قیدی کے خطوط۔یہی جواب ہے، اس کا کوئی جواب نہیں!

غالب کی شاعری ان کی شخصیت کی پہچان ہے لیکن غالب کے خطوط انھیں سمجھنے کے لیے ان کی شاعری کی ہی طرح اہم ہیں۔ ان خطوط میں خوشی ہے، بے بسی ہے، التجا ہے، پریشانیوں کا ذکر ہے۔ گھر کی دیواروں کی دراڑیں ہیں، قحط ہیں، سیلاب ہیں، وبائیں ہیں، بخار ہیں، رات کی تاریکیوں میں نقب لگا کر تختے، دروازے اور چوکھٹیں نکال کر لے جانے والے چور ہیں، اس چوری سے پریشان غریب غرباء ہیں، مئی جون کی گرمی اور گرم ہوائیں ہیں، شاعری اور ادب کے تعلق سے مباحثے ہیں، مالی تنگیوں کا رونا ہے، گندم، چنے اور گھی کی آسمان چھوتی قیمتیں ہیں۔ دوستوں سے بچھڑنے کا رنج ہے، ویران بازار ہیں، حویلیوں میں گزرے ہوئے ماضی اور آنے والے مستقبل کا ذکر ہے۔ خط کو غالب نے روداد بنا ڈالا اور اردو اصناف ادب میں مکتوبات کا اہم ترین کردار ہے جو مکاتیب غالب کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا۔

ان دنوں ”قیدی کے خطوط” کی بازگشت ہے جن میں پابندیوں اور مظلومیت کا رونا ہے، گلے، شکوے ہیں، دھاندلی کے الزامات ہیں، طاقتور حلقوں تک رسائی کی خواہش ہے، فوج اور عوام کے درمیان بڑھتی خلیج کے تذکرے ہیں، من پسند عدلیہ کی تقرریاں، پیکا کا نفاذ، سیاسی عدم استحکام، ملکی معیشت کی تباہی، ریاستی اداروں کی سیاسی انجینئرنگ اور سیاسی انتقام میں شمولیت، 9 مئی اور 26 نومبر کو کارکنان پر ظلم و تشدد کی دہائیاں ہیں۔
ایک وقت تھاجب کبوترخطوط اور محبت نامے محبوب تک پہنچایا کرتے تھے، اب یہ انٹرنیٹ اور موبائل کے ذریعے پلک جھپکتے ہی محبوب کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ کبھی خط کا مطلب آدھی ملاقات تھا۔ قیدی804 کے خطوط سیاسی زبان میں کھلا خط کہلاتے ہیں۔ دھمکیوں پر مبنی خطوط اکثر منزل مقصود تک پہنچ پاتے ہیں اور نہ ایسے خطوط کا جواب آتا ہے۔ ہم لوگ عرصہ ہوا خط لکھنا فراموش کر چکے ہیں۔ جس طرح اڈیالہ جیل سے جی ایچ کیو میں خطوط آ رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ لوگوں میں پھر خط لکھنے، بھیجنے اور پڑھنے کا رجحان پیدا ہو جائے گا۔ پی ٹی آئی والے اپنے مرشد کی طرح خطوط لکھنے لگے تو یقینا محکمہ ڈاک کا ٹھپ پڑا کاروبار بحال اور ایک بار پھر ملک میں مقابلہ حسن و صحت کی طرح خطوط نویسی کے مقابلے بھی شروع ہو جائیں گے۔
عمران خان نے اپنے کھلے خطوط سے ایک خطرناک کھیل شروع کر دیا ہے۔ ان کے خطوط کو فوج میں تقسیم پیدا کرنے کی سازش اور ایک چارج شیٹ قرار دیا جا رہا ہے جو محاذ آرائی کی چنگاری کو شعلوں میں بدل سکتی ہے۔ یہ خطوط عمران خان اور ریاستی اداروں میں بڑھتی ہوئی محاذ آرائی کا نیا آغاز ہے کیونکہ ادھر سے وہی جواب آیا جس کی توقع تھی
مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا
یہی جواب ہے اس کا کوئی جواب نہیں
خان صاحب نے خطوط صرف آرمی چیف ہی نہیں بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان کے نام بھی خط بھیجا ہے۔ دیکھیں آنے والے دنوں میں اور کتنے خطوط لکھے جاتے ہیں
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
عمران خان جنرل عاصم منیر کے نام مبینہ طور پر تین خطوط لکھ چکے ہیں۔ ‘مجھ پر کوئی الزام ہے یا میں آپ پر کوئی الزام لگا رہا ہوں تو اس کی جوڈیشل انکوائری کروا لیں۔’ عمران خان یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ انہیں کسی بھی سیاسی راستے سے ریلیف کی توقع نہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد عدالتی منظر نامہ بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ انہیں پاکستانی فوج اور عدلیہ سے جو شکایات ہیں، ان کا اظہار ان خطوط سے ہو رہا ہے۔ خط لکھنا عمران خان کا حق ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مظلوم فریق ہیں لیکن ان کی جانب سے جو غلطیاں9 مئی سے شروع ہوئیں وہ اب تک جاری ہیں۔
