دورِ اوّل کے جھوٹے مدعیانِ نبوت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کا طرزِعمل!

مجلسِ احرار اسلام پاکستان کے زیر اہتمام دار بنی ہاشم معمورہ ملتان میں سالانہ ختم نبوت کورس جاری ہے اور شاید منگل تک جاری رہے گا۔ میں نے بھی حسب معمول، حسب سابق اس میں حاضری کا وعدہ کیا تھا اور کچھ گزارشات پیش کرنے کا ارادہ تھا، لیکن علالت کی وجہ سے سفر کا موقع نہیں بن سکا۔ لیکن میں اس سے غیرحاضر بھی نہیں رہنا چاہتا، اس لیے میں کچھ باتیں ریکارڈ کے ذریعے مجلس تک پہنچانا چاہتا ہوں تاکہ میری حاضری شمار ہو جائے اور اس ثواب سے محروم نہ رہوں۔ (ضبط و تحریر حافظ کامران حیدر)

”ختم نبوت کا عقیدہ ہمارا بنیادی عقیدہ ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک کے آخری نبی اور رسول ہیں، سلسلہ نبوت و رسالت اللہ رب العزت نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل فرما دیا اور حضور علیہ السلام کے بعد کسی کو نبوت نہ ملی ہے نہ ملے گی۔ یہ عقیدہ ختم نبوت ہمارا بنیادی عقیدہ ہے اور اس پر استقامت اور اس کے تقاضوں سے آگاہی ہماری ایمانی ذمہ داری ہے۔ آج کے ماحول میں چونکہ ہمیں منکرین ختم نبوت سے واسطہ پیش آتا ہے بالخصوص قادیانیت سے تو ایک تو اس عقیدے سے وابستگی، استقامت، اس سے آگاہی و بیداری اور دوسرا منکرین ختم نبوت کی چالوں سے، ان کی حرکتوں سے اور ان کے فتنے سے بچنے کے لیے تیاری رکھنا بھی ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ مجھے مختلف کورسز میں گفتگو کا موقع ملتا رہتا ہے۔ بہت سے پہلوؤں پر گفتگو ہوتی ہے۔ آج میں ایک پہلو پر گفتگو کرنا چاہوں گا کہ نبوت کا دعویٰ خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا ہے، صحابہ کرام کے زمانے میں ہوا ہے۔ اس دور کے مدعیان نبوت کے ساتھ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا طرز عمل کیا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبوت کے دعویداروں کو کیسے ڈیل کیا ہے؟ ہمارے لیے سب سے بڑا اسوہ یہی ہے کہ جو طرز عمل جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا اور جو طرز عمل حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اختیار کیا اسی کی پیروی کرنی چاہیے اور وہی قیامت تک ہمارے لیے اسوہ ہے، نمونہ ہے، آئیڈیل ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ان میں سے ایک ایک کا تھوڑا تھوڑا تذکرہ کروں گا۔ یہ بات عرض کرنے کے لیے کہ نبوت کے دعویداروں کے ساتھ خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل کیا رہا ہے؟ سب سے پہلے تو مسیلمہ بن حبیب۔ یہ یمامہ کے علاقے بنو حنیفہ قبیلے کا بڑا چوہدری تھا۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیغام رسانی بھی کی، حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر بھی ہوا، پیشکشیں بھی کیں، لیکن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی راستہ نہیں دیا۔ یہاں ایک بات میں عرض کرنا چاہوں گا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حضور علیہ السلام کی حیات تک مسیلمہ کذاب کا دعویٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں مقابل نبی کے طور پر نہیں تھا، بلکہ خود کو وہ حضور علیہ السلام کی نبوت کا شریک کار کہتا تھا کہ میں حضور کا امتی ہوں اور شریک نبی ہوں، نبوت کا کچھ حصہ مجھے ملا ہے اور مجھے حضور علیہ السلام کے کام میں شریک کیا گیا ہے۔ اس کا دعویٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں حضورکے مقابلے میں آنے کا نہیں تھا۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مقابلے پر آیا ہے۔ حضور علیہ السلام کے زمانے میں وہ مصالحت کی کوشش کرتا رہا، بارگیننگ کی کوشش کرتا رہا، سودے بازی کوشش کرتا رہا۔ اس پر ایک دو باتیں عرض کروں گا۔
بخاری شریف کی روایت ہے اس نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد بھیجا دو آدمیوں پر مشتمل، عبداللہ بن نواحہ اور ایک اور آدمی تھا، انہیں خط دے کر بھیجا۔ اس وفد کے ساری ملاقات روایت میں موجود ہے، خط کا متن بھی روایت میں موجود ہے۔ اس کے خط کا عنوان یہ ہے : نعوذ باللہ ”من مسیلمة رسول اللہ الیٰ محمد رسول اللہ” یعنی وہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ کا رسول مانتا ہے اور خود کو بھی اللہ کا رسول کہتا ہے۔ ”اشرکت معک فی الامر” وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ رہا ہے کہ مجھے نبوت میں آپ کے ساتھ شریک کیا گیا ہے۔ ”ولکن قریشا قوما یعتدون” یہ قریشی لوگ ہیں کسی کا حصہ مانتے نہیں ہیں، تجاوز کرتے ہیں، بات تسلیم نہیں کرتے۔
