سوڈانی فوج اور معاون فورسز نے دارالحکومت خرطوم کی بحری جانب پر بھی مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور اب صرف شہر کے جنوب مغربی حصے میں کچھ چھوٹے علاقے باقی رہ گئے ہیں۔
فوجی حکام سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر جلد ہی شہریوں کی اپنے گھروں کو واپسی کی حفاظت کے لیے کام کر رہے ہیں۔ فوج نے گزشتہ دو دنوں میں خرطوم کے مشرقی علاقوں، خرطوم بحری اور مشرقی نیل کے علاقوں میں نئی کامیابیاں حاصل کی ہیں، جنہیں وہ مشرقی دیہی علاقے سے گھیرے ہوئے ہیں۔ اس سے قبل فوج نے خرطوم کے وسط میں واقع مرکزی کمانڈ ہیڈکوارٹر، سگنل کور اور خرطوم بحری میں واقع ایک انٹیلی جنس ایجنسی کے قریبی دفتر کا محاصرہ ختم کیا تھا، جس کے بعد فوج نے 26ستمبر کو شروع کی گئی کارروائی کے تیسرے مرحلے کا آغاز کیا۔
سوڈان میں مرکزی فوج اور ایلیٹ فورس (ریپڈ فورسز) کے مابین خانہ جنگی کا سلسلہ 15 اپریل 2023ء سے جاری ہے۔ اہم شہروں پر فوج نے قبضہ کرلیا ہے جس کے نتیجے میں خانہ جنگی ختم ہونے کا امکان بڑھتا جارہا ہے۔ یہ جنگ ملک میں وسیع پیمانے پر تباہی، بنیادی ڈھانچے اور اہم سہولتوں کی خرابی کا سبب بنی ہے اور اس کے نتیجے میں ہزاروں شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیںاور لاکھوں افراد کو اندرونِ ملک اور سرحدوں کے پار پناہ گزینی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم اس کے باوجود اس جنگ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس میں کچھ ایسے نتائج سامنے آئے ہیں جنہیں مثبت کہا جا سکتا ہے۔ اس اصول پر کہ ”ہر نقصان میں کوئی نہ کوئی فائدہ ہوتا ہے۔“ یہ نتائج اس جنگ کے بغیر کبھی سامنے نہ آتے۔ یہ خودبخود وقوع پذیر ہوئے اور جنگ کے بطن سے جنم لیا ہے۔ یہ نتائج سوڈان کی سیاسی اور سماجی زندگی میں مستقل نوعیت کی چند بنیادی مشکلات کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے، جو ملک کی آزادی کے بعد سے اس کی سیاست میں رکاوٹیں اور تنازعات کا سبب بنی ہیں۔

اگر ہم سوڈان کی سیاست کو درپیش بنیادی مشکلات کی نوعیت پر غور کریں تو معلوم ہوگا ان میں سے بعض بنیادی طور پر جغرافیائی، ڈیموگرافیائی اور تاریخی وجوہات کا نتیجہ ہیں، لیکن زیادہ تر اسباب اس کے سیاسی ہیں، جو آزادی کے بعد سیاسی جماعتوں اور اداروں کی غلطیوں کا نتیجہ ہیں۔ پہلا مسئلہ اقتدار کی منتقلی کا ہے۔ یہ سوڈان کی آزادی کے صرف دو سال بعد سامنے آیا۔ نومبر 1958ء میں فوج کے سربراہ جنرل ابراہیم عبود نے منتخب وزیرِاعظم عبد اللہ خلیل سے اقتدار چھین لیا۔ جنرل عبود کو چھ سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد 1964ء میں عوامی انقلاب کے ذریعے حکومت سے برطرف کردیا گیا۔ اس انقلاب کے بعد ایک جمہوری نظام قائم کیا گیا اور ایک منتخب حکومت تشکیل دی گئی جسے 25 مئی 1969ء کو فوجی انقلاب کے ذریعے ختم کردیا گیا۔ اس انقلاب کی قیادت مرحوم جعفر نمیر نے کی اور ان کا اقتدار 16 سال تک جاری رہا۔ نمیر کے دورِ حکمرانی کے دوران متعدد ناکام فوجی انقلاب کی کوششیں ہوئیں، یہاں تک کہ اپریل 1985ء میں ایک عوامی بغاوت نے انہیں اقتدار سے ہٹا دیا۔ اس کے بعد انتخابات ہوئے اور مرحوم صادق المہدی کی قیادت میں منتخب حکومت قائم ہوئی، لیکن ان کے دورِ حکمرانی میں شدید سیاسی بے چینی، سیکورٹی کی کمزوری، اقتصادی بحران، بدترین سیاسی عمل اور بدعنوانی کا دور دورہ رہا۔
