پچھلے چند ماہ کے دوران ٹرمپ تسلسل کے ساتھ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد وہاں باقی رہ جانے والے ہتھیاروں کا ذکر کر رہے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران بھی وہ اس پر بات کرتے ہوئے بائیڈن کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور اب حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے افغانستان سے یہ ہتھیار واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کو ایک غیر حکیمانہ قدم اور امریکی تاریخ کے سب سے شرمناک لمحوں میں سے ایک قرار دیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان میں امریکی اسلحہ چھوڑنے پر تنقید کی، یہ ان کی حکمت عملی کا حصہ تھا، جو وہ سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے سیاسی حربے کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ ان کے مطابق انخلا کے نتیجے میں وہ اسلحہ طالبان کے ہاتھ لگ گیا اور یہ اسلحہ دہشت گرد گروپوں اور منظم جرائم کے نیٹ ورک کے ہاتھوں میں بھی جا سکتا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان نے افغان حکومت میں ہلچل پیدا کی۔
20 جنوری کو حلف برداری سے ایک دن قبل بڑے اجتماع میں ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے اپنی انتظامیہ کی پالیسی کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کا اظہار کیا اور کہا: ”بائیڈن انتظامیہ نے طالبان کو اربوں اربوں ڈالر دیئے، انہوں نے ہمارا بہت سا اسلحہ دشمن کو دے دیا۔” ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی افواج کے جلدی اور بے ترتیب انخلا پر بائیڈن پر تنقید کی۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ افغانستان کو آئندہ مالی امداد طالبان کے موجودہ حکام کی طرف سے امریکی فوجی ساز و سامان کی واپسی سے مشروط ہوگی، تاہم انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج تک امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدہ فعال ہے، جس کے تحت طالبان کو اس بات پر پابند کیا گیا ہے کہ وہ داعش اور دیگر گروپوں کو افغانستان میں پناہ گاہ فراہم کرنے سے روکیں تاکہ وہ مغربی ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیاں نہ کر سکیں۔
افغان حکومتی موقف:افغان حکومت نے امریکی صدر کے اسلحہ واپس کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اسلحہ دہشت گردی کے خلاف خاص طور پر داعش کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور امریکا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید فوجی امداد فراہم کرنی چاہیے۔ افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے الجزیرہ نیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا ہم امریکیوں سے باقی رہ جانے والے اسلحہ کو واپس نہیں کریں گے، یہ جنگ کی غنیمت ہے اور جو لوگ اس کا مطالبہ کریں گے ہم ان کے خلاف اسی اسلحے کے ساتھ لڑیں گے۔ افغان فوجی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی افواج نے افغانستان سے انخلا کے دوران حساس سامان کو امریکا اور کچھ سامان کو یوکرین منتقل کیا اور جو سامان منتقل نہیں ہو سکا، اسے تباہ کر دیا گیا۔ جو سامان فوجی اڈوں پر باقی رہ گیا، وہ طالبان کے ہاتھوں میں آ گیا اور افغان وزارت دفاع نے اسے مرمت کرکے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
ماہرین کا کہنا ہے اگر بالفرض طالبان یہ اسلحہ واپس کرنے پر راضی بھی ہو جائیں تو بھی اسے واپس لے جانا مشکل ہوگا، کیونکہ اس سامان کو جمع اور منتقل کرنے میں وقت لگے گا اور اس کی نقل و حمل کے اخراجات اس کی قیمت سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ مزید یہ کہ اس میں سے ایک بڑی تعداد امریکی فوج کے معیار کے مطابق استعمال کے قابل نہیں رہی اور اس کا استعمال ختم ہو چکا ہے۔ افغان فضائیہ کے سابق جنرل جلیل بارکزئی نے الجزیرہ نیٹ کو بتایا سابقہ افغان حکومت کے لیے 923.3 ملین ڈالرز کی قیمت پر 78 طیارے خریدے گئے تھے اور امریکی افواج نے انخلا سے پہلے ان کے اسلحہ کو نکال کر ان کی کارکردگی کو غیر فعال کر دیا تھا اور اب وہ خراب ہو چکے ہیں۔ بارکزئی نے بتایا کہ موجودہ افغان وزارت دفاع نے انہیں ٹھیک کرنے اور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، لیکن انہیں متبادل پرزوں کی ضرورت ہے اور سیکورٹی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر انہیں مستقبل قریب میں مہیا کرنا مشکل ہے۔ اس لیے طالبان حکومت دوسرے ذرائع سے اسلحہ خریدنے کے لیے تلاش کر رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں افراتفری پھیل گئی اور بعض لوگوں نے امریکی اسلحہ لوٹ کر بیرون ملک اسمگل کر دیا۔ انخلا کے پہلے سال میں 20ـ30 فیصد اسلحہ مسلح گروپوں کے ہاتھوں میں آ گیا، جس سے ملک میں سیکورٹی کے حوالے سے تشویش پیدا ہوئی۔ دوسری طرف افغان حکام اسمگلنگ کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور حکومت کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت نے الجزیرہ نیٹ کو بتایا افغانستان میں موجود تمام اسلحہ اس کے سرکاری گوداموں میں رکھا گیا ہے اور اسے اعلیٰ سطح پر تحفظ دیا جا رہا ہے۔ کسی کو غیر قانونی طور پر اس کا استعمال کرنے کا حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں اور دیگر مسلح گروپوں کے ہاتھوں اسلحہ اسمگل کرنے اور استعمال کرنے کے بارے میں کہا جانے والا ہر دعویٰ جھوٹا ہے۔
