امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے دوسرے دور صدارت میں بھی اسرائیل کے توسیعی منصوبے کو آگے بڑھانے کو مقدم رکھا گیا ہے۔
گزشتہ دور میں دسمبر 2017ء میں ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قراردے دیا تھا جس کی بنیاد پر امریکا نے مئی 2018ء میں اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کردیا تھا۔ مارچ 2019ء میں ٹرمپ نے گولان ہائٹس پر اسرائیلی خودمختاری اور قبضے کو قانونی تسلیم کیا۔ 2020ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے داماد جیراڈ کشنر کے ذریعے صفقہ القرن (ڈیل آف دی سنچری) نامی بدنام زمانہ منصوبہ پیش کیا۔ 28 جنوری 2019ء کو نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کیا تھا۔ اس موقع پر اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ فلسطینی ریاست اسلحے سے خالی ہوگی اور مقاومت کے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہوگا۔ ڈیل آف دی سنچری میں فلسطینی ریاست کے نام پر اسرائیلی توسیعی منصوبے کو تحفظ دیا گیا تھا۔
اس منصوبے میں بیت المقدس کی بجائے ابودیس نامی فلسطینی بستی کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کی تجویز دی گئی تھی جبکہ غزہ کے فلسطینیوں کو مصر کے صحرائے سینا میں بسانے کی تجویز شامل تھی جس کے باعث مصر اور اُردن نے اس منصوبے کو مسترد کردیا تھا۔ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے کہاتھا کہ بیت المقدس برائے فروخت نہیں ہے اور اس حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ یکم فروری 2020ء کو عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈیل آف دی سنچری نامی منصوبے کو کلی طور پر مسترد کردیا تھا۔
اب پانچ برس بعد دوبارہ صدارتی حلف اٹھاتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے حق میں سرگرم ہوگئے ہیں۔ اس مرتبہ امریکی صدر نے غزہ کے باشندوں کو بے دخل کرکے مصر اور اُردن میں بسانے کی تجویز دی ہے۔ ٹرمپ نے غزہ کی امریکی سرپرستی میں تعمیر نو اور بعدازاں اس پر مکمل امریکی قبضے کی تجویز دی ہے،جبکہ مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضہ ہوگا۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کرکے اسے مشرق وسطی کا ’ریفیرا‘ بنادیں گے۔ خیال رہے کہ ریفیرا ایک اصطلاح ہے جو کسی لگژری ساحلی پٹی کے لئے مستعمل ہے۔ فرانس کے جنوبی ساحل پر بلند وبالا تعمیرات اور لگژری ریزورٹ کو فرانس کا ریفیرا کا نام دیا گیا تھا۔ جس کے بعد اسی طرز تعمیر کی مقبولیت بڑھی تو دیگر ممالک نے بھی اس طرز پر ریزورٹس قائم کیے۔ ایسے ممالک میں ترکیہ ،اٹلی اور امریکا شامل ہیں جہاں ریفیرا قائم ہے۔ امریکی صدر نے اب یہی تصور غزہ کے چارے میں پیش کردیا ہے۔
عرب جریدے کے مطابق ٹرمپ نے دونوں منصوبے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کی موجودگی میں پیش کئے ہیں، جس سے کھلے طور پر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ دونوں منصوبے اسرائیلی خواہش اور دیرینہ یہودی رغبت ودلچسپی کے مظہر ہیں۔ تجزیہ کاروں اور ماہرین کے مطابق دونوں منصوبے ایک ہی ہیں۔ دونوں کے درمیان زیادہ فرق نہیں ہے، تاہم دوسرا منصوبہ پہلے سے اس طرح خطرناک ہے کہ اس میں فلسطینیوں کی نسلی تطہیر و صفائی (ایتھنک کلینز نگ) شامل ہے، جبکہ غزہ کی پٹی پر امریکی قبضے کے ٹرمپ کا خواب بھی اس میں شامل کیا گیا ہے۔ٹرمپ کے اس حالیہ منصوبے کی شدید مخالفت کی گئی ہے۔
