اداروں میں تناؤ قومی استحکام کے لیے خطرہ ہے

اسپیکرقومی اسمبلی سردار ایازصادق نے قومی اسمبلی کو جعلی کہنے اور ایک جج کی جانب سے ایوان کے بارے میں ریمارکس کو ”ناقابل قبول” قرار دیتے ہوئے رولنگ دی اور وزیر قانون کو ہدایت کی ہے کہ وہ معزز جج کو پیغام دیں کہ اس طرح کا بیان پارلیمنٹ کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے ایوان کو جعلی قرار دیا جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ان کے دور میں اسمبلی جعلی نہ ہو اور دوسروں کے دور میں جعلی ہو، جعلی پارلیمنٹ کہہ کر تنخواہیں بھی لیتے ہیں۔ ایاز صادق نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج نے پارلیمنٹ سے متعلق الفاظ استعمال کیے۔اسپیکر قومی اسمبلی نے وزیر قانون کو معززجج کو پیغام پہنچانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی پارلیمنٹ کیخلاف بیان دینے کا حق حاصل نہیں۔جج کے ریمارکس پارلیمنٹ پر حملہ ہے۔
عدلیہ اور پارلیمنٹ ریاست کے ستون ہیں، جن کا استحکام ملکی نظام کی مضبوطی کے لئے نہایت ضروری ہے، تاہم حالیہ دنوں میں دونوں اداروں کے درمیان محاذ آرائی کی صورت بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک معزز جج کے پارلیمنٹ کے حوالے سے ریمارکس اور اس پر اسپیکر قومی اسمبلی کا سخت ردعمل اس کشیدہ ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔ آئین میں تمام اداروں کے دائرہ کار متعین ہیں۔ ریاست کے تمام ستونوں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے، تاکہ ریاستی نظم و نسق میں ہم آہنگی برقرار رہے۔ عدلیہ کا کام آئین کی تشریح اور انصاف کی فراہمی ہے، جبکہ پارلیمنٹ کا بنیادی فریضہ قانون سازی ہے۔ ایک ادارہ دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کرتا ہے تو تنازعات جنم لیتے ہیں، جو ملکی استحکام کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ عدلیہ کو چاہیے کہ وہ سیاسی معاملات میں احتیاط سے کام لے اور صرف آئینی و قانونی نکات پر توجہ دے، جبکہ پارلیمنٹ کو بھی عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے تاکہ ادارہ جاتی تصادم سے بچا جا سکے۔
ملکی تاریخ میں عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان کئی مواقع پر تنازعات دیکھے گئے ہیں۔ ماضی میں عدلیہ کے بعض فیصلے پارلیمنٹ کی قانون سازی کے خلاف تصور کیے گئے، جبکہ پارلیمنٹ کی جانب سے بھی عدالتی فیصلوں پر سخت ردعمل آیا۔ ماضی قریب ہی میں اعلیٰ عدلیہ کے بعض ججوں کی جانب سے ایگزیکٹو اور مقننہ کے حوالے سے کچھ ایسے فیصلے آتے رہے جن کی قانونی حیثیت پر بجا طور پر سوالات اٹھائے گئے اور ماہرین قانون ان فیصلوں کو آئینی فریم ورک سے تجاوز اور پارلیمنٹ کو نیچا دکھاتے ہوئے خود مقننہ بننے کی کوشش قرار دیتے رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی اور میاں نواز شریف کیخلاف عدالتی فیصلوں کو بھی حدود سے تجاوز کی مثالیں قرار دیا جاتا ہے۔ ملک پہلے ہی شدید سیاسی اور اقتصادی بحران سے دوچار ہے اور حکومت کی کوششوں کے باوجود حالات قابو میں آتے نظر نہیں آرہے، ایسے میں ادارہ جاتی کشیدگی ملک میں مزید سیاسی، انتظامی اور معاشی عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی نہ صرف گورننس کو متاثر کرے گی بلکہ جمہوری عمل کو بھی نقصان پہنچائے گی۔ پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی اگر عدلیہ کے سامنے چیلنج ہوتی رہے اور عدالتی فیصلے پارلیمنٹ کے دائرہ کار کو متاثر کریں تو اس کا نتیجہ صرف انتشار کی صورت میں نکلے گا۔ اسی لیے ضروری ہے کہ دونوں ادارے اپنی حدود کا خیال رکھیں اور غیر ضروری محاذ آرائی سے گریز کریں۔ جیوڈیشل ایکٹوزم کی ایک حد ہونی چاہیے تاکہ عدالت سیاست میں ملوث ہونے سے محفوظ رہے۔ بعض اوقات عدلیہ کے فیصلے غیر متوقع ہوتے ہیں اور ان کے سیاسی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جو عدلیہ کے وقار اور غیر جانبداری پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح پارلیمنٹ کو بھی اپنے قانون سازی کے حق کو دانشمندی اور آئینی تقاضوں کے مطابق استعمال کرنا چاہیے۔ جب دونوں ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں گے، تو ملک میں استحکام کو فروغ ملے گا۔سیاسی جماعتوں کا بھی اس تنازعے میں اہم کردار ہے۔
عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان تناؤ نہ صرف جمہوری اداروں کو کمزور کر سکتا ہے بلکہ ملکی ترقی اور استحکام میں بھی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ قانون کی بالادستی اور ملکی سا لمیت اسی وقت ممکن ہے جب تمام ریاستی ادارے اپنی آئینی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے ادا کریں۔ سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور عوام کو بھی اداروں کے وقار کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ملک کو اس وقت سب سے زیادہ سیاسی استحکام، آئینی بالادستی اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ اگر تمام ریاستی ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں اور ایک دوسرے کے دائرہ اختیار کا احترام کریں تو قومی ترقی اور استحکام کی منزل کی جانب بڑھا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان اختلافات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا جائے تاکہ عوامی اعتماد بحال ہو اور ریاستی امور خوش اسلوبی سے چل سکیں۔ ایک دوسرے پر تبصروں سے تمام ادارے اپنا وقار کھو دیں گے۔
عوام کو ریلیف دینے کی ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے
اطلاعات کے مطابق حکومت کو رمضان المبارک میں چینی کی قیمت کم کرانے میں مشکل کا سامنا ہے اور یہ مشکل شوگر ملز کی جانب سے پیش آرہی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ رمضان میں چینی کی قیمت 120 روپے فی کلو ہونی چاہیے تاکہ عوام کو ریلیف دیا جا سکے، جبکہ شوگر ملز چینی کی پیداواری لاگت 170 روپے فی کلو بتا کر قیمت کم کرنے پر آمادہ نہیں۔ اس وقت مارکیٹ میں چینی 155 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے، جو عام صارفین کیلئے پہلے ہی ایک بوجھ ہے۔ یہ نہ صرف حکومتی رٹ اور پالیسیوں کی عمل داری کا سوال ہے بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح چند مخصوص کاروباری طبقات اپنی اجارہ داری قائم رکھتے ہوئے عوام کے مفادات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اگر حکومت واقعی عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو اسے مضبوط اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ حکومت کو یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ چینی کی قیمت کم کرنے کی کوئی بھی حکمت عملی مارکیٹ میں عملی طور پر نافذ ہو اور مصنوعی قلت یا بلیک مارکیٹنگ کو روکا جا سکے۔ رمضان المبارک میں عوام کو ریلیف فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، اور اگر حکومت واقعی اس پر سنجیدہ ہے تو اسے محض بیانات اور دعووں کے بجائے سخت عملی اقدامات پر توجہ دینی ہوگی۔