اسلحے کی حقیقت:ٹرمپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ افغانستان میں موجود امریکی سازو سامان کی قیمت 80 ارب ڈالر ہے لیکن میڈیا ذرائع نے اسے مبالغہ آمیز قرار دیا ہے۔ امریکی وزارت دفاع کے قانونی محقق کے دفتر کی جانب سے اپریل 2023 میں جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان کے پاس تقریبا 7.2 ارب ڈالر کا اسلحہ، گولہ بارود، طیارے اور ان کے پرزے ہیں، جنہیں امریکی ٹیکس دہندگان کی جانب سے فنڈ کیا گیا تھا، اس کا افغانستان میں باقی رہ جانا بائیڈن انتظامیہ کے ناکام فوجی انخلا کا شاخسانہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق کم از کم 78 طیاروں کو نظرانداز کیا گیا، جن کی قیمت 923 ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔ 95524 میزائل جن کی قیمت 6.54 ملین ڈالر ہے، 40,000 سے زائد فوجی اور غیر فوجی گاڑیاں، 300000 سے زائد مختلف عسکری اشیاء جیسے نائٹ وژن، نگرانی، مواصلات اور بایومیٹرک سازو سامان شامل ہے، جو افغان فوج کو 2005 سے 2021 کے دوران فراہم کیا گیا تھا۔ الجزیرہ نیٹ سے بات کرتے ہوئے افغانستان کے سابق فوجی اور اس وقت قونسے انسٹی ٹیوٹ میں افغان امور کے ماہر ایڈم وینسٹین نے کہا کہ امریکا نے افغانستان میں اسلحہ نہیں چھوڑا ہے اور جو کچھ ٹرمپ بات کر رہے ہیں وہ افغان فورسز کا اسلحہ ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ چھوٹے اسلحے اور معاون مواد و آلات کا ایک مجموعہ ہے، جو امریکا کی سیکورٹی کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں اور یہی طالبان کے ہاتھوں میں آ گئے ہیں۔ وینسٹین کے بقول ٹرمپ جو مطالبہ کر رہے ہیں اس کا مقصد ممکنہ طور پر امریکا میں سیاسی فائدہ حاصل کرنا یا افغانستان میں مزید اثر و رسوخ حاصل کرنا ہو سکتا ہے۔ امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے ایک ٹی وی انٹرویو میں امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی سے کہا کہ وہ افغانستان کی سرزمین پر سرگرم دہشت گرد گروپوں سے درپیش خطرات سے نمٹنے میں فعال کردار ادا کرے اور مزید مزاحمتی گروپوں کی مدد پر غور کرے۔ مارفن وائن باوم مشرق وسطیٰ کے انسٹی ٹیوٹ میں افغانستان اور پاکستان کے مطالعات کے پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں، انہوں نے اپنے ادارے کے لیے ایک رپورٹ میں کہا کہ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے طالبان کے حکومتی نظام کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا موقع مل سکتا ہے، کیونکہ طالبان نے امریکا کے ساتھ ایک نیا باب کھولنے کی خواہش ظاہر کی ہے تاکہ دونوں فریقوں کے درمیان ایک تعمیری تعلق قائم ہو سکے اور اس سے انہیں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سفارتی طور پر تسلیم کرنے کی امید ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان شاید ٹرمپ انتظامیہ پر اس بات کا انحصار کریں گے کہ وہ حقوق انسانی کے مسائل، خاص طور پر لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم، پر کم توجہ دے گی۔ یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ امریکی امدادی فنڈنگ کے بارے میں شک و شبہ کا اظہار کرے گی۔
الجزیرہ نیٹ سے بات کرتے ہوئے وائن باوم نے کہا اسلحہ کی واپسی طالبان کے لیے ٹرمپ انتظامیہ سے کچھ رعایت حاصل کرنے کا ایک اچھا موقع فراہم کرسکتی ہے، لیکن مجھے کسی معاہدے کی توقع نہیں ہے۔ طالبان کے لیے وہ اسلحہ جو امریکا کے غیر ذمہ دارانہ انخلا کے ساتھ ان کے ہاتھ آیا، بہت اہمیت رکھتا ہے، یہ ممکن نہیں کہ وہ اسے واپس کریں۔ انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ یہ سمجھنا بھی مشکل ہے کہ امریکا طالبان کو اسلحہ واپس کرنے کے بدلے کس قسم کی ڈیل پر راضی ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب کانگریس ریسرچ سروس کی ایک تازہ رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ امریکا کے افغانستان سے انخلا اور طالبان کے اقتدار میں واپسی کے اثرات آج تک محسوس ہو رہے ہیں اور کانگریس ارکان طالبان کی حکمرانی کو دور سے مانیٹر کر رہے ہیں۔