دوسری قسط:
جب ہم کابل میں داخل ہوئے تو رات ہوچکی تھی۔ پشاور کے مقابلے میں موسم زیادہ ٹھنڈا تھا۔ کابل کے علاقے شہرِ نو میں یعقوب چوراہا کے قریب اپنے میزبان کے پاس پہنچے۔ میزبان نے فوراً سبز قہوہ کا اہتمام کیا اور کچھ ہی دیر میں کھانا بھی آگیا۔ ہمارے میزبان کابل یونیورسٹی میں استاد ہیں۔ انہوں نے ہندوستان سے بین الاقوامی تعلقات میں ڈگری حاصل کی ہے اور خطے کی سیاست اور عالمی تعلقات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
جب ہم نے ان سے موجودہ طالبان حکومت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں ایک طویل عرصے کے بعد امن قائم ہوا ہے۔ موجودہ حکام تندہی سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ کرپشن کے معاملے میں سخت معیار رکھا گیا ہے، اگر کوئی شہری یا طالب کرپشن میں ملوث پایا جاتا ہے اور اس کے خلاف ثبوت موجود ہوں تو اس پر سخت کارروائی کی جاتی ہے۔
اگلی صبح جمعہ تھا۔ سورج نکلنے کے بعد سردی کی شدت میں کچھ کمی آئی۔ ہم نے شہرِ نو کی مسجد میں جمعے کی نماز ادا کی۔ اس موقع پر طالبان اہلکار سڑکوں پر مستعد نظر آئے۔ میڈیا میں جو پروپیگنڈا جاری ہے کہ افغان طالبان کی کابل پر گرفت کمزور ہو چکی ہے اور وہ دھڑوں میں بٹ چکے ہیں، ایسا منظر ہمیں کہیں نظر نہیں آیا۔ پورے دارالحکومت میں وہ انتہائی منظم انداز میں موجود تھے۔ ان میں سے کسی کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف کیا پروپیگنڈا جاری ہے۔ ہر اہلکار اپنی ذمہ داری تندہی سے ادا کرتا دکھائی دیا۔ ایوانِ صدر (ارگ) سے لے کر کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ تک ان کی مضبوط موجودی یہ ظاہر کرتی تھی کہ وہ اپنی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف طویل جدوجہد کو ضائع نہیں کر سکتے۔
نمازِ جمعہ کے بعد ہم نے شہرِ نو کے علاقے میں چہل قدمی کی۔ یہاں بڑے بڑے پلازے اور کاروباری مراکز موجود ہیں، جو جمعے کی چھٹی کی وجہ سے بند تھے، لیکن اس کے باوجود علاقے میں کافی رش تھا۔ ہم نے مختلف افراد سے موجودہ حکومت کے بارے میں رائے لی۔ تقریباً سب کا ایک ہی جواب تھا کہ امن قائم ہوچکا ہے، لوگ خوف سے آزاد ہیں، بس بے روزگاری کے مسائل ہیں۔ ایک نوجوان نجیب اللہ نے بتایا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے پاکستان جانا چاہتے ہیں اور دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں، لیکن پاکستان کا ویزا حاصل کرنا ایک مشکل ترین کام بن چکا ہے۔ آن لائن درخواست دینے کے باوجود کئی ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے اور پھر معلوم ہوتا ہے کہ درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔ افغان تاجر فرید شنواری نے بتایا کہ انہوں نے دو ماہ قبل پاکستانی ویزے کے لیے درخواست دی تھی اور چیمبر آف کامرس کا دعوت نامہ بھی ساتھ جمع کرایا تھا، لیکن اب تک ویزا نہیں ملا۔ بارڈر کے مسائل اور ویزے کی مشکلات کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ تجارت کم ہوتی جا رہی ہے۔
عصر کی نماز ہم نے پلِ خشتی کی مشہور تاریخی مسجد میں ادا کی، پھر قریب ہی دریائے کابل کے کنارے واقع حضرت لیث ابن قیس ابن عباس کے مزار پر لوگوں کا رش دیکھا۔ وہاں سے واپسی پر ایک دکان سے عطر خریدا اور ٹیکسی میں سوار ہو کر روانہ ہوئے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کابل میں ٹیکسی کا کرایہ پاکستان کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ شہر کے اندر ایک سو سے ڈیڑھ سو افغانی کرایہ لیا جاتا ہے، جو پاکستانی چار سو سے چھ سو روپے کے برابر بنتا ہے۔
پاکستان میں کئی دوستوں نے پوچھا کہ پشاور سے کابل تک سفر کا کتنا خرچہ آتا ہے؟ پشاور کے حاجی کیمپ اڈے سے طورخم تک پرائیویٹ کاریں 800سے 1000روپے لیتی ہیں۔ کارخانو بازار سے طورخم جانے کا کرایہ 400روپے سے بھی کم ہے۔ طورخم بارڈر پار کرنے کے بعد افغانستان کی طرف سے ٹیکسیاں 800افغانی کرایہ لیتی ہیں، جو پاکستانی 3000روپے سے کچھ زیادہ بنتے ہیں۔
چونکہ ہمارا حلیہ عام افغانوں جیسا تھا، اس لیے پہچاننا مشکل تھا کہ ہم پاکستانی ہیں، لیکن ایک ٹیکسی ڈرائیور نے دریافت کر ہی لیا۔ جب ہم نے اسے بتایا تو وہ سارا راستہ کابل میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں ہمیں آگاہ کرتا رہا۔
رات کے کھانے میں میزبان نے مشہور کابلی پلاؤ (جو عام طور پر افغانی پلاؤ کہلاتا ہے) کا اہتمام کیا۔ یہ کراچی میں سہراب گوٹھ سمیت کئی جگہوں پر ملتا ہے، لیکن جو ذائقہ اور لطف کابل میں گرما گرم افغانی پلاؤ کھانے میں ہے، وہ شاید کہیں اور نہیں۔ رات کو کچھ افغان دوستوں سے گفتگو ہوئی۔ بعض نے پاکستانی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی اور کہا کہ جب بھی ہمارے پھلوں اور سبزیوں کا سیزن آتا ہے، پاکستان بارڈر بند کر دیتا ہے، جس سے ہمیں کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک اور شخص نے کہا کہ سیاست اور دیگر مسائل کو تجارت سے الگ رکھا جائے۔ افغان مہاجرین اور دہشت گردی جیسے مسائل دونوں ممالک کے حکمرانوں کو مل کر حل کرنے چاہئیں، لیکن تجارت کو متاثر نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اس سے دونوں ممالک کے عوام اور تاجر براہ راست نقصان اٹھاتے ہیں۔ یہ مباحثہ سبز قہوہ کے ساتھ دیر تک جاری رہا۔
(جاری ہے)