تمام پاکستانی سیاسی رہنماؤں نے مسئلہ کشمیر کے لیے بے لوث اور دوٹوک عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح سے لے کر شہباز شریف کی موجودہ قیادت تک، کشمیر کے لیے غیر متزلزل محبت اور حمایت کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے لیے پاکستان کی لگن کی عکاسی کرتی ہے۔ مختلف ذرائع سے چاہے سفارتی کوششیں ہوں، بین الاقوامی فورمز ہوں یا عوامی تقریریں، پاکستان کی قیادت نے مسلسل کشمیر کے مقصد کی وکالت کی ہے۔ کشمیر کے لیے قربانیاں، حمایت اور گہرا پیار پاکستان کی شناخت کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے جو پاکستان کے ساتھ ثقافتی، مذہبی اور تاریخی تعلقات رکھنے والے خطے کے ساتھ یکجہتی کی نمائندگی کرتا ہے۔
پاکستان کے رہنماؤں نے ہمیشہ کشمیر کو ایک ایسے مقصد کے طور پر دیکھا ہے جس کے لیے وہ لڑنے مرنے کو تیار ہیں اور کشمیری عوام کے لیے ان کی گہری محبت اور عزم انصاف اور امن کی جاری جدوجہد میں ایک محرک قوت بنی ہوئی ہے۔ پاکستان کے لیے کشمیر محض ایک علاقائی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ قومی اہمیت کا معاملہ ہے جس کی جڑیں خطے کے ساتھ جذباتی، ثقافتی اور مذہبی تعلقات سے جڑی ہیں۔ کئی سالوں سے پاک فوج نے کشمیری عوام کی خود ارادیت کی امنگوں کے محافظ کے طور پر کھڑے ہو کر مسئلہ کشمیر کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کشمیر کے لیے پاکستانی فوج کی قربانیاں، ہمت اور لگن خطے کے لیے اس کے اٹل عزم کا ثبوت ہے۔
1947 ء میں برطانوی ہندوستان کی تقسیم کے بعد جموں و کشمیر کی شاہی ریاست ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازع کا مرکز بن گئی۔ خطے کی مسلم اکثریتی آبادی کے باوجود کشمیر کے مہاراجہ نے ہندوستان میں شامل ہونے کا انتخاب کیا، جس سے ایک شدید جنگ چھڑ گئی۔ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی خواہش پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان نے ہندوستانی افواج کے خلاف مزاحمت میں مقامی آبادی کی مدد کے لیے اپنی افواج کو متحرک کیا۔ اگرچہ ابتدائی طور پر وہ اس میں براہ راست ملوث نہیں تھا، لیکن پاکستان نے کشمیر کی اسٹریٹجک اہمیت کو تسلیم کیا اور قبائلی قوتوں سمیت خیبر پختونخوا اور آزاد جموں و کشمیر کے مجاہدین نے جدوجہد میں شمولیت اختیار کی۔ پاکستانی حکومت نے جلد ہی کشمیریوں کی مدد کے لیے پاکستانی فوج کو تعینات کر دیا اور خطے کے کچھ حصوں کو محفوظ بنانے کے لیے جنگی کارروائیوں میں مصروف ہو گئی۔ پاکستانی افواج نے ابتدائی کامیابیاں حاصل کیں لیکن جنگ 1948ء میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں جنگ بندی کے ساتھ ختم ہوئی۔ پاکستان نے آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا، لیکن کشمیر کی حتمی حیثیت کا بڑا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اس پہلے تنازع کے دوران پاکستانی فوج کی قربانیوں، جس میں ہزاروں فوجی یا تو اپنی جانیں گنوا بیٹھے یا زخمی ہوئے، نے کشمیر میں پاکستان کی مسلسل شمولیت کی بنیاد رکھی۔
1965ئ میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر پر ایک بار پھر کشیدگی بھڑک اٹھی، جس کے نتیجے میں مکمل جنگ ہوئی۔ پاکستانی فوج نے ہندوستانی فوج کی زیادہ تعداد اور زیادہ اسلحے کے باوجود پاکستان کی سرحدوں اور کشمیری آبادی کے دفاع میں قابل ذکر ہمت اور اسٹریٹجک صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ 1965ء کے تنازع کے دوران پاکستان کی فوجی حکمت عملی میں آپریشن جبرالٹر شامل تھا، جس کا مقصد ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر میں کارروائی کرنا اور مقامی آزادی پسندوں کی مدد کرنا تھا۔ پاکستانی فوج نے کشمیری آزادی پسندوں کے ساتھ مل کر کام کیا، ہندوستانی افواج کو انگیج کیا اور جموں و کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کی طرف دھکیل دیا جس کا مقصد کشمیر کو آزاد کرانا اور اس کے لوگوں کو اپنے مستقبل کا تعین کرنے کی اجازت دلانا تھا۔ اس جنگ کے دوران پاکستانی فوج کی قابل ذکر شراکت میں ہندوستانی حملوں کے خلاف زبردست دفاع شامل تھا، جس میں لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں کی جنگیں بھی شامل تھیں۔ پاکستانی افواج نے اپنی زمین پر قبضہ برقرار رکھا اور ہندوستانی فوج کو کافی نقصان پہنچایا۔ فضائی کارروائیوں، زمینی حملوں اور مربوط حملوں میں زبردست مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے پاکستانی فوج نے بے مثال لچک اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ اگرچہ یہ جنگ اقوام متحدہ کی مداخلت کی وجہ سے ختم ہوئی، لیکن اس نے مسئلہ کشمیر کے لیے پاکستان کے عزم کو تقویت بخشی اور 1965ء میں پاکستانی فوج کی قربانیوں نے اس جاری جدوجہد میں ایک اہم باب کی نشاندہی کی۔
