مغربی ممالک اور ہمارے دینی مدارس

گزشتہ سے پیوستہ:
یہ مدرسہ 1952ء سے خدمات سرانجام دے رہا ہے، آج تک کوئی سرکاری امداد نہیں لی، نہ ہی آئندہ کوئی حکومتی امداد لینے کا ارادہ ہے۔ شہر کے اصحاب خیر اور عام مسلمان رضاکارانہ تعاون کے ساتھ مدرسے کے اخراجات پورے کر دیتے ہیں، کم و بیش یہی صورت اکثر دیگر اداروں کی بھی ہے۔

مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ہم نے گزارش کی کہ ہمیں رجسٹریشن اور ڈاکومینٹیشن سے کبھی اختلاف نہیں رہا، اکثر مدارس رجسٹرڈ ہیں، خود مدرسہ نصرة العلوم گزشتہ ربع صدی سے رجسٹرڈ چلا آ رہا ہے اور یہ رجسٹریشن سرکاری قانون کے تحت ہے جس کی باضابطہ تجدید کرائی جاتی ہے۔ اس لیے حکومت کے ساتھ ہمارا اختلاف رجسٹریشن پر نہیں بلکہ اس کے طریق کار پر ہے۔ حکومت رجسٹریشن کے پرانے طریق کار کو تبدیل کر کے نیا نظام لانا چاہتی ہے جس میں رجسٹریشن سے زیادہ مدارس کے نظام میں سرکاری مداخلت کا ذہن کارفرما ہے اس لیے یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ ہم نہ حکومت سے کوئی امداد طلب کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے سسٹم میں اس کی مداخلت قبول کرتے ہیں۔
اس پر سوال ہوا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ حکومت کی امداد یا مداخلت قبول نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا کہ دوسری باتوں سے قطع نظر اس سلسلہ میں ہمارا سابقہ تجربہ بہت تلخ رہا ہے، ہم اسے دہرانا نہیں چاہتے۔ صدر ایوب خان مرحوم کے دور میں بہاولپور کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ عباسیہ کو سرکاری تحویل میں لیا گیا، اس میں درس نظامی کے ساتھ عصری تعلیم دینے کا پروگرام بھی پیش کیا گیا، اسے اسلامی یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا اور ایک مثالی یونیورسٹی کے قیام کا عزم ظاہر کر کے اس میں درس نظامی اور عصری تعلیم کے مشترکہ نصاب کی تعلیم شروع کی گئی، مگر ہم نے دیکھا کہ آہستہ آہستہ درسِ نظامی کو اس تعلیمی ادارے کے نصاب سے خارج کر دیا گیا اور آج اس یونیورسٹی کا نصاب وہی ہے جو ملک کی دوسری یونیورسٹیوں کا ہے۔ دوسرا تجربہ اوکاڑہ میں ہوا جہاں گول چوک کے جامعہ عثمانیہ کو محکمہ اوقاف کی تحویل میں لیا گیا اور کہا گیا کہ ہم مدرسے کا نظام علماء سے بہتر چلائیں گے مگر آج وہاں کوئی مدرسہ نہیں ہے اور مدرسے کے کمرے محکمہ اوقاف نے مختلف فرموں اور اداروں کو کرائے پر دے رکھے ہیں۔ ہماری گزارش ہے کہ آپ کا وفد اسی طرح اسلامی یونیورسٹی بہاولپور اور جامعہ عثمانیہ گول چوک اوکاڑہ بھی جائے اور وہاں صرف ایک بات چیک کرے کہ آج سے تئیس برس پہلے ان اداروں کی پوزیشن کیا تھی اور آج وہ کس حالت میں ہیں؟ اس کے بعد آپ کو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی کہ دینی مدارس اپنے نظام میں حکومتی مداخلت اور اس کے ذریعے ملنے والی مالی امداد کو کیوں قبول نہیں کر رہے۔
اس پر وفد کے بعض پاکستانی حضرات نے کہا کہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے جو کام حکومت کے سپرد ہو جاتا ہے اس کا بیڑہ غرق ہو جاتا ہے، اس حوالے سے مختلف محکموں کی مثالیں بھی دی گئیں۔ اس کی وجہ دریافت کی گئی تو میں نے وفد کے برطانوی ارکان سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ حضرات اسے شکوہ نہ سمجھیں تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ لوگوں نے کم و بیش دو سو برس اس خطے پر حکومت کی لیکن یہاں کے لوگوں کو اچھی طرح حکومت کرنا نہیں سکھایا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ آپ لوگوں نے حکمرانی کی اچھی تعلیم نہیں دی یا ہمارے لوگوں نے اچھے طریقے سے تعلیم حاصل نہیں کی، لیکن یہ حقیقت ہے ہمارے حکمران گروہ اور افراد آپ کے شاگرد ہیں اس لیے اس کا کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ دونوں آپ ہی کے کھاتے میں جاتے ہیں۔