عمر ایوب نے شکوہ کیا ہے کہ پاکستان میں آئین پر عمل نہیں ہو رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے لیے آئین 10 اپریل 2022 کے بعد معرض وجود میں آیا۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے اپنے دور میں صحافت پابند سلاسل، سوشل میڈیا اور میڈیا پر قابو پانے کے سو سو ٹوٹکے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، قانون کی عملداری جبکہ لاپتہ افراد ریاست کے باغی اور ہزارہ لاشیں بلیک میلر قرار پائیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت میں اشتراک کے سنہرے دن، ہائبرڈ دور کی چاندنی راتیں اور جی ایچ کیو کی پرلطف قربتوں کی باتیں، سب آئین کی پاسداری تھا۔
یہی وہ دن تھے جب آئی ایم ایف نجات دہندہ، سکون صرف قبر میں، انڈا، مرغی اور کٹے معاشی پروگرام، خمار بارہ بنکوی کے بقول
دوسروں پر اگر تبصرہ کیجئے
سامنے آئینہ رکھ لیا کیجئے
تحریک انصاف نے اقتدار سے محرومی پرعسکری قیادت کی جگہ عدالتی محاذ کا رخ کرلیا، کبھی ہیرو جنرل فیض اور نجات دہندہ جنرل باجوہ تھے۔ ہوا کارخ بدلا تو چاہا کہ میرا آئین، میری مرضی کا جھنڈا گاڑا جائے۔
پاکستان میں آئین شکنی کی تاریخ بہت پرانی ہے
آئینہ دیکھیں تو چہرے نظر آتے ہیں کئی
ویسے جناب عمر ایوب خان کی زبان پر آئین کی بالادستی کی بات بہت بھلی لگتی ہے!آئین شکنی کی تاریک ترین روایت عمر ایوب کے دادا جان کی ہے۔ پہلی آئین شکنی 1958میں صدر میجر جنرل سکندر مرزا اور ایوب خان کی ملی بھگت کا نتیجہ تھی۔ اسکندر مرزا نے وزیر اعظم ملک فیروز خان نون کو بزورہٹا کر 1956کے پہلے آئین کو منسوخ کردیا۔ سکندر مرزا نے جس ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا، کچھ ہی دن بعد انھوں نے سکندر مرزا سے زبردستی استعفا لے کر انہیں ملک بدر کیا اور دوسری بار آئین سے کھلواڑ کی۔ خود کو صدر اور فیلڈ مارشل مقرر کر دیا۔ گیارہ سال (1958۔ 69 ) تک ملک کے اقتدار پر قابض رہے۔ اس دوران 1964میں ڈھونگ صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کو ہروایا۔ فیلڈ مارشل ووٹ کے حق کو شاید انسانی حقوق کیلئے سم قاتل سمجھتے تھے، اس لیے ان کے دور میں ووٹ کا حق صرف ایک لاکھ 20ہزار ”دانش مند” بی ڈی ممبرز کو تھا، جو دس کروڑ عوام کا یہ حق استعمال کرتے تھے۔
کاش عمر ایوب اپنے داداجان کے دور کا یہ واقعہ بھی پڑھ لیتے جب ایوب خان نے وزیرخارجہ منظور قادر سے استعفا لے کر انہیں چیف جسٹس بنایا۔ پھر انہی ایوب خان نے اپنے بنائے ہوئے ہوئے آئین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو مارچ 1969میں اقتدار سونپا۔ اسی دور میں پاکستان دولخت ہوااور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عمر ایوب کے دادا نے بار بار آئین شکنی کی
تبصرے غیر کے کردار پہ کرنے والے
کیا تیری خود سے ملاقات نہیں ہوتی
عمرایوب تو ہوں گے ہی ،ان کے لیڈر اور ملک میں جمہوریت اور رول آف لا کے پرچارک عمران خان بھی جنرل ایوب کے مداح ہیں،جیساکہ وہ جنرل ضیاء الحق کے بھی مداح رہے ہیں اور جیساکہ انہوں نے ایک زمانے میں جنرل پرویز مشرف کی بھی حمایت کی تھی اور نام نہاد ریفرنڈم میں ان کے پولنگ ایجنٹ بھی بنے تھے۔یاد رہے کہ جنرل ضیاء الحق (1977۔ 1988) نے سویلین حکومت کا تختہ الٹا، پارلیمنٹ توڑی اور 90دن میں انتخابات کروانے کا وعدہ 11 سال پر محیط ہوگیا اور 1988میں طیارہ ہوا میں پھٹنے پر اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ایسے مقدمے میں تختہ دار پر لٹکایا جسے نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ حال ہی میں عدلیہ نے بھٹو کیس کی نظرثانی کے مقدمے میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ 12اکتوبر 1999ء کو فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے آئین شکنی کی۔ وزیر اعظم کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے اپنے آئینی اختیارات کے تحت جنرل کو ہٹا کر نیا آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ 3 نومبر 2007کو مشرف نے دوبارہ ایمرجنسی نافذ کی اور آئین معطل کیا۔
