تجارتی خسارہ اور برآمدات (ابراہیم خلیل)

پاکستان بیورو شماریات نے 3فروری کو تجارتِ خارجہ کے تحت درآمدات اور برآمدات کے اعداد وشمار پیش کردیے ہیں۔ ہماری بیرونی تجارت ہمیشہ سے ہی سوائے ابتدائی چند سالوں کے، عدم توازن کا شکار رہی ہے اور نتیجے میں ملک کو اچھا خاصا تجارتی خسارہ برداشت کرنا پڑتا رہا ہے۔

موجودہ مالی سال کے دوران یعنی جولائی تا جنوری یہ کل 7ماہ بنتے ہیں، پاکستان کا تجارتی خسارہ 13ارب 48کروڑ 30لاکھ ڈالرز رہا، جبکہ گزشتہ مالی سال کی اِسی مدت کے دوران تجارتی خسارہ 13ارب 11کروڑ 60لاکھ ڈالرز تھا۔ گویا کہ ہمارے تجارتی خسارے میں 2.84فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تجارتی خسارے میں کمی اس وقت ہوتی ہے جب برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوتا اور حکومتی تجارتی و عمومی معاشی پالیسی کے باعث درآمدات کا حجم زیادہ رہتا ہے۔ حکومت کی چاہے کسی بھی قسم کی پالیسی ہو اور کسی شعبے میں جاکر مطالعہ کریں، آپ کو نظر آئے گا کہ برآمدات میں اضافے کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی موجود نہیں ہے۔کہنے کو تو ہم زرعی ملک ہیں جہاں کی 70 فیصد آبادی کھیت کھلیانوں میں محنت کر رہی ہوتی ہے اس کے باوجود اور گندم کی بمپر پیداوار آنے کے باوجود گندم باہر سے درآمد کی جا رہی ہے۔ ملک میں کروڑوں ٹن گنا پیدا ہو تا ہے، لیکن کئی سال ایسے بھی گزرے جب چینی درآمد کی گئی۔ دالوں کے کیا کہنے، 13سے 15لاکھ ٹن میٹرک ٹن دالوں کی درآمد معمول کی بات ہے۔ہم دنیا کو مشینری اور ٹیکنالوجی تو برآمد کرنے سے رہے،زیادہ تر زرعی پیداوار اور خام مال برآمد کرتے ہیں،اس میں بھی ہمارا حال وہ ہے جو اوپر بیان ہوا۔

اب ہم گزشتہ ماہ جس کا اختتام بروز جمعہ ہوا تھا’ کی بات کرتے ہیں۔ ماہ جنوری 2025ء کو پاکستان کا تجارتی خسارہ 2ارب 31کروڑ 30لاکھ ڈالر رہا اور گزشتہ مالی سال کے جنوری 2024ء میں تجارتی خسارہ ایک ارب 96کروڑ 40لاکھ ڈالر کے باعث 17.23فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ اس طرح جنوری 2024ء کے دوران درآمدات کی بابت کارکردگی کچھ اچھی رہی۔ یہاں پر جنوری 2025ء اور جنوری 2024ء کی اعداد وشمار ظاہر کرنا ضروری ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنوری 2025ء کے دوران کل درآمدات 5ارب 23کروڑ 30لاکھ ڈالر رہیں اور جنوری 2024ء میں یہ مالیت 4ارب 75کروڑ 60لاکھ ڈالر تھی۔ گویا درآمدات میں 10.04فیصد اضافہ ہوا۔ کل 48کروڑ ڈالرز کی درآمدات گزشتہ برس کم ہوئی تھی۔ اس رواں مالی سال جنوری کے مقابلے میں جنوری 2024ء میں اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً نصف ارب ڈالرز کی بچت یا کم درآمدات ہوئی تھیں جس کے مثبت اثرات معیشت پر مرتب ہوئے لیکن اس مرتبہ ایک بار پھر درآمدات میں اضافے کا تسلسل پھر برقرار رہنے کے باعث اب تجارتی خسارے میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔

