حماس کے بغیر غزہ کی تعمیرِ نو کیسے ممکن ہوگی؟ (علی ہلال)

اِس وقت جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی بمباری کے باعث تباہ شدہ غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کو ڈیڑھ ملین فلسطینیوں کی جبری سے مشروط کررہے ہیں، وہیں دوسری جانب کچھ ایسی تجاویز بھی زیر بحث آئی ہیں جن کے مطابق فلسطینیوں کو بے دخل کئے بغیر غزہ کی تعمیر نو ممکن ہے۔ تاہم اس منصوبے پر عمل درآمد کو ایک ایسی شرط سے مشروط کردیا جس پر غزہ کی پٹی کے بیشتر باشندوں سمیت غزہ کی مقاومتی کے حامی متفق نہیں ہیں۔

منگل کو غزہ کی پٹی کی مقاومتی تنظیم حماس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حماس نہ اسلحہ رکھے گی اور ناہی غزہ کی پٹی سے جلاوطن ہونے کے قابض اسرائیلی ریاست کے مطالبے پر عمل کرے گی۔ غزہ کے مستقبل سے متعلق کوئی بھی فیصلہ فلسطین کے مشترکہ اتفاق پر کیا جائے گا۔ منگل کو اسرائیلی سرکاری براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے کہاہے کہ صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو نے جنگ بندی مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے آغاز کی منظوری میں غزہ کو اسلحہ سے پاک کرنے یا حماس کے انخلاء سے مشروط کردیا ہے۔ خیال رہے کہ جمعرات کو آخری اطلاعات کے مطابق حماس نے جمعرات کو قیدی تبادلے کے ضمن میں اسرائیل کو چار یرغمالیوں کی لاشیں حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
لندن سے شائع ہونے والے عرب جریدے کے مطابق حماس کے القسام بریگیڈ ہفتے کے روز قیدی تبادلے میں چھ یرغمالی اسرائیل کو حوالے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس قبل حماس نے تین یرغمالیوں کی رہائی کا اعلان کیا تھا جبکہ اسرائیل کو مرنے والے 6 یرغمالیوں کی لاشیں دینے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے شمالی غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی جاری تھی جبکہ اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے میں اہم شق شمالی غزہ میں دولاکھ خیموں اور 60 ہزار موبائل ہومز کی سپلائی دینے دینے سے انکار کیا تھا۔

پیر کو رات گئے ثالثوں کے ساتھ بات چیت کے بعد اسرائیل نے موبائل ہومز کی سپلائی کی بحالی کو چھ زندہ یرغمالیوں کی حوالگی کے ساتھ مشتروط کیا۔عرب میڈیا کے مطابق اس پر اتفاق ہوا ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان ہفتے کو قیدی تبادلے کا ساتواں راؤنڈ ہوگا۔ اس سے قبل 6 راؤنڈز میں حماس اسرائیل کو 19 اسرائیلی اور 5 تھائی لینڈی باشندے حوالے کرچکی ہے۔19 جنوری سے جاری جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کی کی مدت 42 روز ہے۔ ہفتے کو جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کا 35 واں دن ہوگا۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ پہلے جنگ بندی معاہدے کے دوران اسرائیل متعدد مرتبہ فلسطینی مقاومتی تنظیموں پر اپنی نئی شرائط منوانے میں کامیاب رہا ہے۔ عبرانی میڈیا اور کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایک غیر حکومتی تنظیم کے ساتھ ٹیبل پر بیٹھ کر اپنے یرغمالیوں کی رہائی کے لئے مذاکرات کرنا اور اس کی شرائط ماننا بھی اسرائیل جیسے ملک کے لئے بہت عار ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کی طاقتور ترین فوج رکھتا ہے جبکہ ٹیکنالوجی اور جاسوسی کے میدان میں عالمی سطح پر بہت ایڈوانس ہے، لیکن اس کے باوجود اپنے 251 یرغمالیوں کی فوجی آپریشن کے ذریعے رہائی میں ناکامی نے اسرائیل کی جنگی صلاحیتوں پر سوالات مرتب کردیے ہیں۔

اسرائیلی میڈیا نے کہاہے کہ جمعرات کا روز اسرائیل پر بہت بھاری گزرے گا جس سے اسرائیلی حکومت بالخصوص وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔ حماس کی جانب سے چار ایسے اسرائیلی یہودیوں کی لاشیں اسرائیل فوجی آپریشن کے بجائے قیدیوں کے بدلے میں وصول کررہاہے جس پر اسرائیل میں عوامی سطح پر بڑا ردعمل آنے کا خطرہ ظاہر کیا جارہاہے۔
یادرہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ڈیڑھ ملین فلسطینیوں کی غزہ سے بے دخلی کے مطالبے کو ماننے سے انکار کرنے والے عرب ممالک مصر اور اردن ہیں، تاہم عرب میڈیا کے توسط سے مصر کی جانب سے سامنے آنے والے موقف میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی تعمیر نو کے لئے فلسطینیوں کو بے گھر نہیں کیا جائے گا تاہم غزہ میں سیاسی و انتظامی امور فلسطینی اتھارٹی سنبھالے گی۔ اس منصوبے میں مصر کی جانب سے دی جانے والی معلومات کے مطابق غزہ کی تعمیر نو پر 50 بلین ڈالر لگیں گے۔ غزہ کو تین انتظامی اداروں میں تقسیم کردیا گیا جائے گا جہاں دولاکھ رہائشی یونٹس تعمیر کی جائیں گی۔ اس میں پچاس مصری کمپنیاں حصہ لیں گی اور یہ پروجیکٹ پانچ برس میں مکمل ہوگا۔
مصر کے مطالبے میں حماس کی جگہ غزہ کی پٹی کے انتظامات فلسطینی اتھارٹی کو دینے پر دباؤ ڈالا جارہاہے۔ اس ضمن میں ایک اہم عرب ادارے نے کہاہے کہ مصری انٹیلی جنس نے گزشتہ ہفتے خلیل الحیہ کی قیادت میں حماس وفد کو شدید دھمکی دی ہے کہ مصری تجویز نہ ماننے کی صورت میں غزہ اور حماس دونوں ”نہیں رہیں گے”۔ مصر سے قبل عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیط اور متحدہ عرب امارات کے سیاسی مشیر نے بھی غزہ کی تعمیر نو کے لیے حماس مائنس تجویز دی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ تنازع بڑھ جاتاہے تو یہ عرب ممالک اور حماس کے درمیان پہلا باضابطہ تنازع ہوگا جس کے اثرات مستقبل قریب میں فلسطینی کاز پر مرتب ہوں گے جبکہ عربوں کی صفوں میں اس اختلاف کا اسرائیل کو فائدہ ہوگا۔