بہت سے لوگ رابطہ کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ پشاور سے افغانستان کا سفر بہت مشکل بنا دیا گیا ہے۔ سرحدی گزرگاہوں پر سرکاری اہلکاروں کا رویہ عوام کے ساتھ انتہائی نامناسب اور توہین آمیز ہوتا ہے۔ بطور خاص طورخم بارڈر پر لوگوں کو خوب ذلیل و خوار کیا جاتا ہے اور جن افراد کے پاس پانچ سو یا ہزار روپے رشوت کے طور پر دینے کے لیے ہوتے ہیں، انہیں فوری طور پر بارڈر کراس کرایا جاتا ہے۔
ان حالات کو قریب سے دیکھنے کے لیے راقم نے گزشتہ ہفتے بذریعہ کار پشاور سے طورخم جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے پشاور سے ایک نئی تعمیر شدہ سڑک کے ذریعے سفر کیا جو شہر کو بائی پاس کرتے ہوئے جاتی ہے۔ راستے میں جاتے ہوئے کوئی خاص چیکنگ نہیں ہوئی اور ہم آسانی سے طورخم بارڈر پہنچ گئے۔ یہاں افغان کرنسی ساتھ لے جانے والے افراد کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ دنیا کے کئی ممالک کے زمینی راستوں سے بارڈر کراس کرنے کا تجربہ ہے، مگر طورخم بارڈر پر جو کچھ دیکھا وہ ایک بھیانک خواب سے کم نہ تھا۔ ایک چھوٹے سے دروازے سے لوگوں کو انٹری دی جا رہی تھی، مگر وہ بھی زیادہ تر بند ہی رکھا جاتا تھا۔ عوام کا بے پناہ ہجوم تھا اور گیٹ پر مامور سرکاری اہلکار وقفے وقفے سے دروازہ کھول کر چند مخصوص اور سفارشی افراد کو اندر جانے دیتے۔ ان اہلکاروں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں جن سے وہ لوگوں کو مارتے بھی دکھائی دیتے تھے۔ سینکڑوں افراد کے لیے ایک تنگ دروازہ تھا جو مکمل طور پر کھولا بھی نہیں جا رہا تھا۔
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی شدید مشقت کے بعد ہمیں تلاشی والے پوائنٹ پر پہنچنے کا موقع ملا۔ وہاں موجود اہلکار نے سب سے پہلے یہ پوچھا کہ کتنے ڈالر ساتھ ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ نو سو ڈالر ہیں، جس پر اس نے تلاشی لینے کی بجائے مجھے ایک سرکاری اہلکار کے پاس بھیج دیا جس کی وردی پر اظہر نام درج تھا۔ اس نے میرے نو سو ڈالر جیب میں ڈال لیے اور کہا کہ پہلے امیگریشن پر ایگزٹ مہر کے ساتھ ڈیکلیئریشن لے کر آؤ۔ میں نے اسے بتایا کہ پاکستان کی حکومت نے زمینی بارڈر کراس کرتے وقت ایک ہزار ڈالر تک لے جانے کی اجازت دی ہوئی ہے، مگر وہ ماننے کو تیار نہ تھا۔
امیگریشن کاؤنٹر پر ایک اور امتحان میرا منتظر تھا۔ وہاں صرف چار کاؤنٹرز فعال تھے، جو سینکڑوں افراد کے لیے ناکافی تھے۔ جب میں پاکستانی امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچا تو اہلکار نے میرا پاسپورٹ دیکھتے ہی سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ میں نے بتایا کہ کابل جا رہا ہوں، وہاں کچھ ملاقاتیں طے ہیں اور میں ایک صحافی ہوں۔ پاسپورٹ پر ازبکستان کا ویزا دیکھ کر امیگریشن اہلکار علی مستان نے کہا کہ میں افغانستان نہیں جا سکتا کیونکہ میرے پاس ازبکستان کا ویزا موجود ہے۔ میں نے وضاحت کی کہ میرے پاس روس، قازقستان اور کرغزستان سمیت چار دیگر ممالک کے ویزے بھی لگے ہیں، لیکن وہ بضد تھا کہ اوپر سے آرڈر ہے کہ ازبکستان کا ویزا رکھنے والوں کو افغانستان جانے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ کچھ لوگ اس روٹ کو ڈنکی (غیر قانونی ہجرت) کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس نے میرا پاسپورٹ واپس کرتے ہوئے بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ جو کرنا ہے کر لو۔
