کراچی تبلیغی اجتماع

رائے ونڈ میں ہر سال سالانہ تبلیغی اجتماع ماہ نومبر میں منعقد ہوتا ہے جس میں پورے پاکستان خصوصاً کراچی کے لاکھوں افراد شریک ہوا کرتے ہیں۔

پھر اس اجتماع کو سالانہ دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ اس طرح یہ چار حصوں میں منقسم ہے جس کے باعث اہل کراچی کو ہر دوسرے سال رائے ونڈ کے اجتماع میں شرکت کا موقع ملتا۔ اس صورت میں ہر ایک علاقائی اجتماع کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔

ملک کے مختلف علاقوں میں اجتماعات کی نسبت کراچی کا اجتماع عالمی نوعیت کا بنتا چلا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کراچی کی پہچان بنتا چلا جارہا ہے۔ کراچی کا تقریباً ہر ایک شہری چاہے وہ اجتماع میں شرکت نہ کرسکے کسی مجبوری کے باعث وہ بھی کراچی کے اس اجتماع کی اہمیت سے واقف ہے۔ اس کی کامیابی کے لیے ہر ایک دعا گو رہتا ہے۔ غالباً 1980ء کے بعد کراچی میں زیادہ بڑے پیمانے پر کھلی جگہ میں اجتماعات کا آغاز ہوا۔ اس سے قبل جب رائے ونڈ کے بزرگ اور ان کے ساتھ قافلے میں مدینہ منورہ سے آئے ہوئے بزرگ بھی شامل ہوجاتے تھے، وہ پہلے کراچی آتے، یہاں مکی مسجد گارڈن روڈ پر ایک یا دو روز کا اجتماع ہوتا اور پھر وہ ‘ٹنگی’ ڈھاکا کے اجتماع میں شرکت کے لیے تشریف لے جاتے جہاں لاکھوں افراد کا اجتماع ہوتا تھا۔اہالیانِ بنگلادیش کے محبوب مقرریں میںبھائی عبدالوہاب اور بھائی مشتاق جن کے عزیز واقارب کراچی میں مقیم ہیں اور انہوں نے اپنی پوری زندگی رائے ونڈ کے تبلیغی مرکز میں گزار دی، ان دونوں کے علاوہ پاکستان سے گئے کئی تبلیغی بزرگوں کو بنگلادیش والے پسند کرتے ہیں ۔ آج بنگلادیش میں جو انقلاب آیا ہے اسے کسی حد تک مذہبی بھی کہا جاسکتا ہے اور اس میں تبلیغی اجتماعات کے اثرات کی نفی نہیں کی جاسکتی۔

بہرحال 1980ء کے عشرے میں کراچی کے مختلف علاقوں میں اجتماعات رکھے جاتے تھے جس کے لیے پورے میدان کو صاف کیا جاتا تھا۔ 1984ء میں ملیر غازی ٹاؤن میں ہونے والے اجتماع کے موقع پر بتایا جاتا ہے کہ جھاڑیوں کی صفائی کے دوران ہزاروں سانپ بھی بلوں سے نکالے گئے تھے اور انہیں تلف کیا گیا تھا۔ بعد میں اس علاقے میں ایک مشہور ڈِیویلپر نے غازی ٹاؤن آباد کیا۔ غالباً 1985ء میں قریب ہی جامعہ بنوری ٹاؤن والوں نے ایک مدرسہ قائم کیا جس کا افتتاح حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن نے کیا تھا۔ پھر شاہ لطیف ٹاؤن جو کہ غیرآباد پڑا ہوا تھا، وہاں اجتماع منعقد کیا گیا۔ اس کے بعد وہاں تیزی سے آبادی بڑھنے لگی۔ یہی حال گلشن اقبال عابد ٹاؤن کا تھا۔ اجتماع منعقد ہونے کے بعد یہاں جلد ہی آبادی قائم ہوگئی۔ 1992ء میں شرافی گوٹھ کے نزدیک اجتماع منعقد کیا گیا۔

1980 ء کے عشرے کے آخر میں ماڈل کالونی معین آباد کے غیرآباد جھاڑیوں والے علاقے میں اجتماع منعقد ہوا تھا اور اس کے بعد وہاں آبادی قائم ہونے لگی۔ اس طرح شہر کے مختلف حصوں میں ان دنوں کراچی کے اجتماعات مختلف مہینوں میں بھی منعقد ہوا کرتے تھے۔ اب کافی عرصے سے منگھوپیر کے علاقے اور گلشن بہار کے نزدیک ایک وسیع علاقے میں کراچی کا اجتماع منعقد کیا جارہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2023ء کے اجتماع میں 8 لاکھ سے زائد افراد شریک ہوئے تھے اور 2024ء کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ مجمع اتنا زیادہ ہوگیا ہے لوگ کھلے آسمان تلے بستر لگا رہے ہیں۔

