دہشت گردی خطے کی ترقی کیلئے سنگین خطرہ ہے

پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کی خوفناک لہر کی زد میں ہے اور اس بار بھی اس کے پیچھے وہی عناصر کارفرما ہیں جنہیں افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں۔

خیبر پختونخوا میں حالیہ کارروائیوں میں سیکورٹی فورسز نے 15 دہشت گردوں کو ہلاک کیا، مگر اس کے ساتھ چار بہادر سپاہیوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ یہ واقعہ ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو افغانستان میں مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں بھی اس امر کی تصدیق کی گئی ہے کہ ٹی ٹی پی کو کابل سے لاجسٹک مدد ملتی ہے۔ اس رپورٹ کا منظر عام پر آنا کوئی حیرت کی بات نہیں، کیونکہ پاکستان طویل عرصے سے یہی موقف دہراتا آ رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین اس کیخلاف استعمال کی جا رہی ہے، مگر عالمی برادری کی خاموشی اور افغان حکومت کی بے حسی اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔
یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ افغانستان میں اگست 2021 میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی جیسے گروہ نہ صرف کھلے عام افغانستان میں اپنے تربیتی کیمپ چلا رہے ہیں بلکہ وہاں سے دہشت گردوں کو تیار کرکے پاکستان بھیجا جا رہا ہے۔ ان گروہوں کا سب سے بڑا ہتھیار ان کا گمراہ کن بیانیہ ہے، جس کے ذریعے وہ برین واشنگ کرکے نوجوانوں کو دہشت گردی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ افغانستان کی حکومت نہ صرف ان گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہے بلکہ وہ درپردہ ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی بھی کر رہی ہے۔ پاکستان نے بارہا افغان حکام کو باور کرایا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو لگام دیں، مگر طالبان حکومت کے رویے سے صاف ظاہر ہے کہ وہ ایسا نہیں چاہتی۔ سوال یہ ہے کہ آخر کیوں؟ پاکستان نے تو ہمیشہ افغانستان کی مدد کی، چاہے وہ سوویت جنگ کے دوران پچاس لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دینے کی بات ہو یا امریکی جارحیت کے بعد افغان عوام کی بحالی کی کوششیں۔ علاوہ ازیں اس حقیقت سے بھی آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کہ اس جنگ کے دوران پاکستان پر در پردہ بین الاقوامی افواج کیخلاف افغان مزاحمت کاروں کا ساتھ دینے کے سنجیدہ الزامات لگتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود اگر افغان حکومت پاکستان کی دشمنی پر آمادہ ہے تو یہ خود افغانستان کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
یہ امر واضح ہے کہ افغانستان میں دہائیوں سے جاری جنگ و جدل نے اس ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ افغان عوام نے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور اب اگر افغانستان کو استحکام کا ایک موقع میسر آیا ہے تو افغان حکومت کو اسے اپنے غلط اور گمراہ کن فیصلوں کی بھینٹ نہیں چڑھنے دینا چاہیے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ طالبان حکومت پاکستان کے تئیں اپنی معاندانہ روش ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔ افغان رہنماؤں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے تو اس کے براہِ راست اثرات افغانستان پر بھی پڑیں گے، کیونکہ پاکستان ہی افغان عوام کی ترقی کیلئے سب سے زیادہ اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ امن و استحکام کسی ایک ملک کی نہیں، بلکہ پورے خطے کی ضرورت ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہکسی بھی دوسرے ملک کی نسبت سب سے زیادہ خود افغانستان کی ضرورت ، جہاں کے عوام گزشتہ چھ دہائیوں سے جنگوں، خانہ جنگیوں اور خونریزی کا سامنا کر رہے ہیں۔ افغانستان میں دہشت گردی کے فروغ میں امریکی اسلحے کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکا جاتے ہوئے افغانستان میں سات ارب ڈالر کا جدید ترین اور مہلک اسلحہ چھوڑ کر گیا، جو اب ٹی ٹی پی سمیت مختلف دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ اسلحہ نہ صرف پاکستانی فورسز پر حملوں کیلئے استعمال ہو رہا ہے بلکہ بلیک مارکیٹ میں بھی دستیاب ہے، جہاں سے ہر قسم کے دہشت گرد گروہ اسے حاصل کر رہے ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسند ہوں یا ٹی ٹی پی کے خوارج، سبھی اس اسلحے سے لیس ہو چکے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اس اسلحے کو واپس لینے کیلئے اقدامات کریں گے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی امریکا اس معاملے میں سنجیدہ ہے؟ اگر عالمی برادری اس مسئلے کو نظر انداز کرتی رہی تو اس کا نتیجہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کیلئے تباہ کن ہوگا۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز دہشت گردی کیخلاف اپنی جنگ پوری جرأت اور بہادری سے لڑ رہی ہیں، مگر اس کے ساتھ عالمی برادری کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو افغانستان پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دے۔ ساتھ ہی پاکستان کو بھی اپنی داخلی سلامتی کو مزید مضبوط بنانے اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹی ٹی پی اور اس جیسے دیگر گروہ صرف پاکستان کے دشمن نہیں، بلکہ پورے خطے کیلئے ایک خطرہ ہیں اور اگر ان پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو اس کے بھیانک نتائج سب کو بھگتنا ہوں گے۔
بین المذاہب ہم آہنگی قومی ترقی کی ناگزیر ضرورت
پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے تیار کی گئی نئی پالیسی خوش آئند ہے، جس کے تحت اقلیتوں کے حقوق اور مذہبی آزادی کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کیلئے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔ اس پالیسی کا مقصد نہ صرف بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینا ہے بلکہ برداشت اور رواداری کی فضا قائم کرکے اقلیتوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا بھی ہے۔ اسلامی تعلیمات بھی اس حقیقت پر زور دیتی ہیں کہ ایک مسلمان کو نرم خو، مہربان اور ہر ایک کیلئے باعثِ امن ہونا چاہیے۔ اگر کسی غیر مسلم کو مسلم اکثریتی ملک میں اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو، تو بحیثیت مسلمان یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے اور ہمیں اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو اس پالیسی کے مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، کیونکہ جب پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے گا تو اس کا اثر بھارت جیسے مسلم مخالف ممالک کی سوسائٹی پر بھی پڑے گا۔ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے، جہاں ہر ملک کی داخلی پالیسیوں کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جاتے ہیں، لہٰذا پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ سے نہ صرف ملک میں استحکام آئے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک مثبت پیغام جائے گا کہ پاکستان ایک برداشت، رواداری اور مساوات پر یقین رکھنے والا ملک ہے۔ اس پالیسی پر مؤثر عملدرآمد وقت کی ضرورت ہے، تاکہ ایک پرامن، مستحکم اور ترقی پسند معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