پاکستان نے ٹرمپ مودی ملاقات کے مشترکہ اعلامیے میں پاکستان سے متعلق حوالے کو یکطرفہ، گمراہ کن، حیران کن اور سفارتی اقدار کے منافی قرار دے دیا۔
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ جدید ٹیکنالوجی کی بھارت منتقلی پر شدید تحفظات ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور امریکا کے تعاون کے باوجود مشترکہ اعلامیے میں ایسا حوالہ آجانا حیران کن ہے۔ کسی مشترکہ بیان میں ایسے حوالے کو شامل کرکے بھارت کی جانب سے دہشت گردی کی سرپرستی، محفوظ پناہ گاہوں اور اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر ماورائے عدالت قتل کی وارداتوں پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا ہم امریکا بھارت مشترکہ بیان کو بے بنیاد، غلط اور اقدار کے خلاف قرار دیتے ہیں، مشترکہ بیان بھارت کی جانب سے عوامی حقوق کی پامالی کا جواب دینے میں ناکام رہا، دہشت گردی سے متاثرہ ملک کے طور پر پاکستان دنیا میں امن و استحکام کے فروغ کا خواہاں ہے۔
قبل ازیںبھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی وہائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوئی جس میں امریکی صدر کی جانب سے بھارت کو تیل اور گیس سمیت اربوں ڈالر کا فوجی سامان دینے کا اعلان کیا گیا، جبکہ دونوں ممالک کی جانب سے” دہشت گردی کا ساتھ مل کر مقابلہ کرنے” کے عزم کا بھی اعادہ کیا ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملاقات کے بعد کہا کہ انہیں بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کرکے خوشی ہوئی اور گزشتہ دور صدارت میں مودی کے ساتھ تعلقات انتہائی مضبوط رہے ہیں۔ ملاقات کے بعد جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین سرحد پار دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔ اعلامیے کے مطابق ٹرمپ اور مودی نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ممبئی حملوں اور پٹھان کوٹ واقعے میں ملوث مجرموں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ دونوں رہنماؤں نے” بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلائو اور غیر ریاستی عناصر تک ان کی رسائی روکنے” کے لیے مل کر کام کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ ملاقات میں مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ممبئی حملوں کا ذکر کیا، انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم کا شکریہ، ہم انہیں ایف 35 سمیت کئی ارب ڈالرکا فوجی سامان بھارت کو دیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کے درمیان ملاقات کے بعد کیے جانے والے اعلانات غیر متوقع نہیں ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی میں کئی چیزیں مشترک ہیں اور ان میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ وہ اسلام دشمنی اور پاکستان دشمنی کو چھپاتے نہیں۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح نریندر مودی بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی سیاست کی بنیاد پر اقتدار میں آیا اور اسی واحد” قابلیت” کی بناپر وہ آج بھی ہندوستان پر راج کر رہا ہے،بالکل اسی طرح امریکی سیاست میں ڈونلڈ ٹرمپ کے عروج اور ترقی کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ خود کو ایک نظریاتی صلیبی لیڈر سمجھتا ہے اور اس نے شروع دن سے اسلام اور مسلمانوں کو ہدف بنا رکھا ہے۔ اس نے مسلمانوں اور تارکین وطن کے خلاف اپنے متعصبانہ بیانات کے ذریعے ہی امریکی صدارت کی انتخابی مہم چلائی اور اس میں کامیاب بھی ہوا۔ پچھلی دفعہ صدر بننے کے بعد اس نے تمام بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے تل ابیب میں امریکی سفارتخانہ بیت المقدس میں منتقل کردیا اور فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے زبردستی دستبردار کرانے کے لیے نام نہاد ابراہیمی معاہدے کی داغ بیل ڈالی جس کے اصل مقاصد وعزائم اب سامنے آگئے ہیں۔ حالیہ صدارتی مہم کے دوران بھی اس نے فلسطینی مقاومت اور اس کی حمایت کرنے والوں کے خلاف کھل کر ہرزہ سرائیاں کیں۔ اقتدا ر دوبارہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے صہیونی درندے نیتن یاہو کو وہائٹ ہاؤس مدعو کیا، ستر ہزار سے زائد مسلمانوں کا خون پینے پر اس کی پیٹھ ٹھونکی اور اسے فلسطینیوں کے مزید قتل عام کے لیے دو ہزار پونڈ وزنی بموں کی ترسیل بحال کرکے دینے کے علاوہ غاصب قبضہ گیر صہیونیوں کو مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی مزید زمینوں پر قبضے کا بھی لائسنس سے دیا۔ ٹرمپ نے بعد ازاں شاہ اردن کو وہائٹ ہاؤس طلب کرکے فلسطینیوں کو اپنے ملک میں آباد کرنے کے لیے ڈرایا دھمکایا۔ اس کے بعد ٹرمپ نے گجرات کے قصائی نریندر مودی کو مہمان بنا لیا اور اس کے ساتھ بیٹھ کر نہ صرف یہ کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف بھاشن دیتے ہوئی کوئی شرم محسوس نہیں کی بلکہ پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑ کو مزید پختہ کرنے کے عزائم کو بھی دہرایا۔ جب وہاں موجود صحافیوں نے امریکا اور کینیڈا میں خالصتان تحریک کے رہنماؤں کے خلاف بھارتی دہشت گردی سے متعلق سوالات کیے تو امریکی صدر نے سنی ان سنی کردی۔ ٹرمپ نے بھارت کے اندر اقلیتوں کے ساتھ مودی سرکار کے امتیازی سلوک اور منی پور میں خود مسیحی برادری کے قتل عام پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ ٹرمپ نے بھارت کی اس سرحد پار دہشت گردی پرکسی تشویش کا اظہار نہیں کیا جس کا شکار پاکستان ہی نہیں بلکہ خود امریکا کے شہری بھی بن رہے ہیں تاہم اس نے نریندر مودی کی ہمنوائی کرتے ہوئے پاکستان کو اپنی سرز مین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کی” نصیحت ”ضروری سمجھی۔ ٹرمپ نے مودی ہی کی ایماء پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے ”انتہا پسندوں کے ہاتھ لگنے” کے بے بنیاد خدشے کو دوہرایا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں کیا عزائم رکھتا ہے۔
پاکستان نے ٹرمپ اور مودی ملاقات کے اعلامیے پر بجا طور احتجاج کیا ہے تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا یہ ردعمل محض زبانی کلامی احتجاج تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ پاکستان کی حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کو ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ کے منفی عزائم کا موثر جواب دینے اور پاکستان کے خلاف کسی بھی ممکنہ سازش کا پیشگی سدباب کرنے پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی۔ بالخصوص پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق حد درجے حساسیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا میں ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد دنیا میں نظریاتی صف بندی واضح ہوچکی ہے۔ ٹرمپ نے گزشتہ دور حکومت میں بھارت کو اپنا ”نظریاتی حلیف ”قرار دیا تھا اور اس وقت بھی ان کا پیغام بالکل واضح ہے۔ عالم اسلام کو اب پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ اپنی بقا کی جنگ کا چیلنج درپیش ہے۔ کیا مسلم حکمرانوں کو اس کا ادراک ہے؟