ایک کراچی کئی رکھوالے

2025 نے ابھی چلہ پورا نہیں کیا اور اس دوران میں کراچی ٹریفک حادثات میں 100زیادہ شہری جاں بحق ہو گئے ہیں، ان میں اکثریت ڈمپروں، پانی کے ٹینکروں اور دوسرے ہیوی ٹریفک کے ہاتھوں جان سے گئے ہیں۔

یہ نقصان صرف ٹریفک حادثات سے ہوا۔ باقی قتل و غارت، چوری چکاری کی وارداتیں اس کے علاوہ ہیں، جن میں جانی نقصان بھی ہوا اور مالی نقصان کا تو خیر شمار بھی ایسا آسان نہیں ہوگا کیوں کہ بہت سی واردات رپورٹ ہی نہیں ہوتیں کہ رپورٹ کرنے والا مزید لٹنے کا حوصلہ نہیں رکھتا، اس کے پاس بھاگ دوڑ کا کرایہ نہیں ہوتا، قانون نافذ کرنے والوں کے پیٹ بھرنے کے لیے کہاں سے آئے گا۔ یہ پیٹ وہ کنویں ہیں جو آج تک کوئی بھر سکا نہ کوئی بھر سکے گا انھیں قبر کی مٹی ہی بھر سکے گی۔
ہیوی ٹریفک کے خلاف شہریوں میں اشتعال بڑھتا جا رہا ہے۔ بھٹو اور بی بی دونوں زندہ ہیں لیکن سوئے ہوئے ہیں۔ انھیں جگانے کے ضرورت ہے۔ بلاول تو امریکا اور چین میں صلح کے لیے پل بننا چاہ رہے ہیں، زرداری صاحب تو خیر سے سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے: کی مثال بنے ہوئے ہیں ۔ ایسی مثال دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں پائی جاتی۔ اللہ انھیں لااااامبی زندگی عطا فرمائے۔
٭٭٭
گورنر سندھ اہل کراچی کی نمائندگی اور ترجمانی کر رہے ہیں اگرچہ ترجمان انھیں وفاقی حکومت اور ریاست کا ہونا چاہیے۔ عوامی جھگڑے اور مسائل ان کا ڈومین نہیں ہیں لیکن جس پارٹی کے کوٹے پر گورنر بنے ہیں وہ کراچی کی اصل نمائندہ ہونے کی دعوے دار ہے بلکہ برسوں ایک بڑے بھائی کراچی حیدرآباد کے بے تاج بادشاہ بنے رہے ہیں، ان کا تاج کیا اترا پارٹی کا تخت ہی تختہ ہو گیا۔ سارا رعب داب کافور اور طاقت کا نشہ ہرن ہو گیا۔ اب بے چارے سارے مل کر ہر چند دن بعد زبانی کلامی دھمکیاں دے کر خود بھی مطمئن ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے عوام کو بھی لیکن بھائی کا خلا پر نہیں ہو رہا، اسی لیے سمجھ دار لوگ پہلے ہی کہ رہے تھے کہ یہ لہو صرف الطاف بھائی کی للکار پر کھول اور ابل سکتا ہے۔ وہی ہوا۔ گورنر سندھ اپنے کوٹے کی لاج رکھ رہے ہیں ویسے وہ مزاجاً بھی رحم دل اور مہربان نظر آتے ہیں، لیکن ان کا کروفر ترنگ اور امنگ گورنری کے مرہوم منت ہے۔
٭٭٭
