دعوتِ شی جِن پنگ (ندیم تابانی)

ہمارے صدر مملکت اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کی دعوتِ خاص پر چار روز کے لیے چین جا رہے ہیں بلکہ ان سطور کی اشاعت تک وہ چین پہنچ کر مشاغل شروع کر چکے ہوں گے۔ یقینا یہ دعوت تبادلہ خیال یا محض گپ شپ کیلئے نہیں دی گئی ہوگی، بلکہ کچھ بڑے بڑے منصوبے طے ہوں گے، کچھ رکے ہوئے کام ہوں گے، چینیوں سے ہمارے زرداری صاحب کی پرانی یاد اللہ ہے اور زرداری صاحب جیسا زرخیز دماغ رکھتے ہیں، ہماری مملکت، ریاست، حکومت ان سے بہت فائدے حاصل کرسکتی ہے۔ ماشاء اللہ جنابِ زرداری وقت کے ساتھ ساتھ مفکر اور مدبر بھی بن گئے ہیں، اتنی صفات اور خوبیاں ایک شخص میں ہوں اور قوم ملک سلطنت فائدہ نہ اٹھائیں تو اور بھلا نامرادی کیا ہوگی۔
٭٭٭
اڈیالہ میں شاہانہ قید کاٹنے والے بڑے خان صاحب نے سپہ سالار کو محبت نامہ بھیجا ہے، یہ وہی خان صاحب ہیں جنھوں نے ابھی کچھ دن پہلے سپہ سالار کو یحییٰ خان کا پارٹ ٹو قرار دیا تھا، اِس سے پہلے بھی خان صاحب کئی بار پالیسی تبدیل کر چکے ہیں یعنی کئی بار وہ اظہار محبت کرتے ہیں لیکن جب محبت کا جواب محبت تو کیا نفرت سے بھی نہیں آتا بلکہ مکمل خاموشی ہوتی ہے تو بجائے کچھ صبر کریں، انتظار کریں یا مزید خط لکھیں، خان صاحب طیش میں آ جاتے ہیں اور اپنے اس قول کو سچا ثابت کرنے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ فاسٹ بالر میں صبر اور برداشت کا مادہ کم ہو تا ہے۔ محبت نامے کے جو مندرجات منظر عام پر آئے ہیں، اس میں تو شکوے شکایتیں ہی ہیں، البتہ خود کو اطاعت کیلئے پیش کرنے کی کوشش بھی ہے، خیال کیا جا رہا ہے اپنی گستاخیوں پر معافی مانگنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ بس انداز فدویانہ کم ناصحانہ زیادہ ہے، امید ہے اب ان کی پارٹی ماحول بنانے کی باجماعت کوشش کرے گی، لیکن باخبر ذمے دار ذرائع کا کہنا ہے اس بار بھی کسی جواب کی توقع نہیں رکھنی چاہیے اور چوں کہ برداشت اور صبر کی بہت کمی ہے اس لیے کسی بھی وقت خان صاحب پرانی ڈگر پر آکر کوئی نیا ٹویٹ فرما سکتے ہیں۔
٭٭٭
وزیر اعظم کے مشیر مونچھوں والے رانا صاحب خط پر تبصرہ کرتے ہوئے تھوڑے بلکہ اچھے خاصے ناراض نظر آئے، ان کا لہجہ بتا رہا ہے کہ خط لکھے جانے اور سپہ سالار کو روانہ ہو جانے سے رانا صاحب کو اپنی اور حکومت کی توہین سی محسوس ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی یقینا اس صورتحال سے محظوظ ہورہی ہے۔ یعنی سند یافتہ مجرم کے ہاتھ لمبے ہیں اور جرات تو دیکھیے اس ہستی کو خط لکھ دیا جس سے جواب کی اعشاریہ صفر ایک فی صد بھی امید نہیں۔ اس لیے حکومت کا پریشان ہونا بنتا ہے لیکن رانا صاحب ہوں یا حکومت کا کوئی اور کل پرزہ پریشان اور جزبز، چیں بجبیں ہونے کی بجائے حکومت پر توجہ دینی چاہیے، قیام امن، عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتوں کی فراہمی، مہنگائی پر قابو کے دعوے کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کی ایسی کوشش کرنی چاہیے جسے ہر مخالف شخص نہ صرف محسوس کرے بلکہ اس کا اعتراف بھی کرے۔