اس کے مقابلے میںبرآمدات میں اضافے کے اعدادوشمار کو بھی جانچا جائے تو صورت حال واضح ہوگی۔ مثلاً جنوری 2025ء کی کل برآمدات 2ارب 92کروڑ ڈالر اور دسمبر 2024ء میں کل برآمدات 2ارب 91کروڑ 10لاکھ ڈالر تھیں۔ یعنی پورے سال میں ہماری برآمدات میں صرف 0.31فیصد کا ناقابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ یعنی معاملہ جوں کا توں ہے۔ درآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن برآمدات کے ٹس سے مس نہ ہونے کے باعث اب یہ دونوں مدیں یعنی درآمدات اور پھر بالآخر تجارتی خسارہ، یہ دونوں مل کر پاکستان کی معیشت کو اچھا خاصا نقصان پہنچانے کے درپے ہو چکے ہیں۔ حکومت نے کچھ عرصہ قبل مختلف ممالک کے سفیروں سے گفت وشنید بھی کی تھی۔ اس میں اہم معاملہ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ساتھ تجارت خارجہ کا بھی رہا ہے۔ مختلف ماہرین تجارت کہتے رہے ہیں کہ ‘افریقہ کی طرف دیکھو’ کی پالیسی اپنائی جائے۔ اسی طرح مشرق بعید کے ممالک کے ساتھ بھی ہماری تجارت کمزوری کا شکار ہے، لہٰذا اس جانب توجہ دی جائے۔ایران سے تجارت میں اضافہ کیا جائے۔ ایران کے ساتھ ہمارے تجارتی تعلقات کیوں بگڑ رہے ہیں، اس جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق تاجر نمایندوں نے انکشاف کیا ہے کہ ہمارے 600ٹرک ایران بارڈر پر روکے ہوئے ہیں۔ امپورٹ آرڈر مانگا جا رہا ہے۔ دوسری طرف چیئرمین قائمہ کمیٹی سینیٹ کا کہنا ہے کہ بھارتی بینک اپنی کرنسی میں ایران کو ادائی کرتے ہیں، پاکستان ایسا کیوں نہیں کرتا؟ اس کے ساتھ ہی قائمہ کمیٹی میں ایران کے ساتھ بارٹر سسٹم کی تجویز پیش کردی گئی ہے۔ ایران کے ساتھ برآمدات میں اضافے کے کئی مواقع ہمارے پاس موجود ہیں، ان میں اگر بارٹر سسٹم کا نفاذ ہوجاتا ہے اور پاکستانی کرنسی میں ادائی کا نظام بھی کام کرنے لگتا ہے۔ اس کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایران تو پڑوسی ملک ہے، اگر وہاں سے پیٹرول کی درآمد کرلیا جائے تو اچھا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ اس میں کچھ قانونی رکاوٹیں ہوں، لیکن پیٹرول بہت بڑے پیمانے پر اسمگل ہوکر پاکستان آ رہا ہے۔ حکام بخوبی آگاہ ہیں اور تیل درآمد کے لیے استعمال کیے جانے والے ٹرک انتہائی دشوار ترین، پتھریلے رستوں سے آتے ہیں۔ اگر ان کی ویڈیوز دیکھی جائیں تو پاکستانی ڈرائیورز کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ دشوار گزار راستے سے کس طرح بڑے بڑے پتھروں کے اوپر سے ایک جانب گرتے ہوئے ٹرک کو سنبھال کر منزل مقصود تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس طرح سے ہزاروں افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے۔

حکومت ان تمام امور کا تفصیلی اور ہمدردانہ جائزہ لے اور کوئی ایسی صورت نکالی جائے کہ ایران کے ساتھ ہماری قانونی تجارت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو۔ پاکستانی کرنسی کا استعمال بھی ہو اور بارٹر سسٹم کا نفاذ بھی ہو۔ اس سے برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ برآمدات میں اضافے کے بہت سے مواقع بھی ہیں اور بہت سے ممالک کے ساتھ تجارت بڑھائی جاسکتی ہے، مگر اس پر بڑی محنت کرنے کی ضرورت ہوگی۔