فلسطینی تحریک الفتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن اور سابق وزیر اعظم محمد اشتیہ نے کہاہے کہ فلسطینی قوم ٹرمپ کے کرایہ دار نہیں ہیں کہ وہ جیسے چاہے ہمیں نکال دیں۔ ہم زمین کے مالک ہیں۔ فلسطینی اراضی کوئی برائے فروخت پراپرٹی نہیں ہے کہ جسے بیچا جائے۔ یہ ہمارا مادر وطن ہے۔ ہماری مٹی ہے، ہماری شناخت اور پہچان ہے۔ عرب ممالک نے اس مرتبہ بیک آواز ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کردیا ہے۔ گزشتہ دنوں سعودی عرب نے ایک مرتبہ پھر اپنی شرط دُہراتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک فلسطینی ریاست کا قیام فلسطینی اراضی پر عمل میں نہیں آتا سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتا۔
نیتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے بعد اسرائیلی چینل کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے جگہ کے سوال پر طنز کرتے ہوئے بتایا کہ فلسطینی ریاست سعودی عرب میں بنالی جائے، سعودی عرب کے پاس بڑی اراضی ہے۔ تجزیہ کاروں نے اسرائیلی وزیراعظم کے اس طنز کو بہت معنی خیز قرار دیا ہے اور کہاہے کہ یہ نہ صرف ایک طنز ہے بلکہ یہ اسرائیلی عزائم کی ایک جھلک ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب کے بااثر شہزادے ترکی الفیصل کا بھی امریکی چینل کو انٹرویو سامنے آیا ہے۔ سعودیہ کے سابق انٹیلی جنس چیف نے غزہ سے بے دخلی کا بیان ناقابل ہضم قراردے دیا ہے۔ امریکا میں سعودی عرب کے سابق سفیر اور بااثر سعودی شہزادہ ترکی الفیصل نے امریکی چینل سی این این کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ فلسطین میں بدامنی کا مسئلہ فلسطینی نہیں ہیں بلکہ اسرائیلی قبضہ ہی مشکلات کی وجہ ہے۔ ٹرمپ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے شہزادے نے بتایا کہ یہ بیان ناقابل ہضم ہے۔ ٹرمپ سعودی دورے پر آئیں گے تو سعودی عرب کی قیادت ان کی اس تجویز کی ہولناکی کے بارے انہیں آگاہ کردے گی۔
خیال رہے کہ ترکی الفیصل عالمی سطح پر پیس ایڈوکیٹس (امن کے علمبردار) میں سے ایک ہیں اور وہ امن کی بات کرتے ہیں۔ جس کے باعث امریکا اور اسرائیل ان سے بڑی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں کردار ادا کریں گے، لیکن مرحوم سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے یہ دلیر صاحب زادے اپنے اصلی موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنا گورا نہیں کرتے۔
ان کی عادت سفید رومال کا عقال باندھنے کی ہے، لیکن سی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران شہزادہ ترکی الفیصل نے روایتی فلسطینی رومال (الکوفیہ) کا عقال باندھا ہوا تھا، جو فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا بہترین اظہار تھا۔ 1945ء میں پیدا ہونے والے شہزادہ ترکی الفیصل شاہ فیصل کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں۔ وہ 1977ء تا 2001ء تک سعودی عرب کے انٹیلی جنس چیف تھے۔ بعدازاں انہیں شاہ فہد کے زمانے میں برطانیہ میں سفیر تعینات کیا گیا۔ شاہ عبداللہ بن عبد العزیز آل سعود کے دور میں انہیں امریکا میں سعودی عرب کا سفیر تعینات کیا گیا۔ اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ ترکی الفیصل کے بیان کو سعودی عرب کی اعلیٰ قیادت کی رضامندی حاصل ہے۔