امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کی یوکرین سے متعلق حکمتِ عملی میں تبدیلی کے واضح اشارے دے دیے ہیں۔ روس کے ساتھ مذاکراتی عمل کا آغاز ہوتے ہی امریکی صدر کا یوکرین سے متعلق لب و لہجہ ہی بدل گیا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے یوکرینی ہم منصب پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے انھیں یوکرین کی تباہی کا ذمہ دار قرار دے دیا ہے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ یوکرین کو روس کے ساتھ جنگ کی بجائے مذاکرات اور معاہدوں سے کام لینا چاہیے تھا۔
یوکرین کے حوالے سے امریکی صدر کے بیانات یورپ کے لیے بھی کسی صدمے سے کم نہیں، کیوں کہ امریکی صدر نے اشارہ دیا ہے کہ روس، یوکرین جنگ میں امریکا یورپ سے زیادہ رقم خر چ کر چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی صدر کے بیانات میں جہاں روس، یوکرین تنازع کے متعلق روس کے موقف کی حمایت اور تائید جھلکتی ہے وہاں یورپ کو بھی ہری جھنڈی دکھانے کا عندیہ دکھائی دے رہا ہے۔ گویا امریکی صدر یورپ کو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے دفاع اور تزویراتی مفادات کا تحفظ اب خود ہی کرے کیوں کہ امریکا اس جنگ سے پیچھے ہٹ رہا ہے، لہٰذا یورپ کو روس کے ساتھ اپنے معاملات خود ہی طے کر لینے چاہئیں۔ آسان لفظوں میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ امریکا اپنے مہرے کو پٹوا کر خود جان بچانے کے چکر میں ہے کیوں کہ وہ جنگ کی طوالت کے نتیجے میں اپنی اقتصادی تباہی کو بھانپ چکا ہے۔
روس، یوکرین تنازع میں امریکا کا حالیہ موقف بین الاقوامی سیاست میں اس کے تاریخی کردار کے عین مطابق ہے۔ طاقت کے کھیل میں امریکی کردار ”استعمال کرو اور پھینکو“ کا عملی مصداق ہی رہا ہے۔ امریکا نے مختلف جنگوں میں ساتھ دینے والے اپنے اتحادیوں کو اسی طرح استعمال کیا اور پھینکا ہے۔ زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔ افغان جنگ کے دور میں پاکستان امریکی اتحاد کا حصہ شمار ہوتا تھا لیکن جب بھارت اور ایران نے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کا کھیل شروع کیا تو امریکا نے پاکستان کو اس موقع پر تنہا چھوڑ دیا بلکہ الٹا پاکستان ہی پر الزام عائد کردیا کہ وہی افغان جنگ میں امریکی ناکامی کا سبب بنا ہے۔ یہی عمل اب وہ افغان طالبان کے ساتھ کر رہا ہے ۔ باخبر ذرائع کے مطابق امریکا طالبان حکومت کو اب تک اس شرط پر امداد دیتا رہا کہ وہ پاکستان سے فاصلہ رکھیں گے، مگر اب ان کے ساتھ کیے گئے وعدوںکو بھی پشِ پشت ڈال دیا ہے بلکہ الٹا افغانستان میں موجود اسلحہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
ماضی میں یہی کھیل تائیوان اور عراقی اتحادیوں کے ساتھ کھیلا جا چکا ہے۔ یوکرین کے صدر کو یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ انہیں عالمی سیاسی بساط پر ایک مہرے کی طرح استعمال کیا گیا اور اب شاہ کو بچانے کے لیے ان کی قربانی دی جا رہی ہے۔ یہ سوال تو اب یوکرین کے عوام بھی کریںگے کہ تباہی، شکست، رسوائی اور دھوکہ کھانے سے بہتر نہیں تھا کہ روس کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا جاتا؟ ایک ایسے موقع پر جب یورپ کو یوکرین کی شکست کی صورت میں روس کی بڑی یلغار کے خطرات لاحق ہیں، امریکا کا میدانِ جنگ سے ہٹ جانا دراصل میدان میں اتحادی بدلنے کے مترادف ہے۔ یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ دراصل یوکرین بھی ”استعمال کرو اور پھینکو“ کے نظریے کا شکار ہوا ہے جو کہ امریکی عالمی سیاست کا اہم فلسفہ ہے۔
بنیادی طورپر یہ رویہ دراصل عالمی سیاست میں اپنی طاقت کے اظہار کا طریقہ ہے۔ دنیا اس وقت بھی جس کی لاٹھی، اس کی بھینس کی کہاوت پر ہی عمل کر رہی ہے۔ فیصلے کسی اصول، نظریے یا اخلاقی جواز کی بجائے محض مفادات کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں۔ یہ مفادات بھی عوامی نہیں بلکہ سرمایہ رکھنے والی طاقتوں کے چاہت کے مطابق ہوتے ہیں۔ ان حالات میں جمہوریت، انسانی حقوق، آزادی اظہار اور انصاف جیسے نعرے ایک دل کش فریب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ سعودی عرب میں ہونے والے روس، امریکا مذاکرات مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب کی اہمیت اور اس کے کردار کو تسلیم کرنے کا اعلان ہے۔ اس امر کا امکان موجود ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکا اپنے روایتی حریف روس کے ساتھ مل کر نئے جغرافیائی یا اقتصادی معاہدوں کی جانب بڑھ سکتا ہے۔
روس اور امریکا کے درمیان جنگ بندی یا تعلقات میں بحالی، اقتصادی روابط اور تجارتی پابندیوں اور معاشی جکڑ بندیوں کے خاتمے سے عالمی ماحول میں موجود تناو کی کیفیت ختم ہوگی تاہم دوسری جانب مشرقِ وسطیٰ میں کسی غیر معمولی تبدیلی کے امکانا ت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سعودی قیادت کو امریکا کی فریبی سیاست کا شکار ہونے کی بجائے عالمی طاقتوں کے درمیان متوازن انداز میں پیش رفت کرنے کا ہنر استعمال کرنا چاہیے۔ یہ وقت ہے کہ مسلم ممالک اسلامی اخوت کی بنیاد پر نہ کہ محض مفادات پر مشتمل بلاک تشکیل دیں۔ یوکرین کے میدان سے امریکا اس اعتراف کے ساتھ پسپا ہو رہا ہے کہ یہ جنگ ہونی ہی نہیں چاہیے تھی۔ امریکا نے اس معاملے پر روس کے موقف کو قبول کر لیا ہے لیکن یہ کام خرابی بسیار کے بعد ہوا ہے۔ بہرحال یوکرین اس جنگ میں تباہ ہوگیا اور اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اس موقع پر امریکی رویے کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ
ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا