ہفتے کے روز 8فروری 2023ء کے عام انتخابات کو ایک سال مکمل ہونے پر ایک جانب حکومت کی جانب سے ملک کو دوبارہ ترقی واستحکام کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے دعوے کیے جارہے ہیں اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر جہازی سائز کے اشتہارات کے ذریعے ایک برس کے دوران حکومت کو حاصل ہونے والی کامیابیوں کی تشہیر کی جارہی ہے اور وفاقی و صوبائی وزراء پریس کانفرنس اور مختلف اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے حکومتی کار کردگی کے نمایاں خط و خال بیان کر رہے ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی کی جانب سے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے اور الزام عائد کیا جارہا ہے کہ حکومت ملک میں قانون کی حکمرانی کے قیام میں ناکام ہوچکی ہے اور یہ کہ اس حکومت کو عوام کی اکثریت کی حمایت ہی حاصل نہیں ہے۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ 8فروری کے عام انتخابات بھی گزشتہ کئی انتخابات کی طرح دھاندلی اور عدم شفافیت کے داغ سے محفوظ نہ رہ سکے۔آج ایک برس گزرجانے کے بعد بھی مختلف آزاد اور غیر جانب دار اداروں کی رپورٹیں میڈیا میں شائع اور نشر ہوئی ہیں جن میں ملک بھر میں بڑے پیمانے پر انتخابی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔پھر ان انتخابات کے نتیجے میں ایک ایسا منقسم مینڈیٹ سامنے آیا جس میں کسی ایک پارٹی کو سادہ اکثریت حاصل نہیں تھی،نتیجتاً کئی سیاسی جماعتوں کی ایک اتحادی حکومت تشکیل دی گئی جس کی سیاسی طاقت بہر حال بیساکھیوں پر قائم ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے مبصرین نے اس حکومت کے مستقبل پر اس کے قیام کے وقت ہی سوالات اٹھائے تھے اور اس وقت بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا یہ حکومت اپنی آئینی مدت مکمل کرسکے گی؟تاہم بایں ہمہ اگر دیکھا جائے تو گزشتہ ایک برس کے دوران اس حکومت کی مجموعی کار کردگی اگر بہت اچھی نہیں ہے تو بہت ناقص بھی نہیں ہے۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ جب مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں نے انتخابات کے بعد دوبارہ اقتدار سنبھالا تو اس وقت ملکی معیشت سخت بحرانوں کا شکار تھی۔زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے،مہنگائی روزانہ بنیادوں پر بڑھ رہی تھی،اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار زبردست مندی کا شکار تھااور ایک طرح سے معاشی غدر کی سی صورت حال تھی۔میاں شہباز شریف کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو خوش قسمتی سے اسے کچھ داخلی و خارجی عوامل نے سنبھلنے کا موقع دیا۔مثلا عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی،آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کا معاہہ طے پاگیا جس سے حکومت کے لیے بین الاقوامی قرضوں کا حصول آسان ہوگیا،ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لیے فوجی قیادت کی خصوصی دل چسپی سے قائم اتھارٹی کی کوششوں سے کئی ممالک سے سرمایہ کاری کے معاہدے طے پاگئے، اس کے مثبت اثرات ملک کے میکرو اکنامکس کے اشاریوں پر پڑنے لگے اور اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار اپنے عروج پر پہنچ گیا۔مہنگائی کسی حد تک تھم گئی اور چھوٹے کاروباری افراد کا حوصلہ بڑھا۔
اس سلسلے میں اگر حکومتی اعدادوشمار پر بھروسا کیا جاسکے تو ملک میں معاشی بحالی کی کئی علامات ظاہر ہیں۔ مثلاًملک کا تجارتی خسارہ قابو میں آچکا ہے اور جاری کھاتہ گزشتہ کئی ماہ سے سرپلس چل رہا ہے۔ ایک سال کے دوران ملکی برآمدات ستائیس ارب ڈالرز سے بڑھ کر بتیس ارب ڈالرز تک پہنچ گئی ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائرنو ارب ڈالرز سے بڑھ کر پندرہ ارب ڈالرز کے قریب تک پہنچ چکے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کی جانب سے مخالفانہ مہم کے باوجود بیرونی ترسیلات زر میں تینتیس فی صد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔پاکستان کی معاشی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری آئی ہے اور بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ سی اے اے ٹو کردی ہے۔ فچ نے بھی معیشت میں بہتری کی نشاندہی کی ہے۔ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں پچھتر فی صد تک کااضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے توانائی کے شعبے میں آئی پی پیز کے ساتھ مثبت سمجھوتا کیا جس سے حکومتی دعوے کے مطابق 238ارب روپے کی خطیر بچت ہوئی۔حکومت کی کوششوں سے یورپی ممالک میں پی آئی اے پر عائد پابندیاں اٹھالی گئیں جس کے بعد قومی ائیر لائن کی بحالی کی امید پیدا ہوچلی ہے۔
یہ تصویر کا ایک رخ ہے جس میں حکومت کی معاشی کارکردگی کے مثبت اور قابل تعریف پہلو اجاگر ہوتے ہیں جبکہ عوامی نقطۂ نظر سے اگر دیکھا جائے تو کسی بھی حکومت کی کار کردگی کا بیرومیٹر مہنگائی کی حقیقی صورت حال ہوتی ہے۔اس پہلو سے یہ امر قابل توجہ ہے کہ حکومتی اعدو شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح چالیس فی صد سے کم ہوکر سنگل ڈجٹ میں آچکی ہے۔ یقینا حکومت کے مہنگائی ماپنے کے پیمانے درست ہی ہوں گے مگر برسرزمین صورت حال یہ ہے کہ ملک میں بیشتر ضروریات زندگی کی قیمتیں آج بھی اسی سطح پر ہیں جہاں مہنگائی کی شرح چالیس فی صد ہونے پر تھیں۔مثلاً کراچی میں روٹی کی قیمت آج بھی بیس روپے وصول کی جارہی ہے۔دالیں،چاول، چینی،گھی اور تیل وغیرہ کی قیمتوں میں اگر کچھ کمی ہوئی بھی تھی تو رمضان کی آمد سے پہلے دوبارہ ان کے نرخ بڑھنے لگے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے آج بھی وہی ہیں جو پٹرول کی قیمت تین سو روپے سے اوپر ہونے پر عوام سے وصول کیے جارہے تھے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ میکرو سطح پر معیشت میں اگر بہتری آئی بھی ہے تو اس کا براہ راست فائدہ عوام کو بہت کم ہی پہنچ پارہا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو اب اس پر توجہ دینی چاہیے اور اشیاء صرف کی قیمتوں میں معقول کمی لانے کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔
حکومتی کار کردگی کا ایک اور کمزور اور قابل توجہ پہلو ملک مین امن و امان کی تشویش ناک صورتحال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کو امن و امان کے حوالے سے زبردست چیلنجوں کا سامنا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں اور ہمارے سکیورٹی ادارے دہشت گردی پر قابو نہیں پاسکے ہیں۔خیبر پختونخوا میں تو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو دوش دیا جاسکتا ہے تاہم بلوچستان میں وفاق کی اتحادی جماعتوں کی حکومت قائم ہے۔اس کے باوجود خود صوبائی وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق صوبے میں صرف جنوری کے مہینے میں پانچ سو سے زائد حملے ہوئے ہیں۔یہ نہایت فکر مندی کی بات ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ وفاقی حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کو ملک بھر میں بالعموم اور کے پی اور بلوچستان میں بالخصوص امن و امان کے مسئلے پر توجہ دینی چاہیے۔