فطری طو رپر ہر شخص ہر جگہ اور ہر کام میں کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ ایسی کامیابی چاہتا ہے کہ اسے تمام غموں، پریشانیوں، مصیبتوں اور ہر قسم کی ٹینشن وغیرہ سے نجات مل جائے۔ مغرب اور مغربی مفکرین نے کامیابی کو صرف دنیاوی کامیابی تک محدود کیا ہوا ہے، ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اب مسلم معاشروں میں بھی کامیابی کا یہی تصور پنپنے لگا ہے۔
ہمارے ہاں کامیابی کا تصور معاشرے میں مروّج روایتی تصور سے قدرے مختلف ہے۔ ہمارے نزدیک کامیابی کا وہی تصور ہے جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، چنانچہ قرآن کی سورة البقرہ کی آیت نمبر 201میں ہے: ”اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی دے۔” گویا دنیا اور آخرت دونوں کی بہتری اور کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔ ا جو شخص صرف دنیاوی کامیابی کے لیے ہی ساری جدوجہد کرتا ہے، اور آخرت کو بالکل بھول جاتا ہے تو اس کے بارے میں بڑی سخت وعید ہے، چنانچہ قرآن کی سورة البقرہ کی آیت نمبر 200میں ہے: ”اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔” ایک تیسرا طبقہ بھی ہے۔ جو اپنی نالائقی، کوتاہی، سستی، کمی، غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے دنیا میں بھی کامیابی حاصل نہیں کرپاتا اور آخرت کے لیے بھی توشہ تیار نہیں کرتا۔ ایسے شخص کے بارے میں قرآن کی سورة الحج کی آیت نمبر 11ہے: ”ایسے شخص نے دنیا بھی کھوئی اور آخرت بھی۔” یعنی دین اور دنیا دونوں میں ناکامی ہوتی ہے، دونوں میں خسارہ ملتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی شخص دنیا میں یا آخرت میں ناکام ہوتا ہے تو اس اس کا ذمہ دار وہ خود ہی ہے۔
خالقِ کائنات نے تو ہر شخص کے لیے کامیابی اور ناکامی کے اصول، ضوابط، قاعدے، فارمولے، اسباب وغیرہ بتادیے ہیں۔کامیابی کا راز اخلاص،توکل علی اللہ، جہد مسلسل، تحقیق اور منصوبہ بندی میں پنہاں ہے۔ اخلاص کی دولت قربانی سے حاصل ہوتی ہے۔ جتنی قربانی زیادہ ہوگی اخلاص اتنا ہی بڑھا ہوا ہوگا۔ قیامت تک آنے والے آخری انسان کی رہنمائی کے لیے دینِ اسلام وہ روشنی اور پیمانہ فراہم کرتا ہے جو اسے راہِ راست پر رکھنے کے لیے کافی بھی اور شافی بھی ہے، چنانچہ وژن مینجمنٹ کے حوالے سے دہائیوں اور صدیوں کی پلاننگ ہو یا فریم ورک اور حکمت عملی کی ترتیب و تیاری۔ دوسری بات یہ ہے کہ نئی چیزوں کی تلاش کا سفر جاری رہنا چاہیے۔ سیکھنے سکھانے کا عمل کبھی ختم نہیں ہونا چاہیے۔ یہی تعلیم ہمارا مذہب بھی دیتا ہے۔ مہد سے لحد تک علم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ حکمت و دانائی کی باتیں مؤمن کی گمشدہ میراث ہے، یہ جہاں سے ملے فوراً لے لو۔ دنیا میں دو قسم کی تکلیفیں ہوتی ہیں۔ ایک ہے سیکھنے سکھانے کی تکلیف۔ دوسری ہے جہالت اور پچھتاوے کی تکلیف۔ جو شخص پہلی قسم کی تکلیف برداشت کرلیتا ہے اسے دوسری تکلیف سے نجات مل جاتی ہے۔ جس طرح جہاں میں مانگنے والوں کے سر اونچے نہیں ہوتے، اسی طرح جاہلوں کے سر بھی اونچے نہیں ہوسکتے۔
یہ اصول ہے جو قوم علم و تحقیق، جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے ہوگی۔ دنیا کی قیادت بھی وہی کرے گی۔ جب ہم مسلمان تحقیق و ریسرچ کیا کرتے تھے تو دنیا پر حکمرانی بھی کیا کرتے تھے۔ آج جو پستی کا شکار ہیں تو اس کی ایک وجہ علم و تحقیق سے دوری ہے۔ یاد کریں وہ وقت جب ہم مسلمان ہر میدان آگے ہوتے تھے۔ گھریلو زندگیوں سے لے کر سرکاری امور تک سب کام منظم ہوا کرتے تھے۔ بڑی سوچ تھی۔ ہم اپنا ”وژن” اور ”ہدف” رکھتے تھے۔ انسانیت کی فلاح و بہبود کے منصوبے تھے، تعمیر و ترقی کے اعلیٰ نمونے تھے، بامقصد زندگی تھی، شاندار اہداف تھے، ہر میدان کے میرکارواں تھے۔ایک طویل عرصہ دنیا پر حکمرانی کرتے رہے اور پھر رفتہ رفتہ ہم نے علم و تحقیق سے منہ موڑنا شروع کردیا۔ ہمیں عیش و عشرت کی لتیں لگ گئیں۔ یہاں تک کہ ہم نے تحقیق و ریسرچ، علم و ہنر کا میدان خالی چھوڑ دیا۔ ہمارے عیاش اور نالائق حکمرانوں نے علوم و فنون اور جنگی مہارت اور جرأت و بہادری کو خیرباد کہہ دیا اور بتدریج پوری قوم لہو و لعب میں لگ گئی، ہم آپس میں ہی دست و گریبان ہوگئے۔ ہماری راتیں رنگین اور صبحیں 12 بجے ہونے لگیں۔ ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست” ہمارا موٹو ہوگیا۔ جب ہمارا مقصدِ زندگی یہ ٹھہرا اور طرزِ زندگی عیاشانہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کے ہاتھوں میں ہماری تقدیر لکھ دی جو نہ ہمارے بچوں پر رحم کرتے تھے اور نہ ہمارے ضعیفوں کی عزت کرتے تھے۔ سلطنتِ عباسیہ، سلطنتِ عثمانیہ، سلطنتِ مغلیہ کے تاج داروں کے آخری لمحات پڑھ لیں رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ آنکھیں کھولنے کے لیے بہادر شاہ ظفر کا یہ مصرع ہی کافی ہے جو انہوں نے اصطبل میں قید کے دوران کہا تھا: ”کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے… دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں۔”