خطوط کی فسوں گری۔ کل تک جو ٹھیک تھا کیسے ہوا وہ اب غلط

افسوں گری جادو گری، طلسم بندی، شعبدہ بازی کو کہتے ہیں۔ بعض ججوں کی افسوں گری کے باعث دنیا میں پاکستانی عدلیہ 142 ممالک میں 130 ویں اورخطے کے6 ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔

یہ ججوں کی وہ کارکردگی ہے جب 26 ویں ترمیم کا نام و نشان تک نہ تھا یعنی پاکستان کی عزت مآب عدلیہ مکمل آزادی کے وقت بھی دنیا میں آخر ی نمبروں پر تھی۔ انصاف کیلئے ہر روز لاکھوں افراد کورٹ کچہریوں میں رلتے ہیں۔ زندگیاں بیت جاتی ہیں لیکن انصاف نہیں ملتا۔ پاکستانی عدلیہ کو اپنی ساکھ بہترکر نے کیلئے عوام کو جلد اور سستا انصاف دینا ہو گا۔ جب برسوں کے لاکھوں زیر التوامقدمات کا فیصلہ ہو گا تو پھر عوام بھی عدلیہ اور ججوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ پاکستان میں جلد اورسستا انصاف ایک بے تعبیرخواب ہے ،اسی لیے عوام سراپا سوال ہیں کہ
منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے

اچھے ججوں کی پہچان ان کا اعلی کردار، آئین وقانون پر مضبوط گرفت اور عمدہ فیصلہ نویسی ہے۔جسٹس کارنیلئیس، جسٹس حمودالرحمن، جسٹس بدیع الزماں کیکاؤس، جسٹس شفیع الرحمن ،جسٹس ایم آر کیانی اور جسٹس تصدق حسین جیلانی کے لکھے فیصلے ان اصحابِ ذوق کو بھی آسودگی بخشتے ہیں،جو تحریر کے بانکپن کا لطف لیتے ہیں۔عدلیہ کا ہر جج حلف اٹھاتا ہے کہ”میں اپنے ذاتی مفاد کو سرکاری کام یا اپنے عدالتی فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا۔۔۔”خطوط نویسی یا مکتوب نگاری،روایتی اصنافِ ادب کا حصہ نہیں تھی لیکن مرزا غالب اور مولاناابوالکلام آزاد نیاسے ایسا آہنگ دیا کہ وہ چوکڑیاں بھرتا ہوا اردو ادب کا حصہ بنا۔ ”مکاتیب غالب” اور ”غبارِ خاطر”ادب کے عظیم شہ پارے قرار پائے۔خط کْلّی طور پرکسی فردِ واحد کے جذبات واحساسات کا ترجمان ہوتا ہے۔یہ ایک سے زیادہ افراد کاہوتو اسے”خط”نہیں،درخواست یاپٹیشن کہا جاتا ہے۔
26 مارچ2024ء کو 6 جج صاحبان کے شہرہِ آفاق خط کے بعد سے مکتوبات کا سلسلہ جاری ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں زبردست مقابلہ ہے۔ماضی میں جج مل بیٹھتے تو کسی مقدمے کے اسرارورموز پر بات ہوتی، آئین وقانون کی گتھیاں سلجھائی جاتیں، زیربحث مسئلے پر ماضی کے نظائر دیکھے جاتے،فیصلوں کی نوک پلک سنواری جاتی، لیکن اَب ایجنڈا یہ ہوتا ہے کہ اَگلا خط کب اورکسے لکھنا ہے؟ خط میں یہ شکایت تھی کہ ”ایک ایجنسی کام میں مداخلت کرتی اور ہمیں ڈراتی ہے اور جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کی جائے۔” ستمبر 2018ء میں جسٹس صدیقی نے ایجنسی کے خلاف آوازاٹھائی تھی جب انہیں ڈیڑھ ماہ بعد چیف جسٹس بننا تھا۔11اکتوبر2018ء کو صدر عارف علوی نے شوکت صدیقی کی معزولی کا حکم جاری کیا۔ چیف جسٹس انور خان کاسی، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کا حصّہ تھے۔ کسی نے رسمی مذمتی بیان دیا،نہ احتجاج کیا۔ صدیقی نے بیٹی کی شادی پر دعوت دی،توایک جج بھی شریک ہوا، نہ فون پرمبارک دی۔گلشن کا کاروبار یوں ہی چلتا رہا۔جسٹس اطہرمن اللہ چیف جسٹس بنے،انہیں اور نہ مکتوب نگاروں کو شوکت صدیقی یاد آئے۔الزامات بھی اس وقت یاد آئے جب ان کی معزولی کو5سال، 5ماہ ،15دِن ہوچکے تھے۔ ایسے میں یہی کہا جا سکتا ہے
چلائے خنجر تو گھاؤ دیں گے
بنوگے شعلہ ا لاؤ دیں گے
رواں ماہ صدر مملکت آصف زرداری کی منظوری کے بعد لاہور، بلوچستان، سندھ ہائی کورٹس سے تین جج جسٹس محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کا اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کیا گیا۔ اس ٹرانسفر پر ہیجان برپا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5ججوں نے اس اقدام کو غیر قانونی اور آئین سے فراڈ قرار دیا۔ اسلام آباد کے وکلا کی کچھ نمائندہ تنظیمیں’عدلیہ کی آزادی’ کے خلاف تصور کرتے ہوئے احتجاج کررہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ عمل عدلیہ کی آزادی اور آئین کی خلاف ورزی پر مبنی ہے؟ آئین کی دفعہ 200، ذیلی دفعہ1، میں ہائی کورٹ ججز کے تبادلے کااختیارچند شرائط کے ساتھ صدرکے پاس ہے۔
شرائط یہ ہیں۔1۔تبادلے والا جج اس تبادلے پر راضی ہو۔2۔جس ہائی کورٹ سے اس کا تبادلہ کیا جارہا ہو، اس کے چیف جسٹس سے مشاورت کی گئی ہو۔ 3۔ایسی ہی مشاورت اس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ بھی ہو جہاں تبادلہ ہورہا ہو۔ 4۔ایسی ہی مشاورت چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ بھی ہو۔
جب ہائی کورٹ کے ججوں کا تبادلہ ان کی رضامندی سے ہوا اورچیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کورٹ رپورٹروں سے گفتگو میں واضح کیاکہ اس معاملے میں ان کے ساتھ اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کے ساتھ بامعنی مشاورت بھی ہوئی ہے، تو پھر اسے عدلیہ کی آزادی پر حملہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟ دفعہ 200 کی ذیلی دفعہ 1 کے تحت جب کسی جج کا تبادلہ ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں مستقل ہوجائے، تو اس سے دوسری ہائی کورٹ کے ججوں کی سینیارٹی پر فرق پڑ سکتا ہے۔ 26ویں ترمیم نے طے کیا کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں سینئر تین ججوں میں کسی ایک کو چیف جسٹس تعینات کیا جائے گا۔یہ بات اپنی جگہ قابلِ بحث ہے کہ کسی مخصوص جج کے چیف جسٹس نہ بننے سے عدلیہ کی آزادی کو کیا خطرہ لاحق ہے خصوصاً جب وہ جج ان تین ججوں میں شامل ہو،جن کے نام چیف جسٹس تعیناتی کیلئے زیرِ غور آئیں؟
کل تلک جو ٹھیک تھا کیسے ہوا وہ اب غلط
یاد رہے کہ جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کمیٹی نے ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کی تعیناتی کیلئے رولز میں یہی ترمیم تجویز کی تھی۔ اسی اصول پر لاہور ہائی کورٹ کے دو سینئر ججوں کو ‘سپرسیڈ’ کرکے سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس عالیہ نیلم کو متفقہ طور پر چیف جسٹس بنایا گیا۔ اگر یہ بات اس وقت عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں تھی، تو اب کیسے ہوگئی؟
دن تمہارے خوب تر ہیں اور ہماری شب غلط
تم کرو تو سب صحیح اور ہم کریں تو سب غلط
آرٹیکل 200 سے یہ بات تو طے ہوچکی کہ ہائی کورٹ ججز تبادلوں کا عمل غیرآئینی و غیر قانونی یا فراڈ نہیں،بلکہ آئین کے مطابق ہے۔ اس سے پہلے بھی ہائی کورٹ ججز کے تبادلے ہوتے رہے۔جیسا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین سابق چیف جسٹس صاحبان، جن میں جسٹس سردار محمد اسلم 9 فروری 2008ء کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنا ئے گئے۔ جسٹس اقبال حمید الرحمان جنوری 2011ء میں چیف جسٹس بنے۔ جسٹس بلال خان بھی 2008ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعینات کیے گئے۔ تینوں ججز لاہور ہائی کورٹ سے آئے تھے۔
ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
آزاد عدلیہ کے ججزنے مفاد اور عناد کے تحت عجیب الخلقت بچوں کی طرح کے فیصلے کرکے عدلیہ پر حملے کے جواز مہیاکیے۔ جب ججز دائرہ اختیار سے نکل کر سیاست کریں گے تو پھر سیاست دان کیسے سیاست نہیں کریں گے ؟
ہواؤں کو اب لگام دے لو
سنو نہ چنگاریوں سے کھیلو
ملی جورائی بنے گی پربت
ذرا حقیقت سے کام لے لو
ستم کے بدلے ستم کریں گے
جو تم کروگے وہ ہم کریں گے!