پاکستان آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر قرض کا پروگرام لیے ہوئے ہے۔ نئی قسط آنے والے مہینوں میں ملنی ہے لیکن پچھلی قسط کے وقت پاکستان کو جو پاپڑ بیلنا پڑے تھے اِس بار اُس سے زیادہ پاپڑ بیلنا پڑسکتے ہیں۔ وزیر اعظم اپنی ٹیم کے ہمراہ حرکتوں کو بابرکت بنانے کے لیے غور و خوض کے ساتھ عمل کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
ایک طرف اسٹیٹ بنک، وزارتِ خزانہ، ایف بی آر اور دوسرے ادارے اپنی اندرونی ذمے داری نباہ رہے ہیں۔ صوبے بھی اس پرو گرام کا حصہ ہیں، اس لیے مرکز صوبوں کو ہلا جلا رہا ہے اور صوبے خود بھی ہل جل کر رہے ہیں، اس لیے کہ پیسہ سب کی ضرورت ہے اور آئی ایم سے قرض لینا مہا ضرورت بلکہ مہاہاہاہاہاہا ضرورت سمجھ لیں۔ گزشتہ روز وزیر اعظم چھوٹے میاں جی اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کے درمیان ایک میٹنگ ہوئی، خبروں سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ملاقات خوش گوار رہی اور کرسٹالینا جارجیوا پاکستان کی مالیات سے متعلق اصلاحات پر خوش ہیں، سراہ رہی ہیں اور نیک گمان نیک خواہشات کا اظہار کر رہی ہیں۔ دوسری طرف ماہرین کچھ پیچیدگیاں ظاہر کر رہے ہیں کہ پاکستان کو اس معاملے میں دانتوں پسینہ آسکتا ہے۔
٭٭٭
آئی ایم ایف کا ایک بڑا وفد پاکستان کے دورے پر ہے اور چھ اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لے رہا ہے۔ اسی سلسلے میں اس وفد نے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس سے بھی ملاقات کی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا اپنا نظام انصاف جو بھی ہے جیسا بھی ہے لیکن انصاف کی درجہ بندی کا اختیار انہی کے پاس ہے اور پاکستا ن آخری نمبروں پر براجمان ہے۔ اور ایسا نہیں کہ یہ نمبر سو فیصد زیادتی کے ساتھ جاری کیا گیا ہے، بلکہ ہمارا نظام انصاف کبھی اندرونی طور پر بھی قابل تحسین نہیں سمجھا گیا ۔ ایک طرف اگر نظام انصاف سیاست اور ریاست کے دباؤ میں نظر آتا ہے تو دوسری طرف عدالت کے اندر بھی تقسیم اور جج حضرات کے رجحانات الگ الگ نظر آتے ہیں۔ آئی ایم ایف کا یہ ڈومین تھا یا نہیں اور باقی ممالک کے ساتھ اس ضمن میں اس کا برتاؤ کیا ہے یہ الگ بحث اور بات ہے، لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کے معاملے میں آئی ایم ایف کا یہ ڈومین ہے اور اسی لیے وفد چیف جسٹس سے ملاقات کر کے اپنی تشفی کرنا چاہ رہا ہے۔ چیف جسٹس نے خلاف معمول میڈیا سے گفتگو کی اور تقریباً ساری بات واضح کی۔ بہہہت ممکن ہے وفد مطمئن ہوگیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے وہ مطمئن نہ ہوا ہو۔ یا خود مطمئن ہوگیا ہو لیکن اوپر والوں کو قائل نہ کر سکے۔ چھ اداروں کے ساتھ گفتگو کی کڑیاں آپس میں جوڑی جائیں گی۔ قرض ادا کرنے کی صلاحیت کو بھی دیکھا اور ناپا جائے گا۔ یہی نہیں بلکہ اندرونی اور بیرونی دوسرے قرضوں کا جائزہ بھی لیا جائے گا ۔ جولائی دسمبر 2024 ء کے پاکستانی مالی معاملات کا جائزہ لیا جائے گا پھر آنے والا وفد مطمئن ہوگا اور آخر میں آئی ایم ایف کی ہائی کمان ، پھر فیصلہ ہوگا کہ کیا کیا جائے۔ ایسے میں پاکستان کو اپنے دوست ممالک سے بھی بہہہہت امیدیں ہیں۔
