امریکا یہودیوں کیلئے اپنی سرزمین پر ریاست قائم کرے!

صہیونی وزیر اعظم کی دھمکی کے بعد دبائو بڑھانے کیلئے غزہ کے قریب امریکی بمبار طیاروں نے پروازیں کی ہیں، امریکی فوج نے تصدیق کی ہے کہ اسٹریٹجک بمبار طیاروں نے مشرق وسطی پر پروازیں کی ہیں۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے مطابق متعدد پارٹنر ممالک کی حدود میں لائیو گولا بارود گرانا مشن کا حصہ تھا جس کا مقصد ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی جانب سے ایران پر بمباری کی دھمکیوں کے درمیان کسی بھی ریاستی یا غیر ریاستی عنصر کو جواب دینے کی صلاحیت دکھانا تھا۔غزہ کے قریب یہ پروازیں ایسے وقت میں سامنے آئیں جب اسرائیلی وزیراعظم نے دھمکی دی کہ حماس کی جانب سے تمام قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا توجہنم کے دروازے کھل جائیں گے۔ دوسری جانب سینکڑوں آباد کاروں نے قابض اسرائیلی فوج اور پولیس کی فول پروف سیکورٹی میں مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولا، فلسطینی مذہبی جماعتوں نے قبلہ اول کی بے حرمتی کے یہودی اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں جاری تنازع ایک بار پھر شدت اختیار کر چکا ہے اور اس بار بھی امریکا اور اسرائیل اپنے جارحانہ عزائم کے ساتھ فلسطینی عوام کے خلاف کھلے عام جنگی جنون کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ امریکی اسٹریٹجک بمبار طیاروں کی غزہ کے قریب پروازیں اور اسرائیلی وزیر اعظم کی دھمکیاں اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ خطے میں امن کے قیام کی بجائے جنگ و جدل، دہشت اور بے یقینی کو مزید ہوا دی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو کی طرف سے قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر دی جانے والی دھمکیاں اس کے غاصبانہ عزائم کو مزید آشکار کر رہی ہیں، جبکہ امریکی فوج کی موجودی اور مشقیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ اسرائیل کو آج بھی نہتے فلسطینیوں کیخلاف امریکا کی جانب سے ہر ممکن عسکری اور سفارتی حمایت حاصل ہے۔ یہ صورتحال عالمی برادری، بالخصوص مسلم دنیا کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ پوری دنیا کے سامنے دن کی روشنی میں امن معاہدہ ہونے کے باوجود اس کی دھڑلے اور ڈھٹائی سے خلاف ورزی کی جا رہی ہے اور معاہدے کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔
اسرائیلی حکام کی سرپرستی میں قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی، فلسطینی علاقوں میں جاری ظلم و سفاکیت اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے میں رکاوٹیں ڈالنا اسرائیل کے مکروہ عزائم کا عکاس ہے۔ ظلم کی حد یہ ہے کہ غزہ میں اگر کسی طرح جنگ بندی ہے تو دوسری طرف مغربی کنارے میں قابض فوج نے ایک لمحے کیلئے بھی کارروائیاں نہیں روکی ہیں، گزشتہ دن ہی قابض جارح فوج نے غرب اردن کے طولکرم اور نور شمس کیمپ میں وحشیانہ کارروائیاں کرتے ہوئے درجنوں فلسطینی گھروں کو مسمار کر دیا، جس سے ہزاروں مظلومفلسطینی بے گھر ہو گئے۔ اسی طرح غزہ میں رفح کے علاقے میں بھی جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہتے فلسطینیوں کو نشانہ بنایا گیا اور یہ عمل بلاکسی رکاوٹ کے جاری ہے۔ عالمی برادری اگر واقعی فلسطینی عوام کے حقوق کیلئے سنجیدہ ہے، تو اسے فوری طور پر اسرائیلی جارحیت کی روک تھام کیلئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اسرائیلی سفاکیت کی کھلی امریکی حمایت یہ ظاہر کرتی ہے کہ واشنگٹن کو نہ تو انسانی حقوق کی پروا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی قوانین اور جمہوری اصولوں کی۔ جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیل کی جانب سے مسلسل خلاف ورزیاں اور حماس کے ساتھ معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ اسرائیل امن نہیں بلکہ فلسطینیوں کی مکمل تباہی کا خواہاں ہے اور اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کے نزدیک امن کا مفہوم صرف یہ ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر کوئی فلسطینی باقی نہ رہے اور اس پر مکمل اسرائیلی قبضہ ہو۔ امریکا کا انصاف اور جمہوریت بھی نرالی ہے، جو ٹرمپ اور نیتن یاہو کی اس بچکانہ خواہش سے واضح ہے کہ فلسطینی ریاست سعودیہ میں قائم کی جائے یا پھر فلسطینیوں کو اردن، شام، لبنان اور مصر کی طرف دھکیل دیا جائے۔ دنیا کے کس قانون کے تحت یہ بات کی جا رہی ہے؟
انصاف تو یہ ہے کہ ان یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین سے بے دخل کردیا جائے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا بھر سے لاکر فلسطین پر بسائے گئے اور جو آج اپنے ناجائز قبضے کو اسرائیل کی صورت میں توسیع دے کر ایک ”ریاست” کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ حق یہ ہے کہ فلسطین صرف اور صرف فلسطینیوں اور عربوں کا ہے، جن میں یہاں کے قدیمی یہود، مسیحی اور مسلمان سب شامل ہیں اور یہ وہ حق ہے جسے دنیا کے کسی بھی عدالتی فورم پر نہیں جھٹلایا جا سکتا۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ فلسطینیوں کو فلسطین سے نکالنے کی بجائے ان تمام یہودیوں کو امریکا میں لے جا کر بسایا جائے اور وہیں ان کی ایک ریاست قائم کی جائے، جو پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی سرپرستی میں دنیا بھر سے لا کر فلسطینی سرزمین پر تھوپے گئے۔ اسرائیل کو اپنی اوقات نہیں بھولنی چاہیے، انٹرنیٹ پر آج بھی ان یہودیوں کی تصویریں بطور ثبوت موجود ہیں، جو دنیا بھر سے فلسطین میں اس حال میں داخل ہوتے تھے کہ ان کے ہاتھوں میں عربی زبان میں پناہ دینے کی درخواست پر مشتمل بینر ہوتے تھے۔ آج دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ انہی پناہ گیر یہودیوں کی اولاد آج اپنے قبضے کو اسرائیل کے عنوان سے توسیع دے کر اصل فرزندان زمین کو بے دخل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
امریکا کی یہ روش کسی طرح بھی انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔ اس کی اس کھلی جانبداری اور ڈھٹائی سے خطے اور دنیا میں عدم استحکام کی نئی لہر شروع ہوجائے گی۔ بہر کیف جناب ٹرمپ کے آمرانہ رویے اور کھلم کھلا جانبداری اور جارحیت سے یہ امر واضح ہو چکا ہے کہ امریکا مشرق وسطی میں حقیقی امن کا خواہاں نہیں، بلکہ وہ امن کے نام پر اپنے لے پالک اسرائیل کو مزید طاقتور بنانے کیلئے ہر ممکن حربہ استعمال کر رہا ہے۔ یہ عالمی برادری اور بالخصوص مسلم امہ کیلئے امتحان کی گھڑی ہے کہ وہ کب تک اسرائیل اور امریکا کی من مانیوں کو برداشت کرتے رہیں گے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ دنیا امریکی اور اسرائیلی بدمعاشی کے خلاف کھل کر سامنے آئے اور فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے عملی اقدامات کرے۔ اگر ٹرمپ فلسطینیوں کی بے دخلی پر بضد ہے تو عربوں اور مسلم دنیا کو یہ متفقہ طور پر یہ مطالبہ کرنا ہوگا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد فلسطینی سرزمین پر بسائے گئے یہودیوں کی موجودہ اولاد کو یا تو واپس ان کے آباء و اجداد کے ملکوں کو بھیج دیا جائے یا پھر امریکا اپنی سرزمین پر ان کیلئے متبادل انتظام کرے۔ یوں ہے تو پھر یونہی سہی!