ملکی سیاست میں حصہ لینے کا ارادہ کیا۔
سنہ 1969ءسے نجم الدین اربکان نے سیاست میں عملی طور پر حصہ لینا شروع کیا۔ آپ نے اپنی پہلی سیاسی جماعت ’نیشنل وائس پارٹی‘ تشکیل دی جو اسلامی طرزِسیاست کی حامل تھی۔ سیکولر تنگ نظر حکومت نے اس پر 1971ء میں پابندی عائد کردی۔ آپ نے 1972ء میں ’نیشنل سالویشن پارٹی‘ قائم کی اور 1973ء کے انتخابات میں حصہ لے کر 48 نشستیں حاصل کرکے سیکولر عناصر کی نیندیں اڑادیں۔ 1974ءمیں آپ نائب وزیر اعظم بھی منتخب ہوئے۔ سنہ 1977ء کے انتخابات میں آپ کی جماعت نیشنل سالویشن پارٹی ملک کی تیسری بڑی طاقت بن کر اُبھری، مگر تین سال بعد ہی ترک فوج کے سیکولر وںنے آپ کی جماعت کو کالعدم قرار دے کر آپ کو پابندِ سلاسل کر دیا۔ یہ ظالمانہ پابندی 1987ء تک رہی جو ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں ختم ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے ’رفا پارٹی‘ تخلیق کی اور 1990ء کے انتخابات میں 40 نشستیں حاصل کیں۔ یہی وہ انتخابات تھے جس کے بعد ترک سیاست میں اسلامی عنصر کو ایک اہم رکن شمار کیا جانے لگا۔ سنہ 1995ء میں ہونے والے انتخابات میں رفاہ پارٹی نے ملک کے 21 فیصد ووٹ حاصل کرلیے اور ایک دوسری جماعت کے ساتھ شراکت میں حکومت قائم کرلی۔ ترکیہ کے ایوان نمائندگان نے آپ کو اپنا قائد ایوان منتخب کر لیا۔
عدنان مندریس شہید کے بعد ترکیہ کے ایوانِ اقتدار میں پہلا اسلام پسند مرد جری داخل ہوا۔ آپ نے ترک عوام کو معیار زندگی بلند کرنے کی خاطر اہم کثیر الجہتی اقدامات کیے۔ آپ کی معتدل مزاجی اور فراست کا کرشمہ یہ ہے کہ آپ نے ترک سیاست کا محور سیکولرازم سے اسلام میں تبدیل کر دیا۔ بحیثیت وزیراعظم آپ کی خارجہ پالیسی دو مرکزی نکات پر مشتمل تھی۔ ایک یہ کہ آپ اسلامی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات کو نہایت اہمیت دیتے تھے۔ اس ضمن میں آپ نے ڈی ایٹ نامی تنظیم قائم کی جو اسلامی ممالک کے معاشی مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہی۔ دوم یہ کہ آپ صیہونیت کے سخت ناقد تھے۔ اس کے اسلامی ممالک میں بڑھتی ہوئی ریشہ دوانیوں کے سدِباب کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کے متمنی تھے۔ ترک فوج کے سیکولر عناصر کو آپ کی بلکہ دوسرے الفاظ میں اسلامی طرز حکمرانی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کہاں گوارا ہوسکتی تھی۔ انہوں نے صرف ایک سال بعد ہی اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کی حکومت ختم کردی۔ اس بار آپ کے عملی سیاست میں حصہ لینے پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔
اربکان کی سوچ کوشکست دینا ناممکنات میں سے تھا۔ آپ نے باطل کے آگے ہتھیار ڈالنا تو سیکھا ہی نہ تھا۔ 1997ءمیں آپ نے ایک اور پارٹی قائم کرکے سیکولرپرستوں کوایک بار پھر چیلنج کر دیا۔ حسبِ سابق یہ پارٹی بھی 2001ء میں سیکولروں کی تنگ نظری کا شکار ہو گئی۔ اب نجم الدین اربکان نے ’سعادت پارٹی‘ کی شکل میں سیکولرازم کے سامنے چٹان کھڑی کردی۔ ترکیہ کے موجودہ وزیر اعظم رجب طیب اردگان آپ کی ’رفاہ پارٹی‘کے ٹکٹ پر ہی استنبول کے میئر رہ چکے ہیں۔ بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج کی موجودہ ترک حکومت نے اربکان کی رفاہ پارٹی سے جنم لیا ہے۔ عالم اسلام کا یہ قابلِ فخر سرمایہ 27فروری 2011ء کو انقرہ کے ایک ہسپتال میں حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا۔ آپ کی وفات سے نہ صرف ترکیہ بلکہ سارا عالمِ اسلام اپنے ایک عظیم ترین رہنما سے محروم ہوگیا۔