آخرکار جون 1989ء میں عمر البشیر کی قیادت میں ایک فوجی انقلاب نے ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ عمر البشیر کا اقتدار تقریباً 30 سال تک برقرار رہا، جس دوران بڑی سیاسی تبدیلیاں آئیں اور سوڈان کو متعدد داخلی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ آخرکار اپریل 2019ء میں ایک عوامی انقلاب نے ان کے نظام کا خاتمہ کر دیا، جس کی حمایت بیرونِ ملک سے بھی کی گئی۔ اس کے بعد ایک عبوری سیادت کونسل تشکیل دی گئی جس کی قیادت جنرل عبدالفتاح البرہان نے سنبھالی اور عبداللہ حمدوک کو وزیرِاعظم مقرر کیا گیا۔ اس دوران بھی سیاسی بے چینی جاری رہی اور اس دور کی خصوصیت عدم استحکام، تنازعات اور فوج کے خلاف سیاسی طاقتوں سے دشمنی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان سول قوتوں کا اس وقت کے نائب صدر اور فاسٹر ملٹری فورسز کے رہنما (حمیدتی) کے ساتھ اتحاد تھا۔ انہوں نے مل کر 15 اپریل 2023ء کو اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش ناکام رہی اور اسی ناکامی کے نتیجے میں وہ خانہ جنگ شروع ہوئی جو ابھی تک جاری ہے۔
اِس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سوڈان میں اقتدار کی منتقلی کے مسئلے نے آزادی کے بعد سے 69 سال تک شدید بحران، کشیدگی اور عدم استحکام کی حالت میں مبتلا رکھا ہے۔ خاص طور پر سوڈانی بائیں بازو کی جماعتوں کی جانب سے فوج کو شدید دشمنی کا سامنا رہا، فوج کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے۔ البشیر حکومت کے خاتمے کے بعد فوج کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، خاص طور پر اپریل 2019ء سے اکتوبر 2021ء کے درمیان۔
اس دوران اسے مکمل طور پر توڑنے اور اس کی جگہ فورسز حمایتِ سریعہ (ریپڈ فورسز) کو لانے کی کوشش کی گئی۔ اس کا اصل مقصد فوج پر اِسلامی رجحانات کے غلبے کو روکنا تھا جو گزشتہ 30 سالوں سے اقتدار میں تھی۔ اس عمل کو ”نظم نو“ یا ”ری اسٹرکچرنگ“ کہا گیا۔ اس دوران فوج کو شدید مذاق، طنز اور تحقیر کا سامنا کرنا پڑا اور اور ریپڈ فورسز کی عظمت کا پرچار کیا گیا۔ سیاسی قوتوں اور سول اداروں نے فوج سے اس قدر نفرت کا مظاہرہ کیا کہ وزیر اعظم حمدوک نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو خط بھیجا کہ سوڈان میں اپنی فوج تعینات کرے۔ یہ واقعہ جنرل البرہان اور حمدوک کے درمیان تعلقات کو خانہ جنگی کے دہانے پر لے گیا، مگر اب سوڈان کی قومی فوج نے ایک بار پھر ملک کے بیشتر حصوں پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا ہے اور توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ شام کے بعد اب ایک اور اِسلامی ملک سوڈان میں بھی خانہ جنگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