ترک صدر کی آمد۔ امید یں اور توقعات

ترک صدر رجب طیب اردوان دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ ان کی پاکستان آمد کے موقع پر صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اعلیٰ حکام کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے معزز مہمان کی آمد پر جاری کردہ بیان میں کہا کہ پوری قوم ترک صدر اور خاتون آمد کا بھرپور خیرمقدم کرتی ہے۔ وزیر اعظم کے مطابق ترک صدر کی بصیرت افروز قیادت میں ترکیہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔

پاک، ترک تعلقات مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے امید ظاہر کی کہ ترک صدر کے دورۂ پاکستان کے موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات نئی بلندیوں تک پہنچیں گے۔ معزز مہمان وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی خصوصی دعوت پر پاکستان تشریف لائے ہیں۔ جس وقت یہ سطور رقم کی جا رہی ہیں، ترک صدر وزیر اعظم ہاؤس میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے مدعو ہیں۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور ترک صدر رجب طیب اردوان مشترکہ تعاون کونسل کی صدارت کریںگے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اہم معاہدوں کی منظوری کی توقعات ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس دورے میں جہاں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات کو مزید بہتر بنانے پر بات چیت کی جائے گی وہاں دفاعی تعاون میں پیش رفت کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال اور خاص طورپر قضیۂ فلسطین اور اہلِ غزہ کے ساتھ تعاون کے حوالے سے بھی مشاورت کا قوی امکان ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان کی قیادت میں ترکیہ نے واقعی حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ معاشی اور دفاعی لحاظ سے ترکیہ مضبوط اور مستحکم ہوا ہے۔ عالمی سیاست میں بھی ترکیے کے کردار میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ترکیہ عالمی سیاست میں ایک اہم حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشائی ریاستوں تک ترکیہ کا اثر و رسوخ دیکھا جا سکتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی آتشیں صورتِ حال میں ترک صدر کی بصیرت افروز کارکردگی کا ایک ثبوت شام کا انقلاب ہے۔ شام کی سیاست کا رخ مڑتے ہی خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور ایران جس کی ایما پر شام کی سابق جلاد حکومت نے عرب مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی تھی، اس وقت علاقائی سیاست میں ترکیہ کی اعانت کا طلب گار دکھائی دے رہا ہے۔ ترکیہ نے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو بڑی حد تک بہتر بنایا ہے اور ہر اہم مرحلے پر اس نے عرب ریاستوں کا ساتھ دینے کی کوشش کی ہے۔ ترک قیادت نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو اہمیت دی ہے اور موجودہ حکومت دونوں دوست ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی آرزو مند دکھائی دیتی ہے۔ ترک صدر ایک ایسے وقت پاکستان تشریف لائے ہیں جب مشرقِ وسطیٰ کے بحران نے امتِ مسلمہ کو اضطراب سے دوچار کر رکھا ہے۔ مسلم نوجوانوں میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر ان کی ریاستیں قضیہ فلسطین میں خاموش تماشائی کا کردار کیوں ادا کر رہی ہیں اور مسلم ممالک مل کر اہلِ غزہ کے ساتھ قرار واقعی تعاون سے کیوں نہیں کرتے؟ فی الواقع قضیۂ فلسطین کے حوالے سے مسلم امہ آج بھی اتحاد و اتفاق کا وہ کردار ادا نہیں کر پا رہی جس کی تاکید قرآن وسنت میں بارہا کی گئی ہے اور جس کے بغیر مسلمانوں کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ایسے حالات میں مسلم ریاستوں کے درمیان مختلف النوع تجارتی، اقتصادی اور دفاعی معاہدوں کی ضرورت کسی بھی صاحبِ بصیرت سے مخفی نہیں رہ سکتی، اہم بات یہ ہے کہ عالمِ اسلام کے درمیان جس اشتراک، تعاون اور ربط و ضبط کی ضرورت ہے، اس کی بنیاد ملی ضروریات اور مشترکہ قومی تقاضے ہونے چاہئیں۔
