”شعرة معاویہ”۔ زندگی میں اعتدال کا فلسفہ

حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور اُم المؤمنین اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ بعثت سے پانچ سال قبل پیدا ہوئے۔ حدیبیہ کے بعد عمرہ قضا میں اپنے والد سے پہلے اسلام لائے، اس کا اظہار مگر آٹھ ہجری کو فتح مکہ کے موقع پر کیا۔ آپ یقینی طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین میں سے تھے۔ آپ وحی کی کتابت میں مشغول رہے یا رسائل اور خطوط کی کتابت میں، اس بابت البتہ دونوں رائے پائی جاتی ہیں، لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کتابت چاہے وحی الٰہی کی ہو یا مکتوبات رسول کی، یہ دونوں صورتوں میں آپ کی امانت اور صداقت پر کھلی دلیل ہے۔ اس سے یہ بات بہرحال ثابت ہوتی ہے کہ آپ رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم کے معتمد خاص تھے۔ تعجب ہوتا ہے ان لوگوں پر جو کتابت وحی کو آپ کی تقلیل شان کے لیے زیر بحث لاتے ہیں جبکہ وہ جانتے بھی ہیں کہ محض صحابی ہونا بھی بجائے خود بہت بڑا اعزاز ہے۔ آپ 19 سال اور 3 ماہ تک حکمران اور اس سے قبل 20 سال تک شام کے امیر رہے اور رجب کے مہینے میں 60 ہجری کو تقریباً 80 سال کی عمر میں وفات پائی۔

ان سطور میں ان کے حالات بیان کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ ان کی حکمت ‘شعرة معاویہ’ جو ہمیشہ کے لیے ضرب المثل بن گئی، کی وضاحت اور زندگی کے مختلف مراحل میں اس کی ایمپلیمنٹیشن کے فوائد بیان کرنا مقصد ہے۔ ‘شعرة’ شعر اور شعرات کا مفرد ہے، جس کے معنی بال کے ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ: ”بینہما شعرة معاوِیہ” تو اس کا مطلب ہوتا ہے فلاں دو کے درمیان نہ ٹوٹنے والا ایک مضبوط رشتہ پایا جاتا ہے۔ اس مشہور مثل کا پس منظر یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کسی اعرابی نے سوال کیا کہ: اے امیر المؤمنین! سیاسی عدم استحکام اور ہنگاموں کے باوجود آپ چالیس سال تک حکمرانی کرنے میں کیسے کامیاب ہوگئے؟ آپ نے جواب دیا: ”میں اپنی تلوار وہاں استعمال نہیں کرتا جہاں میری چھڑی کافی ہو اور اپنی چھڑی وہاں استعمال نہیں کرتا جہاں میری زبان کافی ہو۔ اگر میرے اور لوگوں کے درمیان ریشہ برابر نازک تعلق ہو، تو بھی وہ کبھی نہ ٹوٹنے پائے گا۔” اعرابی نے پوچھا: وہ کیسے؟ تو فرمایا: کیونکہ جب وہ اسے کھینچتے ہیں تو میں اسے ڈھیل دے کر چھوڑ دیتا ہوں اور جب وہ چھوڑتے ہیں تو میں اسے قوت سے کھینچ لیتا ہوں۔ (روضة العقلاء و نزہة الفضلائ)
عزم و حوصلہ، لچک اور نرمی کے درمیان توازن پر مبنی یہ حکمت ہمیشہ ایک مثالی قیادت اور سیاسی بصیرت کی علامت رہی ہے، جس نے اپنے اندر مکمل قیادت کے فلسفہ کو سمیٹا ہوا ہے۔ کامیاب قائد وہ ہوتا ہے جو یہ جانتا ہو کہ کب سختی دکھانی ہے اور کب نرمی اختیار کرنی ہے۔ وہ ہمیشہ اس ‘ڈوری’ کو برقرار رکھتا ہے جو اسے اپنے عوام سے جوڑے رکھتی ہے۔ وہ یہ بھی جانتا کہ اگر ایک طرف زیادہ سختی تعلقات کو برباد کر سکتی ہے تو دوسری طرف زیادہ نرمی بھی نظام کو درہم برہم کر سکتی ہے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے کہ لوگ اپنے مزاج، رجحانات اور خیالات میں مختلف ہوتے ہیں، اسی وجہ سے انہوں نے ہمیشہ طاقت اور نرمی کے درمیان توازن قائم رکھا۔ آپ ضرورت کے وقت سختی کرنے کی جرأت بھی دکھاتے تھے اور بات چیت کے لیے فضا سازگار ہونے کی صورت میں نرمی بھی اختیار فرماتے تھے۔ حکمت اور سیاست میں ایک اور پہلو آپ کی سفارتکاری اور مذاکرات کے فن میں مہارت تھی۔ چنانچہ ان کے دور حکومت میں مختلف مشکلات اور تنازعات آئے، مگر آپ نے جس طرح مذاکرت اور افہام و تفہیم کے ذریعے امن اور استحکام برقرار رکھا، وہ آج بھی حکمرانوں کے لیے رہنمائی کا ایک نمونہ ہے۔
