ترکیہ اور پاکستان، یکجان دو قالب!

تیسری قسط:
فاتح طاقتوں نے ”سلطنتِ عثمانیہ” کی خلاف کی جگہ مغرب کی ”جمہوریت” لانے کی تیاریاں شروع کردیں۔ مصطفی کمال پاشا کی پرورش کا آغاز کردیا۔ مصطفی کمال پاشا کو خلافت سے چڑ تھی۔ یہ مغربی تعلیم یافتہ اور مغربی تہذیب و ثقافت کا دلدادہ تھا۔ سن 1919ء سے لے کر 1924ء تک چار سالوں میں اسلامی خلافت کو بالکل ختم کرنے اور مغربی جمہوریت لانے کی تیاریاں ہوتی رہیں۔

مئی 1920ء میں بننے والی ترکی کی قومی اسمبلی نے بالآخر 3مارچ 1924ء کو ترکی کا خلافت سے آخری اور رسمی رابطہ بھی ختم کردیا۔ باقاعدہ طور پر خلافت کے خاتمے کا اعلان کرکے ”ترکی کو سیکولر اسٹیٹ” ڈیکلیئر کر دیا گیا۔ ترکی کی سیکولر قومی اسمبلی نے فوری طورپر ایک قانون منظور کیا جس کی رو سے خاندانِ عثمانیہ کا کوئی فرد بھی ترکی کی سرزمینِ پر داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس طرح سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد عثمانی خاندان کی خلافت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ 20اپریل 1924ء کو ترکی کی قومی اسمبلی نے آئین جاری کیا جس کے مطابق ”تمام اعلیٰ اختیارات کا سر چشمہ ترکی جمہوریہ کا صدر ہوگا۔ ترکی کا پورا آئین مغربی طرز کا آئین تھا۔” اس کے بعد مسلمانانِ عالم کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ ایک خونچکاں داستان ہے۔ ترکی کا سلطان پوری اسلامی دنیا کا خلیفہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ اگرچہ خلافت برائے نام ہی رہ گئی تھی، لیکن مسلمان اسے اسلامی اتحاد کی علامت تصور کرتے تھے۔
اسی بناء پر ترکی کی حکومت کے ساتھ ان کا جذباتی تعلق قائم تھا۔ تمام مسلمان خلیفہ وقت کی عزت کرتے تھے۔ مسلمانوں کا سیاسی وقار بھی اس سے وابستہ تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں کا یہ دینی و سیاسی مرکز بھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ترکی میں خلافت کو بچانے کے لیے پاک و ہند میں ”خلافت بچائو تحریک” شروع ہوئی، اور یہاں کے مسلمانوں نے بھرپور حمایت اور مدد کی تھی۔ ترکی کی خلافت ”وحدتِ امت” کا مشکل ترین فریضہ سرانجام دے رہی تھی۔ اس خلافت کا خاتمہ مسلمانوں کے سیاسی انحطاط کا نقطۂ آغاز تھا۔ اس کے بعد سے مسلم اُمّہ پنپ نہیں سکی ہے۔ شاید علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے
چاک کردی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ، اور وں کی عیاری بھی دیکھ
اگر آپ تاریخ سے ذراسی بھی واقفیت رکھتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا مسلمانوں کی ثقافتی اور سیاسی تاریخ میں ترکی کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں۔ ترکوں کی بہادری و شجاعت کی داستانیں عالمِ اسلام کی تاریخ کا وہ سنہری باب ہیں جس پر ہر شخض بجا طور پر فخر کرسکتا ہے۔ یہ علاقہ کئی صدیوں تک پوری اسلامی دنیا کا پایۂ تخت رہا ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدن کا اعلیٰ مرکز رہا ہے۔ ترکی کے علمائ، فقہائ، صوفیائ، اولیاء اور مشائخ نے آنے والوں کے لیے اپنے نقوشِ بندگی کا بہت بڑا سرمایہ چھوڑا ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کے آغاز سے انجام تک کی تاریخ دیکھی جائے تو انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ جہاں یہ تاریخ بنی تھی وہ علاقے اپنی آنکھو ںسے دیکھنے کے لیے ہم ترکی گئے تھے۔ 3مارچ 1924ء کے بعد مصطفی کمال پاشا نے اسلام اور اسلام کے نام لیوائوں پر ظلم و ستم نے انتہا کردی تھی۔ قرآن کی تعلیم پر پابندی، نماز پر پابندی، اذان پر پابندی، مدارس اور خانقاہیں بند کردی گئیں تھیں۔
