تیسری قسط :
نبی کریم صلی اللہ وسلم کے زمانے میں دوسرا بڑا مدعی نبوت اسود تھا۔ عیہلہ یا ابہلہ نام بتاتے ہیں۔ اسود اس لیے کہ کالا رنگ تھا۔ یمن کا ایک سردار تھا۔ یمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی ریاست ِمدینہ کا حصہ بن گیا تھا۔ حضور علیہ السلام کی حکومت ریاست وہاں تک پہنچی تھی۔ اس دوران اسود نے نبوت کا دعوی کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ گورنر کو شہید کر کے صنعاء کے دارالحکومت میں سرکاری محلات پر قبضہ کر لیا اور اپنی حکومت کا اعلان کر دیا۔
روایات میں آتا ہے کہ مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات آئی کہ اسود نے یمن کے شاہی محل پر قبضہ کر کے اپنی حکومت کا اعلان کر دیا ہے تو حضور علیہ السلام مجلس میں فرمایا: بھئی اس کو کون سنبھالے گا؟ فیروز دیلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن کے تھے، حضور علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ کہا: یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ اجازت لی، یمن واپس گئے۔
کہتے ہیں کہ اسود نے پہلے گورنر کی بیوی کو اپنے حرم میں شامل کر لیا تھا۔ یہ فیروز دیلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کوئی کزن لگتی تھی۔ ان کے ساتھ انہوں نے ساز باز کی، جیسے چھاپہ مار کارروائی ہوتی ہے، گوریلا کارروائی ایسے ہی ہوتی ہے۔ رات کو شب خون مارا اور اسود عنسی کو قتل کر دیا اور اسلام کا جھنڈا لہرایا اور یہ چند دن کے لیے یمن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قلمرو سے نکلا تھا، پھر حضور علیہ السلام کی زندگی میں ہی واپس آ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے اطلاع ہو گئی تھی۔ آخری ایام کی بات ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں: ”فاز فیروز فاز فیروز فاز فیروز“ فیروز کامیاب ہوگیا ہے، فیروز کامیاب ہو گیا ہے، فیروز کامیاب ہو گیا ہے۔ اب پس منظر کسی کو معلوم نہیں ہے کہ کون فیروز ہے؟ کہاں کامیاب ہوا ہے؟ کیا کامیابی ہے؟ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اگلے دن وصال ہو گیا۔ اس کے ایک دو دن بعد فیروز کی اطلاع ملی تو ہمیں پتہ چلا کہ ”فاز فیروز“ جو حضور علیہ السلام فرما رہے تھے کہ فیروز اپنے مشن پر کامیاب ہو گیا ہے، اس کا مطلب کیا تھا۔ فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں اسود عنسی قتل ہوا اور یہ دوسرا مدعی نبوت بھی، یہ پہلے قتل ہو گیا تھا، حضور علیہ السلام کے زمانے میں قتل ہو گیا تھا۔
ایک مدعی نبوت طلیحہ تھا۔ اس نے بھی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نبوت کا دعوی کیا تھا۔ بنواسد قبیلے کا تھا۔ بنواسد بڑا قبیلہ تھا۔ طلیحہ بن خویلد اسدی نے نبوت کا دعوی کیا، جتھہ اکٹھا کیا۔ قبائلی دور تھا، اس زمانے میں قبائل کے نام پر، برادریوں کے نام پر جتھے اکٹھے ہوجاتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سرکوبی کے لیے معروف جرنیل ضرار بن ازور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ڈیوٹی لگائی۔ طلیحہ کے لشکر کا اور ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ کے لشکر کا مقابلہ ہوا۔ طلیحہ کو شکست ہوئی، لیکن قابو نہیں آیا، بھاگ گیا۔ البتہ ایک معروف صحابی ہیں عکاشہ بن محصن فزاری رضی اللہ تعالی عنہ، وہ اس کے کزن لگتے تھے، چچازاد تھے یا خالہ زاد تھے۔ ان دونوں کا آپس میں مقابلہ ہوا اور عکاشہ بن محصن فزاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ طلیحہ اسدی کے ہاتھوں اس جنگ میں شہید ہوئے۔ بہرحال طلیحہ کو شکست ہوئی اور بھاگ گیا۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب مختلف قبائل نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی تو طلیحہ پھر آگیا، اس نے پھر لشکر اکٹھا کیا اور مقابلے میں کھڑا ہوگیا۔ یہ خود کو نبی کہتا تھا کہ مجھ پہ وحی آتی ہے۔ بہت کچھ باتیں کرتا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ڈیوٹی لگائی۔ جب یمامہ کی جنگ سے فارغ ہوئے تو فرمایا اس کو بھی نمٹو۔ پھر مقابلہ ہوا حضرت خالد بن ولیدؓ کا اور طلیحہ بن خویلد اسدی کا۔
