‘عاپ’ کی ڈرامائی شکست: کریدو نہ پھر زخم پوچھو نہ کچھ بھی

دہلی بھارت کی اُن ریاستوں میں سے ایک ہے جس کی آبادی میں مڈل کلاس 65سے 70فیصد ہے۔ کم آمدنی والے یہ لوگ عام آدمی پارٹی کے ووٹرز ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے عام آدمی پارٹی کے کئی امیدواروں کو ووٹ دیے۔

حالیہ الیکشن میں عام آدمی پارٹی اسمبلی کی 70میں سے صرف 22نشستیں حاصل کر سکی حالانکہ 2020ء کے انتخابات میں اسے 62نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ بی جے پی کے مقابل نصف سے بھی کم نشستیں جیتنے کے باوجود ‘عاپ’ اور بی جے پی کے ووٹوں کا تناسب بالترتیب 44اور 46فیصد ہے۔ نشستوں میں یہ فرق AAP کی کمزور اور بی جے پی کی بہتر اور منظم حکمت عملی ہے۔ اروند کجریوال نے 2015ء سے دہلی پر بی جے پی کی ہر یلغار ناکام بنا رکھی تھی۔ فروری 2025ء کے انتخابات میں اس کے ہاتھوں بری طرح پٹ گئے۔ انہیں اور ان کے اعلیٰ لیڈران کوبھی ہزیمت اٹھانی پڑی
زمانہ آدمی اور آدمی زمانہ ہے
پلک جھپکنے میں دیکھو گے کیا سے کیا ہوگا
کیجری وال نے محکمہ انکم ٹیکس سے جوائنٹ کمشنر کے عہدے سے استعفادیا، کرپشن کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ وہ نائلون کے ہوائی چپل پہنے بسوں میں دھکے کھاتے۔ دسمبر 2013ء میں دہلی کے وزیر اعلیٰ بنے۔ ‘عاپ’ نے اپنی سیاست سے پورے ملک کو مسحور کر کے پیغام دیا کہ ایک متبادل قیادت کا وقت آ چکا ہے۔ کانگریس، بی جے پی سمیت تمام روایتی پارٹیوں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ ان کی پہلی مدت اقتدار دو ماہ سے کم تھی، اس دوران دہلی کے صوبائی سیکرٹریٹ کے باہر، وزرا ستندر جین، راکھی برلا جیسے لوگ قطار میں کھڑے نظر آتے۔ کیجریوال نے سیکریٹریٹ کا حلیہ بدل دیا۔ وی وی آئی پی کلچر قصہ پارینہ بن گیا۔ عآپ نے 2013ء میں 70 میں سے 28 نشستیں جیت کر کانگریس کی حمایت سے حکومت بنائی، مگر یہ حکومت محض 49 دن چل سکی۔ انہوں نے احتساب بل کی منظوری نہ ہونے پر استعفا دے دیا تو عآپ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ 2015 ء میں 70 میں سے 67 اور 2020ء میں 62سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، جو 2025 ء میں سمٹ کر 22رہ گئیں۔ وجہ روایتی سیاست کی طرف واپسی اور ایفائے عہد نہ کرکیحامیوں کو مایوس کرنا تھا
وہ امید کیا جس کی ہو انتہا
وہ وعدہ نہیں جو وفا ہوگا
موجودہ انتخابات میں تین سیاسی جماعتیں، بی جے پی عام آدمی پارٹی اور کانگریس مد مقابل تھیں۔ 48 بی جے پی اور 22 نشستیں ‘عاپ’ نے لیں۔ کانگریس کو ایک بھی نشست نہ ملی۔ کم از کم 15 نشستیں جہاں عام آدمی پارٹی جیت سکتی تھی کانگریس کی وجہ سے بی جے پی کی جھولی میں گریں۔ کانگریس اور ‘عاپ’ بی جے پی کے خلاف 26 جماعتوں پر مشتمل ایک وسیع سیاسی اتحاد انڈیا (Indian National Developmental Inclusive Alliance) میں شامل ہونے کے باوجود دہلی کے انتخابات میں مدمقابل تھیں۔ اس کے ذمہ دار، کجریوال ہیں جن کو زعم تھا کہ وہ اکیلے دونوں پارٹیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ کجریوال کی حد سے زیادہ خوداعتمادی بھی ان کی شکست کا باعث بنی
کریدو نہ پھر زخم، پوچھو نہ کچھ بھی
کوئی دن تو تم بھی مسیحا رہے ہو
2015ء تا 2020ء میں انہوں نے گڈ گورننس، تعلیم صحت پانی اور مفت بجلی کی فراہمی جیسے فلاحی کاموں سے ایک دیانتدار سادہ اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والے رہنما کا امیج بنایا۔ اسکولوں، ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کی حالت کو بہت بہتر بنایا۔ محلہ کمیٹیاں تشکیل سے صفائی اور سکیورٹی صورتحال میں تسلی بخش پیش رفت یقینی بنائی، مگر2020 ء تا 2025ء کے آخری دو برسوں میں ان کا یہ امیج بری طرح متاثر ہوا۔ اس کی وجہ رشوت کا الزام اور گرفتاری تھی۔ کجریوال کا دعویٰ ہے کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ کجریوال، وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے بھی سادہ زندگی گزارتے، عام بسوں میں سفر کرتے اور چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے۔ جب انہوں نے لگژری گاڑیوں میں گھومنا شروع کیا اور شیش محل جیسا عالی شان بنگلہ تعمیر کرایا تو ان کی دیانتداری مشکوک ہونے لگی
