پیکا: پھیکا یا کڑوا

گورنر پنجاب کا کہنا ہے سال دو سال میں بلاول وزیر اعظم بن جائیں گے۔ اسے اندازہ کہا جائے، خوش گمانی، خوش فہمی یا پیشین گوئی، کچھ بھی کہیں بات نئی نہیں ہے۔

ایک باخبر سینیٹر جو بڑی سرکار کے خود ساختہ ترجمان بھی سمجھے جاتے ہیں، ان کا بھی کچھ وقت پہلے ایسا ہی دعویٰ آیا تھا۔ یہ خواہش ہو یا خوش گمانی بالکل غیر شرعی نہیں، نہ ہی غیر قانونی اور نہ ہی خود غرضی۔ اور ماضی میں ایسا ہو چکا ہے کم سیٹوں والے کے پاس بڑے بڑے عہدے جمہوریت تابندہ رکھنے کے لیے دیے جاتے رہے ہیں۔ ایسا ہونا قانونی یا روایات کے لحاظ سے ممنوع نہیں ہے، لیکن اِس وقت جو حالات اور زمینی حقائق ہیں ان کے مطابق یہ بے وقت اور قبل از وقت راگنی ہے۔ اس لیے ہوگی یا نہیں اس پہ توجہ دینا صرف اپنی جان گھلانے کے برابر ہے۔
٭٭٭
کہا جا سکتا ہے پنجاب میں پی پی کو مریم بی بی اسپیس نہیں دے رہیں۔ پی پی کے رہنما حضرات و خواتین دل برداشتہ ہیں تو ایک بڑی نشست، صوبے کے سب سے بڑے عہدے، بڑے منصب پر بیٹھی شخصیت اپنے لوگوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بھی ایسا کہہ سکتے ہیں اور ن لیگ کو چھیڑنے غصہ دلانے کے لیے بھی تاکہ میاں حضرات کی پارٹی میں کچھ ارتعاش و اشتعال آئے۔ مریم اورنگ زیب قسم کی قیادت جوابی کارروائی کے لیے لب کھولے ، تلخی اور رنجش میں جتنی تیزی اور سختی پیدا کی جائے۔ یہ سب پی پی کی گڈی چڑھنے کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔ کچھ بھی ہو، موجودہ حقائق کی روشنی سال دو سال یا اس کے بعد 2024ء کی انتخابی مدت میں ایسا امکان نہیں۔ باقی انہونی ہو جائے اور زلزلے طوفان کی طرح یہ سیاسی طوفان آ جائے تو کیا کہہ سکتے ہیں۔ لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ دکھ سہیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔ محنت کا وقت پہلے ڈھائی تین سالہ مدت ہوتی ہے اور چھوٹے میاں جی یعنی وزیر اعظم اور ان کی کابینہ انتھک محنت میں مشغول ہے ۔اب نتائج کے وقت عظمیٰ بی بی بلاول کی جھولی میں ڈال دیں، اتنے سادہ تو چھوٹے میاں بھی نہیں ہیں۔ رہی انہونی تو اگر راجہ پرویز اشرف اور خاقان عباسی وزیر اعظم بن سکتے ہیں، اگر چودھری پرویز الٰہی اور وٹو صاحبان پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں تو پی پی سربراہ بلاول بھٹو کے لیے بھی لابنگ کی جا سکتی ہے۔
٭٭٭
کوئٹہ سے فیصل آباد جانے والی بس کو بارکھا ن میں رکوایا گیا، شناختی کارڈ دکھانے کو کہا گیا اور 7 افراد کو گولیوں سے بھون دیا گیا ۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان وزیر اعظم پاکستان سمیت ہر طرف سے اس حرکت پر مذمتی بیان آرہے ہیں۔ کہا جارہا ہے یہ سب کرنے والوں کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ ہر وزیر اعظم سمیت ان کی پوری کابینہ وزیر اعلیٰ سمیت ان کی کابینہ کا جذبہ ہمیشہ اچھا اور سچا ہوتا ہے۔ وہ مخلص ہوتے ہیں، بیانات سے حب الوطنی امڈتی اور ہمکتی ہے۔ ایسے میں امکان یہی ہوتا ہے کہ لاشیں گرانے والے قانون کے شکنجے میں ہوں گے، لیکن جوں جوں مذمتی بیانات آتے ہیں ایسے ہی ایسے لاشیں گرائی جاتی ہیں۔ کسی کے خیال میں یہ محرومیوں کی وجہ سے ہوتا ہے، کسی کی رائے ہے کہ بیرونی سازش اور مداخلت سے ہوتا ہے۔ بھئی یہ تو مسئلے ہیں کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہی ہوگا نا!!! اصل معاملہ تو یہ ہے کہ اس کا حل نکالا جائے جس سے بھائی چارے کی فضا بنے، محبت اور قدر دانی ہو۔ وطن کی محبت سونے والوں کو جگائے۔ جو پہاڑوں پہ جا بیٹھے ہیں وہ بھی بتائیں۔ رہی بیرونی ساشیں، اس کام میں بیرون ملک بیٹھ کر پاک وطن اور پاک فوج پر نکتہ چینی کرنے والے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ ان کا علاج ضرور ہونا چاہیے۔
٭٭٭
وزیراطلاعات کا دعویٰ ہے انسانی اسمگلنگ میں ملوث 400سے زیادہ افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔ خبر اچھی ہے یہ بھی پتا چل جاتا کہ یہ لوگ کس کس دور میں گرفتار کیے گئے ہیں اور حالیہ اقدامات کے نتیجے میں کتنی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ ان گرفتاریوں کا اسٹیٹس کیا ہے۔ غضب کی بات تو یہ ہے کہ ایف آئی اے اہلکار افسران بھی ملوث پائے جا رہے ہیں، پولیس سے ریٹائر اور کئی موجودہ اہل کاروں کی بابت بھی کہا سنا جا رہا ہے۔ وزارت داخلہ، وزارت اطلاعات اس کا بھی بتائیں کہ میڈیا میں یہ خبریں جو آتی ہیں ان میں کتنی حقیقت ہوتی ہے اور حکومت کیا توڑ رہی ہے اور اگر میڈیا میں جھوٹی خبریں آتی ہیں تو پیکا کہاں ہے وہ کیا کر رہا ہے؟
٭٭٭
پیکا جسے بڑے مولانا پھیکا کہتے ہیں، لیکن یہ پھیکا اتنا کڑوا ہے کہ اس کے خلاف کئی طبقات منظم ہونے کے بیانات دیتے نظر آتے ہیں، بھوک ہڑتالی کیمپ بھی سجائے گئے، مارچ بائیکاٹ مطالبات بھی خوب سے خوب تر ہیں کوئی کہہ رہا ہے۔ یہ سچ کو چھپانے والا قانون ہے کسی کے خیال میں جھوٹ کو کھڈے لائن لگانے کا قانون ہے۔ بولنے کی آزادی اطلاعات تک ہر ایک کی رسائی ایسے خوش نما نعرے ہیں جنھوں نے سب کچھ زیر و زبر کر رکھا ہے۔ سوچنے کی بات ہے پانچ آدمی مل کر ایک دوسرے کے خلاف بولیں اور سب کے پاس دعویٰ ہو کہ ان کی خبر نہ صرف سچی ہے بلکہ سچ کا ثبوت بھی رکھتی ہے اور وہ ان خبروں کو بیان کرنا شروع کر دیں، سامنے والا بھی یہی کرے۔ دوسری طرف سے تیسرا چوتھا پانچواں بھی یہی کرنے لگیں تو اس آزادی سے معاشرے میں جو گھٹن بڑھے گی اس کاکیا ہوگا؟ ہر شخص ملک کے ہر معاملے میں اطلاعات تک رسائی چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ اس رسائی کا اچار ڈالے گا، مربہ یا پھر چٹنی۔ سوائے بے چین ہونے اور دوسروں کو بے چین کرنے کے کوئی اور مصرف تو اس چٹنی مربے کا ہے نہیں۔