طلیحہ نے پھر شکست کھائی، پھر بھاگ گیا، قابو نہیں آیا۔ پہلی جنگ میں قابو نہیں آیا تھا، دوسری جنگ میں بھی قابو نہیں آیا۔ شکست کھائی اور بھاگ گیا۔ عراق کے علاقے میں گھومتا پھرتا رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا جب مصر، عراق، شام سب علاقے فتح ہو گئے۔ اس کو بات سمجھ میں آ گئی کہ فرار کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے تو اس نے رجوع کا پروگرام بنایا کہ میں واپس جاتا ہوں۔ مختلف لوگوں سے مشورہ کیا کہ میں اب کلمہ پڑھ کر واپس جانا چاہتا ہوں اور مسلمانوں کی صف میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میری توبہ کو اور میرے اسلام کو قبول کریں گے؟
ایسے موقع پر عام طور پر ہوتا ہے کہ خطرناک مجرم جب اپنے آپ کو ریاست کے حوالے کرتا ہے تو کوئی گارنٹڈ ساتھ رکھتا ہے، کسی کے ذریعے پیش ہوتا تھا تاکہ مجھے جان کی امان مل جائے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ خالد بن ولیدؓ شام کے علاقے میں آئے ہوئے ہیں ان سے بات کرو۔ اس نے کہا نہیں، وہ تو خود مار دیں گے مجھے۔ کسی نے بتایا کہ مصر کے علاقے میں عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود ہیں ان سے بات کر لو۔ کہا، ہاں وہ ڈپلومیٹ آدمی ہے، سیاست کار آدمی ہے وہ بات سمجھے گا۔ یہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا کہ مجھے امیر المومنین کی بارگاہ میں پیش کر دیں۔ مورخ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق‘ میں یہ ساری تفصیل بیان کی ہے۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ٹھیک ہے، وہ طلیحہ کو لے کر گئے، مدینہ منورہ جب گئے تو ساتھ لے گئے۔ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپؓ نے پوچھا کون ہے یہ؟ انہوں نے کہا طلیحہ ہے۔ طلیحہ اسدی؟ جی وہی طلیحہ اسدی۔ یہ کس لیے آیا ہے؟ توبہ کرنے کے لیے، اسلام قبول کرنے کے لیے۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ تو اسلام قبول کر لے گا مگر مجھے عکاشہ نہیں بھولے گا۔ عکاشہ جو ہمارا بڑا خوبصورت جوان تھا، اس کے ہاتھوں شہید ہوا تھا۔
یہاں میں ایک جملہ کہا کرتا ہوں کہ زندہ قومیں اپنے شہیدوں کو یاد رکھا کرتی ہیں۔ کئی سال گزر گئے ہیں مگر حضرت عمرؓ کو یاد ہے۔ ابن عساکرؒ نے بڑا زبردست مکالمہ ذکر کیا ہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ فرمایا کہ عکاشہ نہیں بھولے گا مجھے۔ اس کے ہاتھوں شہید ہوا تھا، جب اس کو دیکھوں گا عکاشہ یاد آئے گا تو طلیحہ سمجھدار آدمی تھا۔ اُس نے کہا حضرت! کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ مقابلہ ہوا تھا، اللہ ربُّ العزت نے عکاشہ کو میرے ہاتھوں جنت بھیج دیا ہے اور مجھے اس کے ہاتھوں جہنم جانے سے بچالیا ہے۔ میرے ہاتھوں وہ مارا گیا، شہید ہوا اور جنت میں گیا ہے۔ اگر اس کے ہاتھوں میں مارا جاتا تو جہنم میں جانا تھا۔
حضرت عمرؓ تھوڑا سا مسکرائے۔ طلیحہ نے دوسری بات کی امیر المومنین! کل قیامت کے دن میں اور عکاشہ قاتل مقتول دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جنت میں جا رہے ہوں گے تو آپ کو کیسا لگے گا؟ حضرت عمر ؓ تھوڑا سا مسکرائے اور فرمایا باتیں نہیں کرو، کلمہ پڑھو۔ طلیحہ نے کلمہ پڑھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فارس کی جنگ میں ان کو شریک کر لیا، تشکیل کر دی۔ کہتے ہیں یہ فارس کی جنگ میں کسی محاذ پر لڑتے لڑتے شہید ہو گئے تھے۔ محدثین نے جہاں صحابہ کرام کا ذکر کیا ہے وہاں طلیحہ بن خویلد اسدی ؓ کا بھی ایک صحابی کے طور پر ذکر کیا ہے۔ توبہ کر چکے تھے، جہاد میں شریک ہوئے۔ یہ تیسرے مدعی نبوت تھے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دعوائے نبوت کیا تھا اور مقابلہ کیا تھا۔ (جاری ہے)