امریکا نے فلسطینیوں کو بسانے کیلئے شام پر دباؤ بڑھا دیا(علی ہلال )

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ کے بائیس لاکھ فلسطینیوں کو فلسطینی اراضی سے بے دخلی کے صہیونی منصوبے پر عمل درآمد کے لیے کوشاں ہیں۔ ٹرمپ 25 جنوری کے بعد متعدد بار میڈیا کے سامنے اپنے اس شرانگیز منصوبے کے بارے بات کرچکے ہیں۔

اب تک کی معلومات کے مطابق ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات سے قبل اور بعد میں بڑی شدت کے ساتھ اس منصوبے کو دہرایا ہے۔ امریکی صدر نے پہلے مصر اور اردن کو غزہ کے باشندوں کو بسانے کے لئے جگہ دینے کا مطالبہ کیا جسے مصر اور اردن دونوں ممالک نے مسترد کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے اردنی فرمان روا عبداللہ دوم کے دورہ واشنگٹن کے دوران خطرہ محسوس کیا جارہا تھا کہ اردنی فرمان روا امریکی صدر کے آگے ہتھیار ڈال دیں گے، تاہم شاہ عبداللہ دوم نے انتہائی خوش اسلوبی اور سفارتی لہجے میں ٹرمپ کے اس منصوبے پر ہاں کہنے سے انکار کرتے ہوئے اس معاملے میں مصر کے فیصلے کا انتظار کرنے کا مشورہ دیا جبکہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ مشاورت اور مشترکہ عرب فیصلے کی تجویز دی ہے۔ اس سے قبل عرب اور عالمی میڈیا نے اپنی رپورٹوں میں کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے فلسطینیوں کو بسانے کیلئے البانیہ کے حکام کے ساتھ بات کی ہے، تاہم بعدازاں البانوی وزیراعظم کا بھی بیان آگیا جس میں انہوں نے بڑی سختی کے ساتھ اس منصوبے کو مسترد کیا۔
ایک نئی اطلاع کے مطابق امریکی صدر اور عالمی صہیونی تنظیموں نے نہ صرف فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے بلکہ اس آڑ میں خطے کے دیگر عرب ممالک کے امن کوبھی سبوتاژ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ مصر اور اردن کے ساتھ سعودی عرب کی جانب سے فلسطینیوں کی بے دخلی کے منصوبے کی مخالفت کے بعد امریکا واسرائیل نے شام پر یہ منصوبہ تھوپنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اسرائیلی چینل سیون نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر نے نئے شامی صدر احمد الشرع سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کو شام میں بسانے میں امریکا کے ساتھ تعاون کرکے پرکشش مراعات اور تعاون حاصل کریں۔ عبرانی میڈیا کے مطابق احمد الشرع سے ہونے والے مطالبے میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے ساتھ تعاون کے بدلے احمد الشرع کی حکومت کو دریائے فرات کے مشرقی سمت کے علاقوں پر کنٹرول دیا جائے گا۔جہاں کرد عسکری یونٹس کا کنٹرول ہے۔ وہاں ہر قسم کے امن وامان میں امریکا تعاون کرے گا اور کرد مزاحمت ختم کرنے میں امریکا شامی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرے گا۔ دمشق حکومت کی ہر قسم مالی وسیاسی معاونت کی جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق احمد الشرع کی حکومت کو بھاری اور پرکشش مراعات کی پیشکش کی گئی ہے۔ شامی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ شامی کے مختلف صوبوں میں ڈیڑھ ملین فلسطینیوں کو ایڈ جسٹ کرنے میں معاونت کریں۔ جس کے بدلے امریکا عالمی اداروں کی مدد سے شام میں نہ صرف فلسطینیوں کے لئے رہائشی یونٹس تعمیر کرے گا بلکہ بشار الاسد کی فورسز ،روسی حملوں اور ایرانی وعراقی ملیشیا گروپوں کے ہاتھوں مارچ 2011ء سے ہونے والی خانہ جنگی کے دوران بے گھر ہونے والے ساٹھ لاکھ شامی پناہ گزینوں کی رہائش کے لیے تعمیر نو میں بھی تعاون کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ اس وقت شام کی نئی انتظامیہ کو ملک میں متعددچیلنجوں کا سامنا ہے جن میں شام کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ ملک میں امن وامان کے قیام کا معاملہ سب سے سنجیدہ اور اہم ہے۔ عبرانی میڈیا کے مطابق احمد الشرع اس وقت اپنی حکومت کی عالمی برادری سے تسلیم ہونے کے لیے کوشاں ہیں جبکہ انہیں شدید اقتصادی دباؤ کا سامنا ہے۔ اسد خاندان کے 51 سالہ اقتدار کے ختم کرنے کے بعد انہیں شام کی خوشحالی کو لوٹانا ہے۔
قطر کے اسٹڈی سینٹر سے وابستہ ماہرین نے ابھی اپنی حالیہ رپورٹ میں کہاہے کہ شامی تعمیر نو پر 300 بلین ڈالر کے اخراجات آئیں گے جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق شام میں انفراسٹرکچر کی تعمیر نو پر 400 بلین ڈالر کی لاگت آئے گی۔ سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے بنائے جانے والی رپورٹوں کے مطابق شام کے 16 شہروں میں 14 سالہ جنگ کے دوران خوفناک تباہی ہوئی ہے۔ تباہی کے لحاظ سے حلب ،غوطہ شرقیہ اور حمص پہلے نمبر پر ہیں۔ روسی رپورٹ کے مطابق جنگ کے دوران شام میں دو ملین سے زائد رہائشی یونٹس منہدم ہوگئے ہیں۔ شام میں اس وقت امن وامان کی صورتحال زیادہ تسلی بخش نہیں ہیں۔ ملک کے شمال مشرق میں رہنے والے کردوں کی قیادت کرنے والی عسکری باڈی قسد کے ساتھ دمشق حکومت کے مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔ کردوں کا اب تک شمالی اور مشرقی شام میں 28 فیصد علاقوں پر کنٹرول ہے۔کرد عسکری گروپ میں دو لابیاں بنی ہیں۔ معصوم عبدی گروپ دمشق حکومت کے ساتھ تعاون اور کچھ شرائط کی بنیاد پر مذاکرات کا حامی ہے جبکہ قندیل گروپ ایرانی حمایت یافتہ ہے اور وہ دمشق حکومت کے سخت خلاف ہے اور اس کے ساتھ کسی قسم کے تعاون یا تنازل پر تیار نہیں ہے۔
دمشق حکومت کی جانب سے کوششوں کی ناکامی کے بعد عراقی کردستان کے سربراہ مسعود بارزانی نے بھی ثالثی کی کوششیں کی ہیں مگر اب تک کوئی کامیابی نہیں نظر نہیں آئی۔ دوسری جانب عرب ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایران نے پاسداران انقلاب کے سینئر جرنیلوں کو متحرک کیا ہے اور گزشتہ دنوں نجف میں ایک اہم اجلاس بھی ہوا ہے۔ جس میں شام میں کردوں ، دروز اور بشار الاسد کے فرقے کے علویوں کو ساحل میں فعال کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔
اس منصوبے میں لبنانی تنظیم حزب اللہ بھی شامل ہے۔ احمد الشرع کی انٹیلی جنس کو بھی اس منصوبے سے متعلق علم ہے جس کے باعث گزشتہ کئی روز سے دمشق حکومت نے لبنانی سرحد کے ساتھ متصل علاقوں میں آپریشن شروع کئے ہیں اور ان علاقوں کو حزب اللہ کے کنٹرول سے آزاد کروارہی ہے۔ شام میں جنوب میں القنیطرہ اور سویدا میں اسرائیلی پیش قدمی کا سلسلہ بھی ابھی تک جاری ہے۔ الشرق الاوسط کے مطابق اب تک سات سو کلو میٹر شامی اراضی اسرائیلی قبضے میں چلی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اسرائیل کی اس اچانک پیش قدمی اور عسکری دباؤ کے پیچھے بھی یہی صہیونی منصوبہ کار فرما ہے کہ شام پر دباؤ لایا جائے تاکہ اسے امریکا اور اسرائیل کا منصوبہ ماننے پر آمادہ کیا جاسکے۔