اس میں دورائے نہیں ہو سکتیں کہ عالمی سیاست میں جہاں آ ج بھی دلیل و منطق کی بجائے طاقت اور مفادات کی حکمرانی ہے، سفارتی تعلقات ایک مؤثر قوت سمجھے جاتے ہیں۔ دنیا میں یک قطبی نظام اختتام پذیر ہے۔ عالمی سطح پر نئی صف بندیاں کی جا رہی ہیں۔ اس ذیل میں تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پیوٹن کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ دراصل یوکرین کی دلدل میں پھنسے امریکا کی واپسی کا آغاز ہے جس کے بعد دنیا میں ایک سفارتی و سیاسی تعلقات کی ایک نئی دوڑ کا آغاز ہوسکتا ہے۔ ان حالات میں مسلم دنیا کو بھی مستقبل کے حوالے سے بصیرت، دوراندیشی درکار ہے۔ مسلم امہ کو دینِ اسلام کی بیان کردہ تعلیمات کی روشنی میں اپنے تشخص اور کردار کی بحالی اور عالمی طاقتوں کے تسلط اور جبر سے نجات پانے کی ضرورت درپیش ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکی صدر ٹرمپ نے قضیۂ فلسطین کو مغرب کی روایتی اجارہ داری، دھونس، دباؤ اور جبر کے ذریعے اپنی خواہشات اور مرضی کے مطابق حل کرنے پر اصرار کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کے جواب میں عرب ممالک میں فی الوقت اس حد تک اتحاد پایا جاتا ہے کہ انھوں نے غزہ سے فلسطینیوں کے جبری انخلا کا منصوبہ مسترد کر دیا ہے۔ عالمِ عرب میں یہ پیش رفت بھی اہمیت رکھتی ہے کیوں کہ غزہ پر مسلط پندرہ ماہ کی جنگ کے دوران عربوں نے سوائے گفت و شنید کے، مزید کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ اہل غزہ کل بھی مزاحمت کا ہر اول دستہ خود ہی تھے اور آج بھی دھمکیوں کے جواب میں، وہ اپنے ہی زورِ بازو پر مزاحمت جاری رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان، ترکیہ اور سعودی عرب جیسے اہم مسلم ریاستوں کا فرض ہے کہ وہ اہلِ غزہ کو کسی نئی جارحیت سے بچانے کے سلسلے میں اشتراکِ عمل سے کام لیں۔ فلسطین کے رضاکاروں اور ان کا ساتھ دینے والی عوام کو اسرائیلی اور امریکی ہتھیاروں کے سپرد نہیں کرنا چاہیے۔ اس معرکے میں ترکیہ کا کردار شاید مستقبل میں نمایاں طورپر سامنے آئے تاہم سرِدست اس امر کی ضرورت ہے کہ مسلم ریاستیں اپنے داخلی اتحاد کو مستحکم بنائیں۔ اقتصادی و دفاعی شراکت کو بہتر بنایا جائے۔ اہم معاملات میں چین اور روس کا تعاون ضروری ہوسکتا ہے لیکن مسلم امہ کو ماضی کی غیر جانب دار تحریک کی مانند کسی بھی بلاک کا حصہ بننے سے گریز کرنا چاہیے۔ غزہ کی جنگ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ عالمی طاقتیں کسی بھی طورپر مسلمانوں کو برابری کا درجہ دینے پر تیار نہیں ہیں۔ انسانی حقوق، عالمی قوانین اور سفارتی آداب ان کے نزدیک محض کاغذ پر لکھے الفاظ ہیں جن کا مفہوم ان کے ہتھیار ہی متعین کرتے ہیں۔ ان حالات میں مسلم امہ کا اتحاد کس قدر ضروری ہے؟ یہ امر محتاجِ بیان نہیں۔
ترکیہ کے معزز مہمان کی آمد اس حوالے سے بھی خوش آئند ہے کہ پاکستان بدترین معاشی بحران سے نکلنے کی تگ و دو میں ہے، اس سلسلے میں ترک قیادت کے تجربات اور مشاورت پاکستان کی سیاسی صورتِ حال کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور ترکیے کے درمیان تجارتی، اقتصادی، معاشی اور دفاعی تعاون کے منصوبے دونوں ملکوں ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام کے لیے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ خدا کرے کہ پاکستان اور ترکیہ مل کر ایک مسلم بلاک کی تشکیل میں کامیاب ہو سکیں۔