نجم الدین اربکان نے اپنی سیاسی زندگی میں کبھی تصادم کی راہ اختیار نہیں کی۔ ان کو یکے بعد دیگرے 5بار پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ سیکولرازم کی محافظ فوج اور عدلیہ نے ہمیشہ نجم الدین اربکان کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ ترک عوام میں نجم الدین اربکان کے سیاسی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ نجم الدین اربکان نے جب بھی بکھرے تنکوں سے شیرازہ بندی کی تو عوام نے ہر بار پہلے سے بھی زیادہ جوش خروش سے اربکان کی پذیرائی کی۔ نجم الدین اربکان نے بھی عوام کو خالی خولی کھوکھلے نعروں سے نہیں بہلایا، بلکہ ان کی ہر ممکنہ حد تک خدمت کی۔ سیکولر ازم کی مسلسل مخالفت کے باوجود آپ نے کبھی خودساختہ جلاوطنی کا عذر لے کر ترکی سے فرار ہونے کی کوشش نہیں کی۔
بین الاقوامی گریٹ گیم کا حصہ بن کر اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے سے ہمیشہ اجتناب کیا۔ پارٹی کو پرائیوٹ لمیٹڈ بنانے، ریموٹ کنڑول سے چلانے جیسے داغوں سے اپنا دامن ہمیشہ محفوظ رکھا۔ آپ نے کبھی ایوان اقتدار میں براجمان مخالفین کو بزورِ قوت نکالنے کی بات نہیں کی۔ نظام سے بغاوت، سول نافرمانی جیسی بیساکھیوں پر کھڑے ہونے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ لوٹا کریسی، ہارس ٹریڈنگ، دھونس دھاندلی جیسے الفاظ سے اپنی لغت کو آلودہ نہیں کیا۔ نجم الدین اربکان نے کبھی اپنے عوام کو اپنی فوج سے لڑانے کی راہ اختیار نہیں کی۔ آپ نے ہر حکومتِ وقت کے ہر مظالم کا جواب نہایت تحمل مزاجی اور دانشمندی سے دیا۔ دوراندیشی سے عوام کی سوچیں بدلیں۔ ان کو اسلام کی حقیقت سے روشناس کرایا۔
مستقل مزاجی، سخت محنت، مقصد کی جانب سفر نجم الدین اربکان کی سیاست کے اہم استعارے تھے۔ ان ہی کوششوں کا ثمر ہے کہ آج اتاترک کے جدید ترکی میں سیکولرازم لرزہ براندام ہے۔ اسلامی راسخ العقیدہ سیاسی عنصر اس حد تک طاقتور ہو چکا ہے کہ اس کو شکست دینے میں ترک فوج کے بھی پَر جلتے نظر آتے ہیں۔ سنہ 1997ء میں نجم الدین اربکان کی حکومت پر شب خون مارنے والے تمام افسران آج عدالتی کٹہروں میں کھڑے ہیں۔ ترک فوج کے بے شمار اعلیٰ افسران نے آپ کے سفرآخرت میں شرکت کی۔ چشمِ فلک نے یہ بھی منظر دیکھا کہ آپ کی سیاست کی سب سے بڑی مخالف ترک فوج کا سربراہ آپ کو سلام پیش کر رہا تھا۔ اسی نجم الدین اربکان کے شاگردوں عبداللہ گل اور رجب طیب اردگان نے آج سیکولرازم کو ایسی نکیل ڈال رکھی ہے کہ ماضی میں ترک حکومتوں کو کنٹرول کرنے والی سیکولر فوج اور عدلیہ آج ترک حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔
حاصل یہ کہ نجم الدین اربکان نے اپنے شیخ ’شیخ محمد زاہد‘ کے حکم پر ہی یہ پارٹی بنائی تھی۔ اسّی کی دہائی میں نجم الدین اربکان نائب وزیراعظم بھی بنے۔ 1985ء میں نجم الدین اربکان نے ’رفاہ پارٹی‘ بنائی۔ 1996ء میں نجم الدین اربکان ترکی کے وزیراعظم بن گئے۔ نجم الدین اربکان سچے پکے مسلمان تھے۔ پانچ وقت کی نماز وہ مسجد میں جاکر پڑھا کرتے تھے۔ نجم الدین اربکان نے ترکی کی سیاست میں بھرپور حصہ لیا۔ اپنے جانشین تیار کیے۔ (جاری ہے)