کچھ لوگ آفاق بھائی کو دوسرا الطاف بنانا چاہ رہے تھے، لیکن آفاق بھائی ایک تو شاید اس خمیر سے پیدا نہیں ہوئے گو الطاف بھائی کے دست و بازو رہے ہیں لیکن اپنی حالت ان کی بے چارے بھائی فاروق عبد الستار جیسے ملنگ جیسی ہی ہے۔ پھر بھی وہ مہاجر مومنٹ حقیقی کا روپ دھارے رہے ہیں، الطاف بھائی نے ان کا کام آسان کر دیا ،بھائی مہاجروں کی نمائندگی کرتے کرتے ساری اقوام اور زبان والوں کے مسیحا اور رہ نما بلکہ سربراہ بن گئے، ان کی مہاجر قومی موومنٹ متحدہ قومی موومنٹ بن گئی، اگرچہ سندھ کے شہری حلقوں سے باہر وہ صرف کراچی کے بے تاج بادشاہ کے طور پر ہی مشہور رہے لیکن کراچی بہرحال ان کی مٹھی میں تھا اور حیدرآباد تو ویسے ہی کراچی کا لے پالک معلوم ہوتا ہے، سندھ کے باقی شہر کبھی کوئی اپنا خاص رنگ نہیں جما سکے۔
٭٭٭
کراچی میں ایک نہیں بیسیوں مسائل ہیں اور کراچی کا ایک نہیں کئی رکھوالے ہیں، جس کے ایسے بھانت بھانت کے رکھوالے ہوں اس کا ایسا ہی حشر نشر ہوا کرتا ہے، جماعت اسلامی کا کہنا ہے ہم چو ما دیگرے نیست، پی پی کے جب تک بھٹو اور بی بی زندہ ہیں تب تک اس کی پانچوں گھی اور سر کڑاہی میں ہے، لیکن بات ذات سے شروع ہو کر صفات پر ختم ہو جاتی ہے۔ بھائی کے جانے سے متحدہ کی حالت یہ ہو گئی کہ کاٹو تو لہو نہیں، آفاق بھائی کی ایم کیو ایم اب ایم کیوں ایم بن گئی ہے۔ پی ٹی آئی تین میں نہ تیرہ میں، باقی درجنوں جماعتیں مختلف علاقوں اور حلقوں مناسب ووٹ بنک رکھنے، کراچی کی نمائندگی کے دعوے اور چیخ و پکار کا حصہ بننے کے باوجود کچھ کر نہیں پا رہیں۔ اسباب کی بات کی جائے تو مستقبل قریب میں پی پی کو چیلنج کرتا کوئی نظر نہیں آرہا۔ 8 فروی 2024کو کئی جماعتیں مل کر چیلنج بننا چاہ رہی تھیں لیکن ایک تو سیاست بے ہنگم، دعوے بلادلیل، قیادت کا فقدان ، آپس میں بیر، ایک دوسرے کو کاٹنے کے چکر میں اپنے پر کاٹ بیٹھے۔ یعنی ایک رعب تھا یا یوں کہیے اہل کراچی کو ایک آس تھی، شاید یہی حالات ہیں جن کی وجہ سے کئی حلقوں کو الطاف بھائی کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے لیکن الطاف بھائی توبہ تائب ہوئے اور ان کی توبہ قبول ہو گئی تو پھر ہی ان کے آنے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔
٭٭٭
سابق گورنر سندھ محترم عشرت العباد جنھیں یار لوگ پورا ایک کارواں ایک ادارہ ایک تحریک اور انجمن قرار دیا کرتے تھے، ان کے ہاں بھی کبھی کبھی ابال آتا ہے، لگتا ہے ۔ بس چند دنوں میں ان کے دست مبارک سے کوئی انقلاب آیا چاہتا ہے۔ لیکن پھر موصوف اپنے انقلاب سمیت کہیں لاپتا ہو جاتے ہیں، متحدہ میں ایسی کئی نابغہ روزگار ہستیاں تھیں، جنھیں اب کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ لیکن انھیں خود پہ وہی زعم اور لہجہ ویسا ہی دبنگ بولنے کے تو خیر سے یہ سارے بادشاہ ہیں، مزاج کے بھی عمدہ ہیں لیکن ان سب کی جان بھائی میں تھی بھائی کیا گئے جوانیاں ہی چلی گئیں۔ تو بھائی!!! اب کراچی کس کا ہے اور کراچی والا کون ہے کو ن اسے بنائے گا سنوارے گا کون اسے امن دے گا؟ اب یہ سوال کیسے حل ہو اور کون کرے؟