یہ اس کے خط کا عنوان اور خط کا متن کہ میں شریک نبی ہوں، آپ اللہ کے رسول ہیں، میں بھی اللہ کا رسول ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر دو چیزیں بطور رد عمل کے اظہار فرمایا۔ خط لانے والے دونوں قاصدوں سے پوچھا ”اتشھد انی رسول اللہ” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ انہوں نے کہا: ”نشھد” ہم گواہی دیتے ہیں۔ پھر پوچھا ”اتشھد ان مسیلمة رسول اللہ” کیا تم اس کے بعد یہ بھی گواہی دیتے ہو کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے؟ انہوں نے کہا ”نشہد” ہم گواہی دیتے ہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا ”لو لا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما” اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سفیروں کو، نمائندوں کو قتل نہیں کیا جاتا۔ اگر یہ ضابطہ قانون نہ ہوتا یا عرف رواج نہ ہوتا تو میں تم دونوں کی گردیں اڑوا دیتا۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ماننے کے بعد کسی اور کو نبی ماننا ارتداد ہے اور مرتد کی سزا شرعاً قتل ہے۔ لیکن چونکہ ایک عام عرف اور تعامل یہ تھا کہ سفیر کو، نمائندے کو قتل نہیں کیا جاتا، اس وقت کے بین الاقوامی ضوابط میں تھا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس وجہ سے میں تمہیں کچھ نہیں کہہ رہا۔
یہ خط و کتابت امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے بخاری شریف میں نقل فرمائی ہے۔ یہ میں نے اس لیے عرض کی ہے کہ مسیلمہ کا دعویٰ مقابل نبی کا نہیں تھا شریک نبی کا تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار نہیں کرتا تھا، بلکہ ان کو رسول مانتا تھا۔ پھر بخاری شریف ہی کی ایک روایت کے مطابق مسیلمہ ایک بڑا وفد لے کر مدینہ منورہ آیا ہے کہ خود بات کروں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ملاقات کی ہے، چند جملے ہوئے ہیں لیکن ملاقات کی ہے۔ اس کا تقاضا یہ تھا کہ آپ بھی اللہ کے رسول ہیں اور نعوذ باللہ میں بھی ہوں۔ آپ دو باتوں میں سے ایک بات کر دیں یا اپنے بعد اپنا جانشین مجھے نامزد کر دیں یا تقسیم کر لیں دیہات میرے حوالے کر دیں اور شہر آپ سنبھالیں۔ ”لنا وبر ولک مدر” آپ ان میں سے کوئی بات طے کر لیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بات سنی، زمین پہ لکڑی پڑی ہوئی تھی ٹوٹی ہوئی ٹہنی، اٹھائی اور فرمایا تم مجھ سے زمین کی خلافت کی بات کرتے ہو، اگر تم یہ لکڑی بھی مانگو گے تو میں نہیں دوں گا اور اپنی حدود میں رہو۔ اگر تم نے اپنی حدود کراس کی تو اللہ پاک تمہاری ٹانگیں کاٹ دے گا تمہارا راستہ روک دے گا۔
یہ مسیلمہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں اس طریقے سے اپنا داؤ پھیلاتا رہا، اپنا دائرہ وسیع کرتا رہا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ مقابلے پر آیا ہے۔ جنگ ہوئی ہے، جنگ میں یہ قتل ہوا ہے اور یہ بھی بڑا دلچسپ واقعہ ہے اس کے قاتل حضرت وحشی بن حرب رضی اللہ تعالی عنہ ہیں، وہ خود اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ یہ وحشی وہی ہیں جنہوں نے احد کی جنگ میں سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا، ان کا سینہ چاک کیا تھا، اور ناک اور اعضاء بھی کاٹے تھے۔ جب فتح مکہ پر اسلام قبول کیا تو خود کہتے ہیں میرے دل میں یہ احساس تھا کہ میرا تعارف جب بھی ہوتا ہے حمزہ کے قاتل کے طور پر ہوتا ہے۔ یہ مجھے محسوس ہوتا تھا تو میں نے طے کر لیا کہ موقع ملا تو اتنا ہی بڑا کافر ماروں گا تاکہ حساب برابر ہو جائے۔ مجھے یمامہ کی جنگ کی خبر ملی تو میں نے وہ ہربہ، ہربہ چھوٹے نیزے کو کہتے ہیں جو بازو کے برابر ہوتا ہے۔ وہ ہربہ میں نے سنبھال کر رکھا ہوا تھا وہی ہربہ، نیزہ میں نے اٹھایا اور جنگ میں چلا گیا اور پھر ان کے ہاتھوں مسیلمہ قتل ہوا ہے۔ وہ لمبی تفصیل ہے میں چھوڑتا ہوں اور یہ پھر کہتے ہیں کہ دیوانہ وار میدان جنگ میں اعلان کر رہے تھے کہ لوگو! مجھے حمزہ کا قاتل کہا جاتا تھا مسیلمہ کا قاتل بھی میں ہوں۔
ایک تو یہ مسیلمہ تھا جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کذاب فرمایا تو اب تک کذاب ہی ہے۔ حضور علیہ السلام نے اسے فرمایا: ”مسیلمة الکذاب”۔ کمزور آدمی نہیں تھا۔ کہتے ہیں جب یہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مقابلے پر آیا ہے تو اسی ہزار کا لشکر بتاتے ہیں اس کا، لیکن اللہ پاک نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی، یہ شکست کھا گیا۔
(جاری ہے)