٭٭٭
عدالتوں میں جج حضرات کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے، تبادلے بھی ہو رہے ہیں، نئے جج بھی عدالتوں میں تشریف لارہے ہیں۔ ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ حکومت نے نظام انصاف کو اپنے زیرِ نگیں کر لیا ہے، عدالتیں آزاد نہیں رہیں اور حکومت پر بڑی سرکار کا دست شفقت و کرم ہے۔ اس لیے حکومت چوڑی ہو رہی ہے۔ دوسری جانب دوسرے حضرات کا سمجھنا اور کہنا ہے کہ اصل میں گزشتہ سالوں میں عدالتوں میں اور عدالتی نظام میں قوانین میں اور انتظامی معاملات میں ایسی ایسی مداخلتیں ہوئی ہیں کہ اب ان کو ٹھیک کرنا ایسا لگ رہا ہے جیسے بہت بڑی غلطی کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ اپنے سیاسی نقصان کی وجہ سے شور مچا رہے ہیں اور کچھ لوگ پروپیگنڈے کا شکار ہیں ، کچھ ویسے ہی اپوزیشن میں رہنا خود پہ فرض سمجھتے ہیں۔
٭٭٭
لیبیا اور کشتی الٹنے کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور ہر کشتی میں کسی نہ کسی بلکہ خاصی معقول تعداد میں پاکستانیوں کا شامل ہونا بھی چولی دامن جیسا ہے۔ حکومت نے جن اقدامات کا اعلان کیا اور جن کوششوں کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے اس کے اثرات تو آتے آتے ہی آئیں گے اور اثرات آنے سے پہلے جو لوگ ٹھگ برداری کے ہتھے چڑھ گئے ہیں ان میں سے قسمت سے ہی کوئی بچے گا۔ رہے نئے حکومتی اقدامات تو ہمارے اقدامات اچھے خاصے ہومیو پیتھک ہوتے ہیں۔ اگرچہ بعض ہومیو دوائیں فوری کارگر بھی ہوتی ہیں، ایک خوراک بھی بڑا کام دکھاتی ہیں، لیکن عموماً ہومیو کارکردگی میں خاصا وقت لیتا ہے، اتنا کہ مریض اور متعلقین ہمت ہار جاتے ہیں۔ اب اس بابت ہماری سرکار کی ہومیو کارکردگی کیا رہتی ہے یہ تو ساتھ ساتھ ہی پتا چلے گا۔
٭٭٭
جوں جوں ایک روزہ کرکٹ کا منی ورلڈکپ یعنی چمئنز ٹرافی ایونٹ قریب آرہا ہے۔ تقریباً تمام ہی ٹیموں میں اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے۔ کھلاڑی زخمی ہو رہے ہیں، متبادل کھلاڑیوں کا اعلان کیا جا رہا ہے ، کیا ایسا ہو سکتا ہے ٹیموں نے کچھ ہیرے چھپا کر رکھے ہوں اور ٹرافی کے لیے پہلے سے اعلان شدہ کھلاڑی کو ان فٹ کروا دیں اور چھپے رستم سامنے لائے جائیں، جو مخالف ٹیموں کے لیے قہر بن جائیں ۔ یہ تو پتا نہیں ایسا ہو رہا ہے یا نہیں، لیکن ایسا ہو سکتا ہے۔ اب نیت کا حال تو اللہ میاں جانتے ہیں، متعلقہ کرکٹ بورڈ اور لیے جانے مسترد کیے جانے والے کھلاڑی۔