حکمت اور توازن کی اہمیت کو اُجاگر کرنے والی مذکورہ کہاوت صرف سیاست و قیادت تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر شخص اپنی ذاتی زندگی میں بھی مختلف جگہوں پر اس کو ایمپلیمنٹ کر سکتا ہے۔ عقلمند وہ ہے جو ”شعرة معاویہ” کے اُصول کو اپنے ہر معاملے میں اپناتا ہے اور کبھی بھی کسی معاملے کو اس حد تک نہیں پہنچنے دیتا کہ وہ تباہی یا مشکلات کا شکار ہوجائے۔ خاص طور پر قریب ترین اور اپنے محبوب لوگوں کے ساتھ تو یہ اُصول اپنانا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ضد اور ہٹ دھرمی اکثر گھروں کو توڑنے اور مشکلات پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ گھر کے سربراہ کے طور پر ایک کامیاب باپ وہ ہوتا ہے جو اپنے خاندان کی رہنمائی اور بچوں کی تربیت میں مذکورہ حکمت سے کام لیتا ہے۔ اسی طرح ازدواجی زندگی میں بھی ”شعرة معاویہ” کا اُصول بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جب شوہر کسی معاملے میں سختی اختیار کرے تو بیوی کو نرمی دکھانی چاہیے اور اگر بیوی سختی کرے تو شوہر کو نرمی اختیار کرنی چاہیے۔ اگر دونوں طرف سے مسلسل سختی دکھائی جائیگی تو مسائل پیدا ہوں گے، دماغی تناؤ بڑھے گا اور یوں خاندان کا شیرازہ بکھر جائے گا۔
”شعرة معاویہ” اعتدال کا دوسرا نام ہے جو اسلام کا امتیازی وصف ہے۔ معاشرتی تعلقات حتی کہ محبت اور نفرت میں بھی مذکورہ پالیسی اپنانے سے بہت سی مشکلات سے بچا جاسکتا ہے۔ عربی کی ایک اور کہاوت ہے کہ ”اتنے نرم مت ہو کہ نچوڑے جاؤ اور اتنے سخت بھی مت ہو کہ ٹوٹ جاؤ” ترمذی اور ابوداؤد کی ایک حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ: اپنے دوست سے اعتدال اور توسط کے ساتھ دوستی رکھو شاید وہ کسی دن تمہارا دشمن ہوجائے اور اپنے دشمن سے اعتدال اور توسط کے ساتھ دشمنی کرو شاید وہ کسی دن تمہارا دوست بن جائے۔ مطلب یہ ہے کہ انتہاپسندی محبت اور نفرت میں بھی مذموم ہے۔ یہ حکمت ہمیں بتاتی ہے کہ تعریفوں میں مبالغہ آرائی انسان کو منافقت کے دلدل میں پھنسا سکتی ہے، بیوقوف کے ساتھ جھگڑنا بندے کو جہالت کی گہرائیوں میں پہنچا سکتا ہے، عقل مند شخص کو پریشان کرنا انسان کو ذلت میں مبتلا کر سکتا ہے اور بپھرے ہوئے شخص سے مذاق اس کے غصہ کو بڑھانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بین الاقوامی سفارتکاری میں بھی جو سفارتکار قومی اور ملکی مفاد کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتا ہے، وہ کبھی ”شعرة معاویہ” کے اُصول کو نہیں توڑتا۔ ایک اُستاد کو بھی اسکول یا مدرسے میں اس فلسفے کی ضرورت ہوتی ہے کہ پڑھنے والے طالب علم کو مزید قریب کرے اور بیزار کے انحراف کو سختی سے روکے۔
خلاصہ یہ کہ سیاسی، معاشرتی، خاندانی اور ذاتی زندگی کے دباؤ، پیچیدگیوں اور مفادات کے باہمی ٹکرا کے وقت ”شعرة معاویہ” کی پالیسی کامیابی کی سب سے محفوظ راہ ہے۔