٭٭٭
کراچی میں بدامنی، اسٹریٹ کرائم، چھیناجھپٹی، لوٹ مار، چوری چکاری اور مار دھاڑ کا گراف اونچا ہوتا جا رہا ہے۔ موبائل اور گاڑیاں چوری ہونے سے چھینے جانے تک ساری کارروائیاں جاری ہیں، ہر روز ایسی ایسی خبریں سننے میں آرہی ہیں جو صورتحال کی سنگینی سمجھانے کے لیے کافی ہونی چاہئیں۔ واردات کے نئے نئے طریقے ایجاد ہو رہے ہیں، مثلاًایک خبر یہ ہے کہ لیاقت آباد مارکیٹ سے لاکھ روپے سے زیادہ کا سامان خرید کر خواتین اور نگی جا رہی تھیں کہ رکشے والے نے انھیں ڈرا دھمکا کر رکشے سے اتار دیا اور سامان لے کر چلتا بنا۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ پولیس کی ہوشیاری کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کھلے عام چوری کی بجائے اب چوروں ڈاکوؤں نے ایسے روپ اختیار کرنا شروع کر دیے ہیں جس طرف عام طور پر توجہ نہیں دی جاسکتی اور اس طر ف خیال نہیں جا سکتا لیکن یاد رہے ایسا نہیں ہے کہ صرف چوری چھپے ہی چوری چکاری کی جا رہی ہے بلکہ سر عام لوٹ مار بھی جاری ہے، صورتحال یہ ہے کہ سی سی کیمرے کی وڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہتی ہیں اور اس سب کے باوجود شہری بھی لٹنے کو تیار رہتے ہیں اور ڈاکو تو خیر سے دیدہ دلیری میں ایسی ناموری حاصل کر چکے ہیں کہ انھیں کوئی گھبراہٹ ہے نہ بے چینی۔
٭٭٭
پیکا ایکٹ کے ٹیکے لگنا شروع ہوگئے ہیں، مثلاً اوکاڑہ میں ڈکیتی کی جھوٹی پوسٹ لگائی گئی، مقدمہ درج کر لیا گیا۔ مظفر گڑھ میں مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ درج کرنے کی خبر آئی۔ ہم لوگ اسٹیٹس لگانے اور مشہوری پانے کے چکر میں یا خود کو خدائی خدمت گار ثابت کرنے اور حکومت کو ایک دم نکما ثابت کرنے کے چکر میں آبیل مجھے مار کا کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ ہی یہ ہے کہ سارا دن اسٹیٹس لگاتے رہیں، اب قطع نظر اس کے کہ جو وہ لگا رہے ہیں وہ صحیح ہے بھی یا نہیں۔ خاص طور پر اغوا، لوٹ مار، چوری اور مذہبی معاملات میں اپنی شہرت اور ناموری کیلئے استعمال کرنا خود پہ لازم سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ باخبر رہیں قانون کے ہاتھ لمبے ہیں اور لگتا ہے اِس پیکا کے ہاتھ تو کچھ زیادہ ہی لمبے ہوں گے۔ اپنی راتیں جیل میں کاٹنے کا اگر شوق نہیں اور رمضان میں سحرو افطار سرکاری خرچ پہ کرنے کا جذبہ تنگ نہیں کر رہا تو اتنا وقت اللہ اللہ کر لیں جتنا وقت بلاتحقیق و تصدیق کسی خبر کو سوشل میڈیا پر چڑھاتے ہیں۔