حضرت یوسف علیہ السلام جیسا نصیب بھی کسی کسی کے حصے میں آتا ہے۔ والد بھی نبی، دادا بھی اور پردادا بھی۔ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے تھے اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے۔ اپنے بیٹے میں نور نبوت دیکھ کر والد حضرت یعقوب علیہ السلام کی ان سے عشق و محبت بڑھ جانا ایک فطری عمل تھا۔ گیارہ بھائیوں کے دل میں حسد کا طوفان جوش مارنے لگا اور پھر ایک روز وہ یوسف علیہ السلام کو سیر کرانے کے بہانے جنگل لے آئے۔ پھر وہی ہوا جو آپ اور ہم نے بچپن سے سن رکھا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کنویں میں پہنچے اور وہاں سے بازار میں بکنے کے لیے پہنچ گئے۔ عزیز مصر کے گھر تک جاپہنچے اور پھر آزمائش کا شکار ہوکر جیل کی کال کوٹھڑی میں قید ہو گئے۔
انسان کبھی سو فیصد بے قصور ہوتا ہے، پھر بھی اس پر آزمائشیں آتی ہیں۔ یہ آزمائشیں دے کر اللہ تعالیٰ انسان کو آزماتا ہے، کسی بڑی چیز کے لیے تیار کرتا ہے۔ یہ آزمائشیں آخرش کامیابی کا سندیسہ لاتی ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام ابھی ابھی جیل میں ہی تھے کہ مصر کے بادشاہ کو خواب آتا ہے۔ اس خواب کی تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام سے پوچھی جاتی ہے۔ آپ بتاتے ہیں کہ قحط آئے گا اور سب کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ ابھی غلہ اور اناج ذخیرہ کرلیا گیا تو اگلے سال اچھے گزریں گے، ورنہ زندگی مشکل ہوجائے گی۔ انسان ایک ”معاشی حیوان” ہے۔ اس کے بجائے حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ پیغام دیا کہ انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے۔ انہوں نے جیل میں ہونے کے باوجود حکومت کو اچھا مشورہ دیا کہ جتنی بھی گندم پیدا ہو، اسے سٹوں میں ہی رہنے دیا جائے اور ذخیرہ کرلیا جائے۔ صرف اتنی ہی گندم بالیوں سے نکالی جائیں جو فوری استعمال کرنی ہو۔
بادشاہ کے دربار تک آپ کی عقل مندی، دانش اور دُوراندیشی کی شہرت پہنچ چکی تھی۔ جیل سے باہر نکالنے کے لیے حکم آگیا اور ڈائریکٹ وزیر مقرر کیے گئے، لیکن آپ نے باہر نکلنے سے انکار کردیا۔ فرمایا: ذرا ان عورتوں سے تو پوچھیے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟ ذرا میرے کیرکٹر کے بارے میں تصدیق کرلیجئے۔ اس لیے کہ اب حضرت یوسف علیہ السلام کو وزیر کا عہدہ مل رہا تھا۔ بڑے عہدے پر فائز ہونے کے لیے کیرکٹر سرٹیفکیٹ بنیادی ضروری تھا۔ اس لیے جب تک عزیز مصر کی بیوی نے بھی یہ نہیں کہہ دیا کہ میں نے ہی ان کو بہکانے کی کوشش تھی، تب تک آپ جیل سے باہر نہ نکلے، نہ ہی عہدہ قبول کیا۔ بالآخر آپ جیل سے نکلے اور کس شان سے نکلے کہ عزیز مصر خود پکار اٹھا: انک الیوم لدینا مکین امین۔ آج کے دن آپ کا رتبہ بھی بلند ہے اور آپ پر اعتماد بھی فراواں ہے۔ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا: اجعلنی علی خزائن الارض، انی حفیظ علیم۔ مجھے غلے کی ذمہ داری سونپ دیجیے، میں قابل اعتماد، امانت دار بھی ہوں اور اس فن کی مہارت بھی رکھتا ہوں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے اس فرمان سے مینجمنٹ کا ایک اور اصول بھی سمجھا دیا کہ جب بھی کسی عہدے پر تعیناتی کیجئے، تو اس کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں: قابل اعتماد ہونا اور قابلیت و اہلیت ہونا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا یہ واقعہ ہمیں مینجمنٹ اور لیڈر شپ کے بہت سے اصول سمجھاتا ہے۔ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کبھی انسان حسد کا شکار ہوجاتا ہے۔ کبھی انسان پرایوں کے بجائے اپنوں کے ہاتھوں نقصان اٹھاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں اس کی عزت اور کیرکٹر بہت اہم ہے، بالخصوص اگر کوئی عوامی عہدہ مل رہا ہو تو پہلا نمبر اسی ساکھ کا آتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ثابت قدم لوگوں کو منزل مل کر ہی رہتی ہے، حالات جیسے بھی ہوں، ایک نہ دیک دن امید کا سورج طلوع ہوکر رہتا ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام حق اور سچ کے پیامبر تھے، اس کے باوجود پہلے بھائیوں کے حسد کا شکار ہوئے، اس کے بعد عزیز مصر کی بیوی کے انتقام کا نشانہ بنے۔ لیکن ثابت قدمی اور اللہ پر غیرمتزلزل یقین وہ دولت تھی جس نے انہیں ایک دن مصر کا وزیر بنادیا۔ ایک تیسرا سبق بھی ملتا ہے کہ دنیا اسباب کا جہان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے نظام کو اسباب کے ماتحت کیا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی زبردست مینجمنٹ نے یہ ممکن بنادیا کہ قحط کے بدترین دور میں بھی مصر اس کی لپیٹ میں نہ آسکا اور نہ صرف یہ کہ خود محفوظ رہا، بلکہ دوسرے شہروں کے لاتعداد انسانوں کی حفاظت کا ذریعہ بھی بنا رہا۔ ایک چوتھا سبق بھی ملتا ہے کہ پلاننگ کسی بھی مشکل سے نکال سکتی ہے۔ اپنے کاموں کو منصوبہ بندی اور پلاننگ سے سرانجام دینا ہی اللہ کی منشا اور رضا ہے اور یہی حضرت یوسف علیہ السلام جیسے عظیم پیغمبر کی زندگی کا سبق بھی ہے۔