وزارت مذہبی امور ختم کردی گئی۔ عربی رسم الخط بدل دیا گیا۔ شرعی عدالتیں بند کر دی گئیں۔ درویشوں کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ ڈاڑھی، ٹوپی، برقع اور حجاب پر پابندی لگا دی گئی۔ عربی ناموں کی جگہ ترکی ناموں کو رواج دیا گیا۔ مذہبی تعلیم پر پابندی لگا دی گئی۔ سود حلال قرار دیا گیا۔ شراب لازمی ٹھہرادی گئی۔ فحاشی و عریانی عام کر دی گئی۔ تمام اسلامی قوانین کو ختم کردیا گیا۔ دینی شعائر کو ختم کر دیا گیا۔ علماء و صلحاء کو پھانسیاں دی جانے لگیں۔ سن 1924ء سے لے کر 1930ء تک ان چھ سالوں میں مصطفی کمال پاشا نے پورے ترکی سے دینِ اسلام اور مذہبی شعائر کو مٹانے کی پوری کوشش کی، اور ایک مطلق العنان حکمران بن بیٹھے۔ اپنے طور پر وہ دینِ اسلام کا نعوذ باللہ قلع قمع کر چکا تھا، لیکن یہ چراغ بجھنے والا کہاں تھا۔ اس کی چنگاریاں کہیں نہ کہیں سے سلگتی رہتی تھیں۔ چنانچہ ٹھیک 20سال بعد عدنان مندریس ترکی کے وزیراعظم بن گئے۔ عدنان مندریس اسلام پسند تھا۔ یہ 1899ء میں پیدا ہوئے۔ دینی و عصری تعلیم حاصل کی۔ سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ یہاں تک 1950ء میں ترکی کے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ مصطفی کمال پاشا کے بعد یہ پہلے وزیراعظم تھے جو 1950ء سے 1960ء تک مسلسل تین بار وزیراعظم منتخب ہوئے۔ عدنان مندریس نے ترکی کے وزیراعظم بننے کے بعد ترک آرمی کے سیکولر اقدامات کے بجائے اسلامی اقدامات کو ترجیح دی۔
مصطفی کمال پاشا کی جانب سے 1932ء سے عربی زبان میں اذان اور تکبیر پر پابندی کو ختم کیا۔ 25سال بعد ان کی حکومت میں 423افراد نے پہلی مرتبہ فریضۂ حج کی سعادت حاصل کی۔ عدنان مندریس نے مساجد میں لگائے گئے تالے کھلوائے۔ قرآن پڑھنے کی اجازت دی، اور یہ بیان دیا کہ ”ترک پارلیمنٹ شریعت کو ملک کے قانون کے طور پر نافذ کرسکتی ہے۔” یہ اور ان جیسے دیگر اسلامی اقدامات کو ترکی کی سیکولر آرمی کہاں برداشت کرسکتی تھی؟ چنانچہ ان کے خلاف سازشیں سروع ہوگئیں اور بالآخر 27مئی 1960ء میں انہیں ترکی کی سیکولر فوج نے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا۔ یہاں سے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ عدنان مندریس نے نیک مقصد اور اسلامی نظریے کے لیے جان دی تھی۔ ان کے جانے کے بعد ان کے جانشین پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ ترکی میں گھومتے پھرتے ہوئے مجھے جابجا عدنان مندریس کے نام پر سڑکیں، ہسپتال، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، مسجدیں، سبیلیں نظر آئیں۔ ترکی کے شہر ”ازمیر” سے عدنان مندریس کے آبائی علاقے کی طرف جاتے ہوئے بیسیوں لوگ ملے جو ان کا نام بڑے ادب و احترام سے لے رہے تھے۔ ان کے نام پر اپے بچوں کے نام رکھے ہوئے تھے۔ ایک پورا گائوں ان کے نام پر تھا۔ عدنان مندریس مسلمانوں کے دلوں میں بس رہا تھا اور مصطفی کمال اتاترک کی قبر پر کوئی فاتحہ پڑھنے والا نظر نہ آیا۔ سن 1960ء میں عدنان مندریس کو پھانسی دینے کے بعد ترکی کی سیکولر آرمی نے سمجھا کہ شاید یہ شمع ہمیشہ کے لیے بجھ گئی ہے اور اب کوئی اس قسم کی جرأت نہ کر سکے گا، لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد 1967ء میں نجم الدین اربکان منظر عام پر آگئے۔ آگے چل کر 1973ء میں انہوں نے ”جسٹس پارٹی” کی بنیاد رکھ دی۔ (جاری ہے)