ہر سال کراچی اجتماع کا شہریوں کو انتظار رہتا ہے۔ نظم کے ترتیب کے لیے محلے کی مسجد کی سطح پر جماعتیں تشکیل دی جاتی ہیں۔ نظم کے ترتیب کے لیے محلے کے مسجد کے امیر صاحب مشورے سے چند افراد کی ذمہ داری لگاتے ہیں، اس طرح ان اجتماعات میںمحلے سے بیسیوں نوجوان اپنے بڑوں کے ساتھ اجتماع میں شریک ہوتے ہیں۔ محلے کی سطح پر مسجد سے شروع ہونے والی بھائی چارے کی فضا اجتماع گاہ میں جاکر پروان چڑھتی ہے۔ محلے کے نوجوان اپنے محلے کے بزرگوں کی خدمت کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ صبح کے ناشتے میں اکثر وبیشتر محلے کی جماعتیں حلوہ، نان، پاپے، ڈبل روٹی، چائے وغیرہ سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ دوپہر کے وقت دال، چاول، بریانی، مرغی یا پھر گائے کے گوشت کے سالن بناکر تناول کرتے ہیں۔ رات کے وقت کہیں کہیں سے نہاری کہیں سے قورمے کی خوشبو بھی آتی ہے۔ اس طرح تین یوم نئے جڑنے والوں کے لیے یہ اجتماع خوشگوار اثرات کے ساتھ آپس میں بھائی چارے کی فضا کو پروان چڑھاتا ہے، جس کے اثرات کراچی کے بہت سے علاقوں اور محلوں میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ اعلیٰ ترین بات یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی مسلک کا فرد بآسانی یہاں وقت گزارتا ہے۔ اس کے مذہبی عقائد کے بارے میں کسی قسم کی طنز یا بحث ومباحثہ نہیں کیا جاتا۔

13 فروری تا 16فروری کراچی اجتماع کے فوراً بعد میرپور خاص کا اجتماع جوکہ 17فروری سے ہو رہا ہے، پھر سبی کا اجتماع 21فروری سے اس کے علاوہ لاہور کا اجتماع 22فروری سے منعقد کیا جا رہا ہے۔ لیکن ان سب میں رائے ونڈ کے اجتماع کے بعد اب کراچی کا اجتماع انتہائی اہمیت کا حامل بنتا چلا جا رہا ہے۔ ان اجتماع میں لوگ مختلف اوقات کے لیے بھی شریک ہوتے ہیں۔ مثلاً نماز جمعہ کی ادائی کی خاطر لوگ جوق در جوق چلے آتے ہیں۔ ہزاروں افراد بروز ہفتہ شریک ہوکر کچھ چلے بھی جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہفتے والے دن لاکھوں افراد ٹولیوں کی صورت میں یا انفرادی طور پر آ جاتے ہیں۔ شب بسری کے لیے مجبوراً کھلے آسمان تلے سو جاتے ہیں اور پھر دعا والے دن بھی یہ سلسلہ کچھ اس طرح سے ہوتا ہے کہ ہفتے کے دن پھر رات پھر آدھی رات تک اور پھر وقت سحر تک لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ بعد نماز فجر تا وقت دعا اور اس کے بعد بھی لوگوں کی آمد جاری رہتی ہے، کیونکہ دعا کے وقت لاکھوں افراد ٹریفک جام میں پھنس جاتے ہیں۔ پھر تو لاؤڈ اسپیکر پر جہاں جہاں آواز جاتی ہے لوگ بیٹھ کر دعا میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

اگر کراچی کی آبادی کو مدنظر رکھا جائے تو وہ تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس کا نصف ڈیڑھ کروڑ مردوں اور بچوں پر مشتمل ہے۔ اس کا دس فیصد 15 لاکھ افراد بنتے ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ دعا تک مختلف مرحلوں میں 15 یا 16 لاکھ افراد اس اجتماع میں شریک ہوں گے۔ اس اجتماع کے موقع پر بتایا جا رہا ہے 5000 جماعتیں تشکیل پانے کی توقع ہے۔ کراچی کے نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ میٹرک، انٹر اور گریجویٹس کے بعد جماعت میں وقت لگاتے ہیں۔ اسی طرح مدرسوں کی چھٹیوں کے موقع پر طلبائے کرام کی اچھی خاصی تعداد وقت لگاتی ہے۔ اس طرح ان کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کرام سے سیکھے ہوئے دینی علوم سے عوام الناس کو مستفید کرسکیں۔
بہرحال رائے ونڈ کے اجتماع کے بعد کراچی میں ہر سال ماہ فروری یا کبھی جنوری میں منعقد ہونے والا یہ اجتماع انتہائی اہمیت اختیار کرتا چلا جارہا ہے۔ خاص طور پر دعا والی صبح رقت آمیز دعا میں شرکت کے لیے اہل کراچی کا جوش وخروش دیدنی ہوتا ہے۔ اجتماع کی معاشی اہمیت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ہزاروں دکانیں اور مطبخ جہاں بہت کم پیسوں میں کھانا مل جاتا ہے اور پکوان والوں سے بھی ہزاروں دیگیں خریدی جاتی ہیں، لوگ دینی ماحول میں رہ کر بزرگوں کے بیانات سنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کے مطابق پورا کرنے کا عزم کرنے کے ساتھ اسے عوام تک پھیلانے کا ارادہ کرتے ہیں۔