دوسری قسط:
ارطغرل کے بیٹے عثمان ”سلطنتِ عثمانیہ” کے پہلے بانی تھے۔ عثمانی ریاست کا قیام اس کی دور اندیشی اور ذاتی صلاحیتوں کا مرہونِ منت تھا۔ انہوں نے ہی نظام حکومت وضع کیا۔ عدل و انصاف قائم کیا۔ خاص طرز تعمیرات کو رواج دیا۔ شعبے اور کھلے قائم کیے۔ پرچم بنایا۔ سکہ رائج کیا۔ فوج بنائی۔ پوری دنیا پر حکمرانی کے لیے حکمتِ عملی وضع کی۔
عثمان نے 38سال حکومت کی، اور عثمانیہ سلطنت کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا۔ عثمان کے دو بیٹے تھے: علائو الدین اور اور خان۔ علائو الدین علم و فضل اور عقل و دانش میں یکتائے رو زگار تھے۔ جبکہ ”اور خان” امورِفنِ حرب، جنگی مہارتوں اور نظامِ حکومت کا ماہر تھا۔ عثمان کی وفات کے بعد اس کا چھوٹا بیٹا ”اور خان” تخت نشین ہوا، اور عثمان کے بڑے بیٹے علائو الدین نے نظامِ حکومت چلانے میں اپنے چھوٹے بھائی کا بھرپور ساتھ دیا۔ عثمان کے دونوں بیٹوں نے باہمی مل کر صلاح مشورے سے تمام امور طے کیے۔ علاء الدین نے علم و فن کے شعبے کو لے لیا، جبکہ اور خان کو جنگی اور حربی شعبہ دے دیا۔ دونوں ہی ذہین، دور اندیش اور صاحبِ بصیرت تھے، چنانچہ انہوں نے کمال کر دیا۔ اپنے باب عثمان کی سلطنت کو بہت وسیع، مستحکم اور مضبوط کیا۔ ایسی ایسی اصلاحات کیں جن سے سلطنتِ عثمانیہ مضبوط سے مضبوط تر اور وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی۔ اور خان ”سلطنت عثمانیہ” کا حقیقی بانی اور وارث بنا۔ اور خان کی وفات کے بعد اس کا چھوٹا بیٹا ”مراد خان اول” سلطنت عثمانیہ کا وارث بنا۔ مراد خان اوّل کا 30سالہ دور عثمانی سلطنت کی توسیع، استحکام اور مضبوطی کا سبب بنا۔ اس نے بیسیوں ایسے کارنامے سرانجام دیے کہ سلطنت عثمانیہ کی توسیع کے ساتھ ساتھ استحکام بھی آیا۔ ”اور خان” نے سلطنت عثمانیہ کی فتوحات کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، مراد خان اوّل نے اپنی فوجی قابلیت، حربی مہارت اور خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر اس کو جاری رکھتے ہوئے بہت کم عرصے میں یورپ کی کئی مملکتوں کو سلطنتِ عثمانیہ میں شامل کرلیا۔ اس نے اپنے 30سالہ دور میں عثمانی سلطنت کو 5گنا بڑھا دیا تھا۔
یہ سلسلہ چلتا رہا۔ سلطنتِ عثمانیہ وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی۔ ترک حکمران آتے اور جاتے رہے۔ یہاں تک کہ دنیا کے تین براعظموں پر حکمرانی کرنے لگے۔ خدا کا یہ تکوینی نظام ہے کہ ہر عروج کو زوال ہوتا ہے۔ عروج کی بھی ایک مدت ہوتی ہے۔ دنیا میں کوئی بڑی سے بڑی سلطنت اور بڑی سے بڑی تہذیب بھی کبھی ہمیشہ سلامت نہیں رہی۔ اس تماسا گاہ میں نہ جانے کتنی کرّ وفرّ کی حکومتیں، بادشاہتیں اور تہذیبیں ابھرچکی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنے وقت میں دنیا پر چھائی رہی ہیں۔ عروج پر ہیں۔ اپنی طبعی عمر پوری کرنے کے بعد پھر ڈھلنے لگی۔ زوال کی طرف مائل ہونے لگی اور پھر صفحۂ ہستی سے ایسی مٹیں کہ انہیں تاریخ کے بوسیدہ اور اق میں تلاش کرنے کے لیے بھی خاص محنت کرنا پڑتی ہے۔ بے شک ہر عروج کو زوال ہے۔ ہر چیز نے فناء ہونا ہے۔ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ سلطنت عثمانیہ کی بنیاد ارطغرل کے بیٹے عثمان خان نے رکھی تھی۔ یہ تیرھویں صدی عیسوی کی بات ہے۔ سلطنت عثمانیہ کی تکمیل سلیمان اعظم کے ہاتھوں ہوئی۔ 3سو سالوں میں یہ سلطنت تین براعظموں پر حکمرانی کرنے لگی۔ سلیمان اعظم کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کا زوال شروع ہوا۔ یہ عظیم سلطنت اپنی قوت میں سال بہ سال کم ہوتی چلی گئی۔ سلطنتِ عثمانیہ تاریخ کے طویل ترین دور تک قائم رہی۔ عروج ملا، اپنی طبعی عمر پوری کی۔ پھر زوال کے دن آگئے۔ یہاں تک کہ سلطنتِ عثمانیہ سکڑ کر صرف ترکی تک محدود رہ گئی۔ سلطنتِ عثمانیہ کے آخری خلیفہ عبدالحمید ثانی تھے۔
انیسویں صدی کے آخر اور بیسیویں صدی کے آغاز پر عالمی سطح پر اہم ترین تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اس کے نتیجے میں دنیا کی طاقتور قومیں دو متحارب و متصادم گروپوں میں تقسیم ہوگئیں۔ پھر 1914ء میں جنگ چھڑ گئی، جسے ”جنگ عظیم اوّل” کا نام دیا گیا، کیونکہ اس جنگ میں دنیا کی تمام بڑی قومیں اور قوتیں شریک تھیں۔ یہ جنگ 5سال تک چلتی رہی۔ ایک طرف محوری طاقتیں جرمنی، آسٹریا، یونان، رومانیہ اور ترکی تھا تو دوسری طرف اتحادی طاقتیں برطانیہ، فرانس، روس، بلجیم، سرویا وغیرہ تھے۔ سن 1918ء کے آغاز میں جب امریکا نے اپنا وزن اتحادی طاقتوں کے پلڑے میں ڈال دیا تو اتحادیوں کو فوج اور جنگی سازوسامان وافر مقدار میں ملنے کی وجہ سے جنگ کا نقشہ بدل گیا، یعنی اتحادی طاقتیں جیت گئیں۔ جرمنوں نے فرانس کے خلاف مغربی محاذ پر آخری بار پورا زور صرف کیا۔ جرمن فوجیں اتحادیوں کو پسپا کرکے پیرس تک آگئیں، لیکن جرمنی کو بالآخر شکست ہوگئی۔ جرمنی کی شکست کے بعد اتحادیوں کو ہر جگہ فتح ملتی چلی گئی۔ بالآخر 30اکتوبر 1918ء کو سلطنتِ عثمانیہ عملی طور پر اپنا وجود کھوچکی تھی اور اتحادی طاقتیں اس کے حصے بخرے کے لیے قسطنطنیہ پر قابض ہو چکی تھیں۔
(جاری ہے)