عمران خان اپنے خطوط سے ملک میں ایک نفسیاتی ہیجان اور فوج میں کنفیوژن پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ خود بھی اِسی کیفیت کا شکار ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ جارحانہ انداز اختیار کر کے ریاست کو دفاعی پوزیشن پر لے آئیں گے، لیکن ایسا اب تک نہیں ہوسکا۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ طاقتور حلقوں تک رسائی کا راستہ سیاسی نہیں ہے۔
جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ راستہ اختیار کرنے سے نتائج جلد سامنے نہیں آئیں گے۔ سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کیے گئے خط میں عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے فوج اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو دور کرنے کے لیے آرمی چیف کو خطوط لکھے جس کا جواب غیر سنجیدگی سے دیا گیا۔ خط کا مقصد فوج اور عوام کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم کرنا ہے۔
عمران خان کے خطوط کے مندرجہ ذیل نکات ہیں:
”الیکشن میں دھاندلی، نتائج میں تبدیلی، 26ویں آئینی ترمیم، من پسند ججز کی بھرتیاں، پیکا کا اطلاق، سیاسی عدم استحکام سے ملک کی معیشت کی تباہی، ریاستی اداروں کی سیاسی انجینئرنگ اور سیاسی انتقام میں شمولیت، 9 مئی اور 26 نومبر کو ہمارے نہتے جمہوریت پسند کارکنان پر ظلم و تشدد کی انتہا کردی گئی، پر امن شہریوں پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں، سیاسی انتقام کی آڑ میں تین سال میں لاکھوں شہریوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، 20 ہزار سے زائد ورکرز اور سپورٹرز کی گرفتاری۔ فوج کو اپنی آئینی حدود میں واپس جائے۔ سیاست سے خود کو علیحدہ کرے، اپنی متعین کردہ ذمہ داریاں پوری کرے، ورنہ یہی بڑھتی خلیج قومی سلامتی کی اصطلاح میں فالٹ لائنز بن جائے گی۔ میری اہلیہ، ڈاکٹر یاسمین راشد، میری دونوں بہنوں سمیت سینکڑوں خواتین کو بے جا پابند سلاسل رکھا گیا۔ یہ سب ہماری روایات کے منافی ہے اور اس کی وجہ سے عوام میں فوج کے خلاف نفرت بہت بڑھ گئی ہے جس کا سدباب بروقت ہو جائے تو یہ فوج اور ملک دونوں کے حق میں بہتر ہے ورنہ اس کا ناقابل تلافی خسارہ ہوگا۔ پیکا جیسے کالے قانون کے ذریعے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر بھی قدغن کی وجہ سے پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس بھی خطرے میں ہے۔ انٹرنیٹ میں خلل سے ہماری آئی ٹی انڈسٹری کو اربوں ڈالرز کا نقصان اور نوجوانوں کا کیرئیر تباہ ہو رہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام سے معیشت کا برا حال ہے اور سرمایہ کار اور ہنرمند افراد مجبور ہو گئے ہیں کہ پاکستان چھوڑ کر اپنے سرمائے سمیت تیزی سے بیرون ملک منتقل ہوں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ قوم فوج کے پیچھے کھڑی ہو، میں نے جن نکات کی نشاندہی کی ہے ان پر عوامی رائے لی جائے تو 90 فیصد عوام ان کی حمایت کرے گی۔”
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو چاہیے کہ وہ سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔ پارلیمنٹ میں اپنا دباؤ بڑھائیں۔ سیاسی قوتوں کے پاس ایک ہی راستہ سیاسی قوتوں کو ساتھ ملانے کا ہوتا ہے۔ ان کے پاس فوج نہیں، سیاسی قوت ہوتی ہے اور سیاسی قوتیں سیاسی راستے نکال کر ہی آگے بڑھتی ہیں لیکن خان صاحب ”سولو فلائٹ” چاہتے ہیں۔ سیاسی اتحاد بنانے میں عمران خان نے بہت دیر کر دی۔ اب بننے والے سیاسی اتحاد میں جو تضادات ہیں، وہ کیسے حل ہوں گے۔ آگے بڑھنے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے، صبر کے ساتھ منصوبہ بندی۔ جتنی جگہ ملتی رہے اس کے مطابق آہستہ آہستہ آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ پاکستان کوئی مثالی جمہوری ملک نہیں، یہاں ایک ہائبرڈ سسٹم ہے۔ پاکستان میں سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو اور اسٹیک ہولڈرز کو جگہ دینی پڑتی ہے۔
روح گھبرائی ہوئی پھرتی ہے میری لاش پر
مومن خان مومن نے کہا تھا
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
ترا خط آنے سے دل کو میرے آرام کیا ہوگا
خدا جانے کہ اس آغاز کا انجام کیا ہوگا