میں نے مجبور ہو کر وہاں موجود ایک دوسرے ادارے کے سینئر افسر سے رابطہ کیا اور اپنی صحافیانہ شناخت ظاہر کی۔ اس نے بہت اچھا تعاون کیا اور میری ایگزٹ مہر لگوا دی۔ اس کے بعد میں دوبارہ اس اہلکار کے پاس پہنچا جس نے میرے ڈالر رکھ لیے تھے۔ افسر کے دباؤ پر اس نے وہ رقم مجھے واپس کر دی۔ میں نے اس افسر کا شکریہ ادا کیا اور بالآخر سرحد پار کر کے افغانستان میں داخل ہو گیا۔
افغانستان کی طرف حالات بالکل نارمل تھے۔ مشین کے ذریعے مختصر تلاشی لی گئی اور امیگریشن کاؤنٹر پر موجود افغان اہلکار نے ویزا دیکھ کر بغیر کسی سوال کے مہر لگا دی۔ آگے پولیو ویکسین کا عملہ موجود تھا، جہاں ویکسین کارڈ حاصل کر کے ہم کابل جانے والے اڈے کی طرف روانہ ہوئے۔
کابل جانے والی سڑک سنگل تھی مگر مکمل بنی ہوئی تھی۔ راستے میں جگہ جگہ افغانی مالٹوں اور کینو کے اسٹال سڑک کے دونوں جانب لگے ہوئے تھے۔ ٹریفک بہت زیادہ تھی کیونکہ جمعرات کا دن تھا اور افغانستان میں جمعے کو سرکاری چھٹی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے لوگ گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ ٹریفک کے اس رش کی بنا پر چار گھنٹے کا سفر چھ گھنٹے میں طے ہوا۔ یہاں سے مرکزی شاہراہ کے دونوں جانب پہاڑوں اور کھیتوں کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم افغانستان کے دار الحکومت اور تاریخی شہر کابل پہنچ گئے۔
ہم کابل کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ یہ وہ کابل نہیں تھا جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے زیرِ تسلط تھا، بلکہ ایک آزاد اور پرامن کابل تھا، جہاں قدم قدم پر ناکے، تلاشیاں اور چوکیاں قائم تھیں۔ ہم جب کابل پہنچے تو مغرب کا وقت گزر چکا تھا، مگر شہر کی روشنیاں یہ بتا رہی تھیں کہ کابل اب رات کو بھی جاگتا ہے۔ ہر داخلی راستے پر طالبان حکومت کے سیکورٹی اہلکار موجود تھے جو گاڑیوں کو چیک کر رہے تھے۔
پاکستان سے روانہ ہونے سے قبل میں نے افغان حکومت کی خبریں فراہم کرنے والے واٹس ایپ گروپ کے ایڈمن استاد فریدون سے بات کی تھی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ عمرے کے سفر پر ہیں اور کابل میں موجود عثمان سے رابطہ کریں۔ میں نے پاکستان سے ہی عثمان صاحب سے بھی بات کر لی تھی، مگر جب کابل پہنچ کر دوبارہ ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو کوئی جواب نہیں ملا۔
افغانستان میں سب سے بڑا مسئلہ موبائل سم کا ہے۔ افغان حکومت نے تمام نئی سموں کے اجرا پر پابندی لگا دی ہے۔ ایک مقامی دوست نے بتایا کہ امارتِ اسلامی نے موبائل کمپنیوں کو تمام سم کارڈز رجسٹرڈ کرنے کے لیے چھ ماہ کا وقت دیا تھا، مگر کمپنیوں نے اس پر عمل نہیں کیا، جس کی وجہ سے حکومت نے نئی سموں پر تا حکمِ ثانی پابندی لگا دی ہے۔ یہ اقدام سیکورٹی کے حوالے سے اہم ہے اور مستقبل میں مزید امن قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ خیر کابل پہنچنے کے بعد میں نے وائی فائی کے ذریعے عثمان سے دوبارہ رابطہ کیا اور اپنی لوکیشن شیئر کی، مگر تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
(جاری ہے)