فوجی طالع آزماؤں نے آئین کی طرح عدلیہ کو بازیچہ اطفال بنائے رکھا۔ خود عدلیہ نے اپنی آزادی اور خودمختاری کا سودا کرتے ہوئے نظریہ ضرورت وضع کیا۔ اس کو مختلف مواقع پر عدالت عظمی نے فوجی آمروں کے غیر آئینی اقدامات کو جواز بخشنے کے لیے استعمال کیا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے قومی اسمبلی تحلیل کی، تو اسپیکر قومی اسمبلی مولوی تمیز الدین عدالت گئے۔ چیف جسٹس منیر احمد نے نظریہ ضرورت کے تحت اسمبلی کی تحلیل کو قانونی قراردیا۔ 1958ء میں ایوب خان نے آئین معطل کر کے مارشل لا نافذ کیاتو چیف جسٹس منیر احمد نے دوبارہ نظریہ ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے مارشل لا کو جائز قرار دیا۔ 1969ء میں جنرل یحییٰ خان نے آئین معطل کر کے مارشل لا نافذ کیا تو عدالت عظمیٰ نے مارشل لا کو غیر آئینی قرار دیا لیکن نظریہ ضرورت کے تحت ان کے اقدامات کو درست قرار دیا، 1977 میں بھی جب جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا نافذ کیا تو ضیاء الحق کے مارشل لا کو نظریہ ضرورت کی چھتری فراہم کی، چیف جسٹس انوار الحق نے ضیاء الحق کی فوجی حکومت کو جائز قرار دیا اور کہا کہ ملک کو انارکی اور بحران سے بچانے کے لیے ضیاء کا اقدام ضروری تھا۔ 1999میں پرویز مشرف کی آئین شکنی کو چیلنج کیا گیا تو چیف جسٹس ارشاد حسن خاں نے نہ صرف اسے جائز قرار دیا بلکہ مشرف کو تین سال تک حکومت کرنے اور آئین میں ترامیم کا اختیار بھی دے دیا۔
یہ وہ صورتحال ہے جس پر کہا جاسکتا ہے کہ ”اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔” عمر ایوب کے دادا ”حقیقی آزادی” کے مجاہد اول تھے، جس کے تحفظ کیلئے انہوں نے سیٹو سینٹو کے مورچے بنوائے اور امریکا کو اڈے دیے تھے۔ ان اڈوں نے برس ہا برس ”حقیقی آزادی” کو تحفظ دیے رکھا لیکن بالآخر ”حقیقی آزادی” کا یہ قلعہ روس کی دھمکی پر برقرار نہ رہ سکا۔ ”فرینڈز ناٹ ماسٹر” ان کی کتاب کا عنوان ہے، اس کا اردو ترجمہ عمران خان نے ”ایبسو لیوٹلی ناٹ” کے عنوان سے کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ کبھی منصف راہیں تک رہے تھے۔ تریسٹھ اے کی تشریح سے لے کر انتخابات کرانے کے از خود نوٹس تک سراپا داستان تھے۔ شہ دماغوں یعنی ثاقب نثاروں، آصف کھوسوں اور عمر بندیالوں کی ایک پوری کھیپ تھی جنہوں نے 2017سے ”آئین سازی” کا عمل شروع کیا۔ یہ عمل جاری رہتا مگر عمر بندیال کی ریٹائرمنٹ کا سانحہ ہوگیا۔
عمران نے ایوب خان کے نقش قدم پر چلنے کا جو منصوبہ جنرل فیض سے مل کر دس سالہ صدارتی نظام کا بنایا تھا، اس میں دس سالہ مدت پوری ہونے سے پہلے تاحیات توسیع ہونی تھی۔ افسوس یہ منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ خان نے بھی ”حقیقی آزادی” کے تحفظ کیلئے امریکا ہی کا سہارا لیا۔ امریکی سینیٹرز اور ارکان کانگریس سے ٹویٹ کرائے۔ اس کے باوجود فتح و نصرت کی منزل ان سے دور سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
آئین شکنی کے ان تاریخی واقعات کے تناظر میں عمر ایوب کو کیا یہ زیب دیتا ہے کہ وہ آئین شکنی کے دوسروں کو طعنے دیں۔ مزید المیہ یہ ہوا کہ آئین سازی کے تھنک ٹینک فیض بھی حوالہ زندان ہو گئے۔ حکومت، عدلیہ، پارلیمنٹ اور افواج سمیت ہر ادارے کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قوم کی سلامتی اور ترقی کا انحصار عدالتی نظام کی آزادی اور غیر جانبداری پر ہے، اب بھی وقت ہے کہ سب اپنی اپنی سہولت کے آئین سے باہر نکل کر آئین پاکستان کی اصل روح پر عمل کریں اور اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔
سب کو ملزم تو نے ٹھہرایا عبث