جو ایک پل کے لیے خود بدل نہیں سکتے
یہ کہہ رہے ہیں کہ سارا جہاں بدل ڈالو
2021ء کے مون سون سیلاب نے دہلی کی سڑکوں اور گلی محلوں کو تباہ کر دیا کہ ان کی چار سال گزرنے کے بعد بھی پوری طرح مرمت نہیں کی جا سکی۔ بی جے پی نے کجریوال حکومت کی ان ناکامیوں کو خوب اچھالا اور ایسی مربوط حکمت عملی تیار کی جس نے متوسط طبقے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہے کہ دہلی کی لوک سبھا کے بی جے پی کے امیدوار مرکز میں بی جے پی حکومت کی وجہ سے بے پناہ وسائل کے مالک ہیں۔ بی جے پی نے اپنی مرضی کے نتائج کے لیے ان تمام وسائل اور حربوں کو استعمال کیا جو بھارت کے سیاسی نظام کے تحت اسے حاصل ہیں۔ مثلاً آئینی ترمیم سے لیفٹیننٹ گورنر کو حکومت سے زیادہ اختیارات دیے جس کی وجہ سے ‘عاپ’ وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی۔ عاپ نے برسر اقتدار آتے وقت یہ وعدے کیے تھے کسی ایم ایل اے اور وزیر کی کار پر لال بتی نہیں ہوگی۔ ذاتی مکان کی صورت میں سرکاری رہائش گاہ نہیں دی جائے گی۔ حکومت سازی کے بعد 15دن کے اندراحتساب بل پاس کیا جائے گا۔ محلہ کمیٹی کو فیصلہ سازی کا اختیار دینے کے لیے سوراج ایکٹ وضع کیا جائے گا۔ سوشل سکیورٹی فنڈ قائم کیا جائے گا۔ دہلی جل یعنی پانی بورڈ کی تشکیل نو کی جائے گی۔ کنٹریکٹ پر روزگار کا سلسلہ ختم کیا جائے گا۔ دریائے جمنا کو صاف کیا جائے گا۔ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دینا۔ غیر قانونی کالونیوں کو قانونی بنانا۔ ان کا انہدام روکنا۔ دیہی اراضیوں کی تحویل پر پابندی لگانا وغیرہ بھی ان کے اہداف میں شامل تھے۔
مگر مرکزی حکومت کے ساتھ ہمہ وقت ٹکراؤ کی وجہ سے بھی متعدد وعدوں کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ کیجریوال تک رسائی نہایت ہی مشکل ہو گئی تھی۔ سیکرٹریٹ میں صحافیوں کی آمد پر پابندی لگا دی گئی۔ بھارتی سیاست کی تاریخ میں چند ہی تحریکیں ایسی ہیں جنہوں نے عوام کے تخیل کو اپنی گرفت میں لیا اور عآپ ان میں نمایاں رہی ہے۔ اس کا عروج برق رفتاری سے ہوا۔ مگر تکبر، باہمی اختلافات اور بنیادی اصولوں سے انحراف سے اس کا زوال بھی اتنا ہی ڈرامائی ثابت ہوا۔ کیجروال کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ انتہائی مایوس کن رہا۔ فی الوقت بھی 22سیٹوں میں سے عآپ کی 8سیٹیں مسلمانوں کی حمایت کی مرہون منت ہیں۔ انہوں نے دہلی اقلیتی کمیشن کی زمام کارمعروف صحافی ظفر الاسلام خان کے سپرد تو کی، مگر ان کی رپورٹوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ فروری 2020 میں شاہین باغ شہریت قانون کے خلاف ایجی ٹیشن اور دہلی فسادات کے علاوہ یونیفارم سول کوڈ پر خاموشی نے اس دلیل کو تقویت دی کہ عآپ بی جے پی کی راہ پرنکل چکی ہے۔ جموں و کشمیر کے متعلق اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی، ریاست کو مرکزی انتظامی علاقہ بنا کر ضم کرنے پرعاپ نے مودی کی حمایت کی۔ 2015میں کیجری وال نے دہلی کے رام لیلا گراونڈ میں عوامی اجتماع میں، حلف لینے کے بعد کہا تھا۔ دوستو! ایسی شاندار جیت پر غرور آنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ غرور آ جائے، تو سب ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں محتاط رہنا اور مسلسل اپنے اندرجھانکنا ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو ہم کبھی اپنا مقصد حاصل نہیں کر پائیں گے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ خود اسی غرور کا شکار ہو ئے اور پارٹی کو بحران میں دھکیل دیا۔ آج وہی جماعت، جو انقلاب کا استعارہ سمجھی جانے لگی تھی، داستانِ عبرت بن چکی ہے۔