1999 ء کے کارگل تنازع نے کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کی فوجی تاریخ میں ایک اور اہم باب کا اضافہ کیا۔ اس تنازعے میں جو ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر کے ضلع کارگل میں پیش آیا، پاکستانی فوجیوں نے کشمیری حریت پسندوں کے ساتھ مل کر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے ساتھ اسٹریٹجک پوزیشنوں کو محفوظ بنانے کے لیے علاقے میں کارروائی کی۔ کارگل تنازعے کو پاکستانی فوج کی بے پناہ ہمت اور قربانیوں کے لیے یاد کیا جاتا ہے، جس نے مشکل اور پہاڑی علاقوں پر بہادری سے جنگ لڑی۔ پاک فوج کے اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) اور دیگر ایلیٹ یونٹوں نے پہاڑی چوکیوں کو محفوظ بنانے اور ہندوستانی افواج کو شدید لڑائی میں انگیج کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ محدود وسائل اور مشکل علاقے کے باوجود پاکستانی فوج نے غیر معمولی مہارت اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ اگرچہ یہ تنازعہ بالآخر ایک مکمل فوجی مشغولیت کی جانب بڑھ گیا، لیکن بین الاقوامی دباؤ جنگ بندی کا باعث بنا۔ اگرچہ جنگ کے نتیجے میں دونوں فریقوں میں سے کسی کی فیصلہ کن فتح نہیں ہوئی، لیکن کارگل تنازع کے دوران پاکستانی فوجیوں کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں، جو کشمیر کی جدوجہد کا ایک اور اہم باب ہے۔ کشمیر پر سب سے شدید اور سفاکانہ تنازعات میں سے ایک میں سینکڑوں فوجیوں نے اپنی جانیں قربان کیں اور بہت سے زخمی ہوئے۔
کارگل تنازع کے نتیجے میں پاکستان کی فوجی قیادت اور حکومت نے کشمیر کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اِس بات پر زور دیا کہ خطے کی حتمی حیثیت کا تعین اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) جو مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کو الگ کرتی ہے، عالمی سطح پر سب سے زیادہ عسکری سرحدوں میں سے ایک ہے۔ پاکستانی فوج ہندوستانی فوجی دراندازی اور توپ خانے کی فائرنگ سے خطے کے دفاع میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستانی فوجی ایل او سی کے ساتھ جھڑپوں میں حتمی قربانی دیتے رہتے ہیں اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے کی علاقائی سالمیت کا دفاع کرتے ہوئے کشمیری عوام کو اخلاقی اور رسد کی حمایت بھی فراہم کرتے ہیں۔ پاک فوج آزاد جموں و کشمیر میں رہنے والوں کی سلامتی کو یقینی بنانے میں سرگرم عمل ہے۔ ان کی موجودگی نہ صرف ہندوستانی اشتعال انگیزی کے خلاف تحفظ فراہم کرتی ہے بلکہ مقامی آبادی کے لیے آفات سے متعلق امداد، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور انسانی امداد میں بھی معاون ہے۔
آزاد کشمیر کے لوگ پورے پاکستان میں آزادانہ طور پر رہنے اور کام کرنے کی مکمل آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں امن و امان کی صورتحال قابل ستائش ہے اور رہائشیوں کو تمام حقوق تک رسائی حاصل ہے۔ اس کے برعکس1947ء سے ہندوستانی سیکورٹی فورسز کو مقبوضہ کشمیر کی آبادی کے خلاف بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان میں خاص طور پر 1980ء کی دہائی کے آخر میں تحریک آزادی کے شدت اختیار کرنے کے بعد سے اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستانی حکومت کو اس کے سخت ہتھکنڈوں کے لیے بار بار تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی متعدد رپورٹوں میں خطے میں ہندوستانی فوج اور نیم فوجی دستوں کی طرف سے کی جانے والی بدسلوکیوں کی تفصیل دی گئی ہے۔
پاکستان اور کشمیر کے عوام کے درمیان گہرا باہمی تعلق ہے، جس میں دونوں علاقوں کے لوگ ایک دوسرے سے گہری محبت اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس عزم کا مظاہرہ پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت نے مسلسل کیا ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر مظفرآباد کے حالیہ دورے کے دوران پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے بھی مسئلہ کشمیر کے لیے پاکستان کی پختہ لگن کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پاکستان کی ”شہ رگ” ہے اور اسے کوئی الگ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان نے کشمیر کے لیے تین جنگیں لڑی ہیں اور ضرورت پڑنے پر مزید دس جنگیں بھی لڑنے کے لیے تیار ہے۔ کشمیری پاکستان کے والہانہ عزم اور حمایت کی دل کی گہرائیوں سے تعریف کرتے ہیں اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہندوستان پر دباؤ ڈالے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مظالم کو بند کرے اور انہیں حق خود ارادیت دے۔