ترکیہ اور پاکستان، یکجان دو قالب!

پاکستان اور ترکیہ نے تجارت، خزانہ، دفاع، سائنس اور ٹیکنالوجی، توانائی، اطلاعات و نشریات، تعلیم، صحت، غذائی تحفظ، آبی وسائل، مذہبی امور سمیت مختلف شعبوں میں باہمی تعاون اور اشتراک کار کے فروغ کیلئے 24معاہدوں’ پروٹوکولز اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط اور دستاویزات کا تبادلہ کیا۔

جبکہ وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے ہم دوطرفہ تجارتی حجم پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کیلئے پرعزم ہیں۔ ماضی میں تاجروں اور سرمایہ کاروں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اب ایسا نہیں ہوگا’ پاکستان شمالی قبرص کے معاملے پر ترکیہ کے موقف کی مکمل حمایت کرتا ہے جبکہ ترک صدررجب طیب ایردوان نے مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مشترکہ ریل ٹرانسپورٹیشن بالخصوص اسلام آباد تہران استنبول فریٹ ٹرین لائن کو فعال بنانا چاہیے’ یہ پورے خطے کے مفاد میں ہے۔
”ترک” بہادر، نڈر، جنگجو، عظیم اور فاتح قوم شمار ہوتی ہے۔ ”ترک” حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے ”یافث” کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت نوح کے تین بیٹے تھے۔ حام، سام اور یافث۔ یافث کے ایک بیٹے کا نام ”ترک” تھا۔ ترک کی اولاد جب مشرقی ایشیا، وسطی ایشیا، چین اور ترکستان وغیرہ کے مختلف علاقوں میں پھیلی تو اپنی اولاد اور قوم کو متحد رکھنے، امن و امان قائم کرنے اور انتشار سے بچنے کے لیے ضروری ٹھہرا کہ کوئی سردار مقرر کیا جائے، چنانچہ صلاح مشورے کے بعد ”ترک” کو بالاتفاق سردار اور بڑا منتخب کرلیا گیا۔ آہستہ آہستہ خاندان اور قبیلے بڑھتے گئے۔ ترک بن یافث کی اولاد میں جتنے بھی قبیلے ہوئے سب کے لیے ”ترک” کا لفظ استعمال ہونے لگا۔ یوں رفتہ رفتہ ”ترک” بہت بڑی قوم بنتی چلی گئی۔ تاریخ کے مطابق ”ترک” ایک خانہ بدوش قوم تھی۔ یہ مختلف علاقوں میں گھومتی پھرتی رہتی تھی۔ یہ بہادر، جنگجو اور نڈر تو تھی ہی، لہٰذا یہ وقتاً فوقتاً ایشیا اور یورپ کی آبادیوں پر حملہ آور ہوکر انہیں ویران کردیتی تھیں۔ ترک قبیلے اور ترک قوم نے کئی علاقوں میں چھوٹی بڑی کئی آزاد مملکتیں قائم کر لیں۔ ترکی قبائل میں ”اوغوز قبیلے” نے خاص طور پر شہرت پائی۔ تاریخ میں یہی قبیلہ ”ترک” کے نام سے مشہور ہوا۔ ترک اور عربوں کے تعلقات کی ابتداء پہلی صدی ہجری میں ہوئی۔ حضرت عمر فاروق کے دورِ حکومت میں اسلامی خلاف کی سرحدیں ترکی سے مل گئی تھیں۔ حضرت عثمان غنی کے دورِ خلافت میں ترکی کے کئی علاقوں پر فوج کشی تو ہوئی، لیکن فتوحات نہ ہوسکیں۔ حضرت امیر معاویہ کے عہدخلافت میں عبداللہ بن زیاد نے فوج کشی کرکے ترکوں کے کئی اہم علاقے فتح کیے۔ ترکستان کے متعدد علاقوں میں کامیابی کے بعد مسلمانوں نے سمرقند، ترمذ اور دیگر کئی علاقے بھی فتح کرلیے۔
اموی خلیفہ عبدالملک کے دورِ حکومت میں پورا ترکستان فتح ہوا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر ترکی علاقے بھی اسلامی سلطنت کا حصہ بنے۔ اسی دوران ترکوں نے دینِ اسلام قبول کرنا شروع کردیا۔ اموی حکمران حضرت عمر بن عبدالعزیز نے دینِ اسلام کی اشاعت کی طرف خصوصی توجہ دی تو ترک جوق درجوق دائرئہ اسلام میں داخل ہونے لگے، اور پھر رفتہ رفتہ ترکی امراء اور سردار بھی مشرف بااسلام ہوگئے۔ چوتھی صدی ہجری تک ترکوں میں اسلام کا غلبہ ہو چکا تھا۔ ترکستان کی فتح کے نتائج دور رس نکلے۔ ترک سرداروں کے مسلمان ہونے سے اس سرزمین میں اسلام کے قدم جم گئے۔ دینِ اسلام کا ڈنکا بجنے لگا۔ رفتہ رفتہ ترکوں نے سیاست میں قدم رکھنے شروع کردیے۔ ترک جب باقاعدہ طور پر سیاست میں آئے تو اس وقت عباسی خلافت کے ابوجعفر منصور حکمران تھے۔ ابوجعفر منصور نے بعض ترکوں کو سلطنت کے عہدے دیدیے۔ عباسی خلیفہ معتصم نے ترکوں کو کئی عہدے اور وزارتیں دیں اور پھر ترکوں کا اثر و رسوخ حکومتی معاملات میں بڑھتا ہی چلاگیا۔ اس کے بعد کئی ترک حکمران خاندانوں نے عالمِ اسلام کے وسیع و عریض خطے پر حکومت کی۔ ”سلیمان شاہ” سلطنتِ عثمانیہ کے پہلے حکمران ”عثمان خان غازی” کا دادا تھا۔ اس کا تعلق ترک قبیلے ”اوغوز” سے تھا۔ سلیمان شاہ کے چار بیٹے تھے۔ ایک بیٹے کا نام ”ارطغرل” تھا۔ ارطغرل بہت ہی بہادر، نڈر، جنگجو، شجاع اور سچا مسلمان تھا۔
آپ جانتے ہیں ترک قبیلہ خانہ بدوش تھا۔ ان کا کوئی ایک ٹھکانہ نہ تھا۔ ارطغرل بھی اپنے خاندان اور ساتھیوں کے ساتھ کسی نئے مقام کی طرف آباد ہونے کی غرض سے جارہا تھا۔ چلتے چلتے ارطغرل نے انگورہ (انقرہ) کے مقام پر دو متحارب فوجوں کو جنگ کرتے ہوئے دیکھا۔ ارطغرل نے اپنی فطری ہمدردی کی بناء پر کمزور فوج کا ساتھ دینے کا ارادہ کیا، چنانچہ ارطغرل اپنے ساتھیوں سمیت مخالف فوج پر ٹوٹ پڑا۔ اس بہادری اور جانثار سے لڑا کہ مخالف فوج شکست کھاکر بھاگ گئی۔ وہ کمزور فوج جس کا ارطغرل نے ساتھ دیا تھا، وہ سلجوقی سلطان علاء الدین کی تھی۔ یہ کچھ لمحے پہلے تک منگولوں کے ہاتھوں اپنی شکست اور ہلاکت کو یقینی سمجھ رہا تھا۔ غیرمتوقع مدد اور کامیابی سے علاء الدین ”ارطغرل” سے بہت خوش ہوا۔ اور خدمت کے اعتراف میں خوش ہوکر ارطغرل اور اس کے خاندان کو انقرہ (انگورہ) کے مقام پر ”قرہ چہ” نامی علاقہ الاٹ کردیا۔ یہ علاقہ جو ارطغرل کو دیا گیا یہ بازنطینی سرحد کے بالکل قریب تھا۔ رومی ہر وقت سلجوقی علاقوں پر حملہ آور ہوتے تھے، اب وہ خاموش ہوگئے بلکہ ترکوں سے ڈرنے لگے، چنانچہ ارطغرل نے رومیوں پر حملہ آور ہوکے ان کو دور بھاگنے پر مجبور کردیا۔
یوں ترکوں کی فتوحات کا سلسلہ چل نکلا، اور ترکوں کو مستقل ایک جگہ مل گئی۔ ارطغرل کا 90سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ ارطغرل کے 3بیٹے تھے۔ ایک بیٹے کا نام عثمان تھا۔ عثمان کے نام سے ترکوں کو شہرت ملی۔ ارطغرل کا یہی وہ بہادر، نڈر، دور اندیش اور سعادت مند بیٹا تھا جس کے نام پر ترکمانی حکومت کو ”عثمانی سلطنت” کا نام دیا گیا۔ ہوا یوں کہ جب سلجوقی حکمران علاء الدین کی جگہ اس کا بیٹا غیاث الدین حکمران بنا تو اس نے اپنی بیٹی کی شادی ارطغرل کے بیٹے عثمان سے کردی۔ عثمان چونکہ بہت صلاحیتوں کا مالک تھا، چنانچہ عثمان نے اپنے والد ارطغرل کے علاقوں کا انتظام و انصرام بہت منظم اور مضبوط کردیا۔ اپنے علاقوں کی حفاظت کے لیے بہترین فوج تشکیل دی۔ ادارے بنائے۔ نظام بنا۔ جس وقت ارطغرل کا بیٹا اور جانشین عثمان ”سلطنت عثمانیہ” کو مضبوط اور مستحکم کرنے میں لگا ہوا تھا۔
اس وقت اسلامی سلطنتیں انتہائی کمزور اور ابتر حالت میں تھیں۔ مصر متعدد سلاطین کے قبضے میں تھا۔ شام میں ایوبی سلاطین سے الگ الگ کئی خودمختار سلطنتیں بنا رکھی تھیں۔ عراق اور فارس ایلخانی حکمرانوں کے قبضے میں تھا۔ ماوراء النہر اور افغانستان وغیرہ پر مغلوں کی حکومت تھی۔ ہندوستان میں دہلی کے بادشاہ راج کرتے تھے۔ اندلس میں ”دولت ناصری” کا تقریباً خاتمہ ہو رہا تھا۔ ارطغرل کا بیٹا عثمان چونکہ عالمی حالات سے واقف تھا۔ ذہین اور دور اندیش تھا، لہٰذا وہ حالات بھانپ گیا اور اس نے اس خلا کو پُر کرنے کی ٹھان لی۔ چنانچہ سلطنتِ عثمانیہ وسیع در وسیع ہوتی چلی گئی۔ ”اخی تحریک” شروع ہوئی جس کا مقصد یہ تھا آپس میں اتحاد اور بھائی چارہ قائم کیا جائے گا۔ یہ تحریک کامیاب ہوئی اور ترک عالمِ اسلام پر حکمرانی کرنے لگے۔ (جاری ہے)