وفد کے ارکان نے تصوف کے بارے میں دریافت کیا تو عرض کیا گیا کہ اس مدرسہ کے بانی حضرت مولانا عبد الحمید خان سواتی خود صوفی ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے فلسفہ و حکمت کے داعی اور شارح ہیں اور تصوف میں بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ وفد کے بعض حضرات کو تعجب ہوا کہ دیوبندی ہو کر آپ لوگ تصوف سے کیسے شغف رکھتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ ہم دیوبندی تو بڑے پکے صوفی ہوتے ہیں، ہم ذکر و اذکار کرتے ہیں، مختلف سلاسل سے تعلق رکھتے ہیں، میں خود نقشبندی اور قادری دونوں سلسلوں سے وابستہ ہوں، ہم ذکر کی محافل میں جاتے ہیں اور شریعت کی حدود میں تصوف کے تمام طریقوں پر یقین رکھتے ہیں۔
سماع کے بارے میں پوچھا گیا تو ہم نے عرض کیا کہ میوزک نہ ہو اور غیر محرم عورت کی آواز نہ ہو تو حسن صوت، ترنم، شعر و شاعری اور سماع کو ہم جائز سمجھتے ہیں اور اس کے بہت سے طریقے استعمال میں بھی لاتے ہیں۔وفد نے عصری تعلیم کے حوالے سے دریافت کیا کہ مدارس میں اس کا اہتمام کیوں نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس کی وجوہ ہیں:
ایک یہ کہ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ان مدارس سے فارغ ہونے والے افراد اسی شعبے میں رہیں اور مساجد و مدارس میں حافظ، قاری، امام، خطیب، مفتی اور مدرس کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں کیونکہ مساجد و مدارس کے نظام کو چلانے کے لیے یہ رجال کار کہیں اور سے فراہم نہیں ہو رہے۔ اس لیے ہم نے بعض تحفظات اختیار کر رکھے ہیں تاکہ ہماری تیار کردہ کھیپ دوسرے شعبوں میں نہ چلی جائے اور ہم اپنی مساجد و مدارس میں افراد کار کی کمی کا شکار نہ ہو جائیں۔ یہ ہماری حکمت عملی کا حصہ ہے اور ہماری ضرورت ہے۔دوسری وجہ اسباب کی کمی بھی ہے کہ دینی مدارس کو اس درجے کے اسباب و وسائل مہیا نہیں ہوتے کہ وہ ریاستی مدارس کی طرح عصری تعلیم کا اہتمام کر سکیں۔ اس لیے ہم عصری تعلیم کے لیے ریاستی اداروں پر ہی اعتماد کرتے ہیں اور دینی مدارس کو دینی تعلیم کے اہداف تک محدود رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروریات کی حد تک عصری تعلیم کا رجحان اب دینی مدارس میں پیدا ہو رہا ہے۔ میٹرک تک کے عصری نصاب کو درس نظامی کے ساتھ شامل کر لیا گیا ہے اور اس کے علاوہ مزید پیشرفت کا سلسلہ جاری ہے لیکن ضروریات کی حد تک اور یہ دیکھتے ہوئے کہ اس سے دینی تعلیم کے اصل اہداف متاثر نہ ہوں۔ دینی مدارس میں حکومت یا عالمی حلقوں کی طرف سے مجوزہ اصلاحات کے بارے میں وفد نے دریافت کیا تو راقم الحروف نے گزارش کی کہ ان اصلاحات و تجاویز میں جو بات بھی ہمارے بنیادی اہداف و مقاصد اور ہمارے کردار میں بہتری پیدا کرنے والی ہے ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں، اس پر غور کرنے اور اسے اپنانے کے لیے تیار ہیں، لیکن جو بات ہمیں ہمارے اہداف و مقاصد سے ہٹانے اور ہمارے کردار کا رخ تبدیل کرنے کے لیے ہو وہ بات ہم سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ ”سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں” کے جملے پر بطور خاص توجہ دی گئی اور وفد کے ارکان نے دوبارہ مجھ سے دریافت کیا تو میں نے اپنی بات دہرائی کہ ہاں ہاں! ہم ایسی کسی بات کو سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں جس کا مقصد دینی مدارس کا رخ ان کے اصل اہداف اور مقاصد سے ہٹانا ہو۔
معلوم نہیں دوسرے دوستوں کا تاثر کیا ہے لیکن میرا ذاتی تاثر یہ ہے کہ برطانوی وفد کا یہ دورہ ایک اچھی کوشش تھی، اس سے مغربی حکومتوں کو ہمارے مقاصد و اہداف اور طریق کار کو براہ راست سمجھنے میں مدد ملے گی اور مغرب اسلام اور مغرب کے درمیان جس مکالمے کی ضرورت محسوس کر رہا ہے اس حوالے سے بھی اسے اندازہ ہو جائے گا کہ مسلمانوں میں اسلام کی نمائندگی کرنے والا اصل طبقہ کون سا ہے اور اسے ”مغرب اور اسلام” کے درمیان حقیقی مکالمے کے لیے کس سے بات کرنی ہے۔