عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں عام انتخابات کے بعد سیاسی عدم استحکام میں کمی جبکہ زرعی اور صنعتی شعبے کی کارکردگی میں بہتری آرہی ہے۔رپورٹ کے مطابق کرنسی اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے سے میکرو اکنامک استحکام نظر آیا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی فضا میں کمی سے کاروبار اور سرمائے میں اضافہ متوقع ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تاحال سخت مالی نظم و نسق کی پالیسی اختیار کی جاسکتی ہے،آئندہ مالی سال پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا میں فی کس آمدن کم رہ سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان، بھوٹان، بنگلہ دیش میں نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح زیادہ ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف قرض پروگرام پرمکمل کاربند رہنا ہوگا۔ آئی ایم ایف قرض پروگرام پر سختی سے عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں معاشی سرگرمیوں پر منفی اثر پڑے گا۔
عالمی بینک کی یہ آبزرویشن بڑی حد تک حوصلہ افزا ہے کہ فروری 2024ء کے الیکشن کے بعد ملک میں پہلی بار سیاسی عدم استحکام میں نمایاں کمی آئی ہے، جس کا مطلب یہی ہے کہ رفتہ رفتہ ملک میں سیاسی استحکام کو فروغ مل رہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ سیاسی استحکام کا براہِ راست اثر ملکی معیشت پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طویل عرصے بعد حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات اور اتفاق رائے کی کوششوں نے کاروباری ماحول پر مثبت اثر ڈالا ہے۔ ایسی ہی فضا میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے اور یہ ایک امید افزا علامت ہے کہ سیاسی استحکام میں اضافے سے معیشت میں مثبت تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔ سیاسی استحکام کے علاوہ عالمی بینک کی رپورٹ میں زرعی اور صنعتی شعبوں کی کارکردگی میں بہتری کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مستحکم کرنسی اور مہنگائی پر قابو پانے سے معیشت میں استحکام پیدا ہوا ہے۔ اگرچہ ڈالر کے مقابلے میں اس وقت بھی پاکستانی روپے کی بے قدری خاصی نمایاں ہے، مگر گزشتہ سالوں کے مقابلے میں روپیہ کم شرح کے مطابق ہی سہی، کسی قدر اپنی قیمت بڑھانے میں کامیاب ہوا ہے اور روپیہ کی کارکردگی مسلسل بہتری کی طرف گامزن ہے۔ کرنسی کا استحکام معیشت کی بنیاد ہے، امید کی جانی چاہیے کہ انتظامی اور مالیاتی سطح پر بہتری کی مزید موثر کوششوں کے نتیجے میں روپیہ مزید تگڑا ہوتا جائے گا۔
گزشتہ کچھ عرصے سے سخت مالیاتی نظم و نسق اور پالیسی ریٹ میں کمی نے بھی کاروباری طبقے کیلئے بہتر مواقع پیدا کیے ہیں، تاہم رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سخت مالیاتی پالیسی جاری رکھنا ہوگی تاکہ طویل المدتی استحکام ممکن ہو۔ اس سے یہ امر مترشح ہے کہ معیشت اور سیاست میں استحکام مسلسل فالٹ لائنز کی زد میں ہے، استحکام کو برقرار رکھنا حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور بھوٹان میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے۔ نیز بے روزگاری کی بلند شرح نوجوانوں کو روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جانے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ معاملہ طویل عرصے سے ملک و قوم کیلئے تشویش کا باعث ہے، بیروزگاری اور مواقع کی کمی کے باعث ملک سے نوجوان خون کے فرار کا رجحان ملکی معیشت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے کیونکہ تربیت یافتہ افرادی قوت ملک سے باہر جا رہی ہے۔ حکومت کو نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور مقامی سطح پر ہنر مندی کو فروغ دینے کیلئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس سلسلے میں کاٹیج انڈسٹری کی بنیادی اہمیت ہے، حکومت کو کم مالیت کی چھوٹی چھوٹی مقامی صنعتوں کو فروغ دینے پر جنگی بنیادوں پر توجہ دینا ہوگی۔ معیشت کے استحکام اور ترقی کیلئے گھریلو صنعتوں کی بنیادی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ دنیا کے کئی ملکوں میں اس شعبے کے فروغ سے معاشی انقلاب آچکا ہے۔ حکومت کو لوگوں کو ملازمتیں ڈھونڈنے کی بجائے چھوٹی صنعتیں لگانے کی ترغیب دینا ہوگی اور اس کیلئے مختلف شعبوں میں نوجوانوں کو ٹریننگ کے ساتھ سہولت کاری کرنا ہوگی۔ یہ چھوٹے بجٹ کے وہ اقدامات ہیں جو معیشت کے تن مردہ میں جان ڈال سکتے ہیں۔
معیشت کی بہتری اور ترقی کے لئے سیاسی استحکام بنیادی ضرورت ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث حکومت کی توجہ معیشت پر مرکوز نہیں رہ پاتی اور عوامی مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی باتیں خوش آئند ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ملک میں سیاسی اور معاشی دونوں محاذوں پر مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے امن و امان اور کاروبار دوست ماحول ضروری ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی سازگار حالات چاہئیں۔ اس کے علاوہ معیشت کی دستاویز بندی کے عمل کو تیز کرنا ہوگا تاکہ بدعنوانی اور خورد برد کو روکا جا سکے۔ غیر دستاویزی معیشت بدعنوانی کے فروغ کے ساتھ سرمایہ کاروں کیلئے بھی الجھن اور پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ اس سلسلے میں ون ونڈو آپریشن کی پالیسی ہر شعبے میں اپنانے کی ضرورت ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ سے واضح ہے کہ سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ حکومت کو سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر استحکام پیدا کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔
کُرم میں مکمل امن یکطرفہ آپریشن سے ممکن نہیں!
لوئر کرم میں شرپسندوں کیخلاف فوجی کارروائی کا آغاز ہوگیا ہے، انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن بھی جاری ہے، اس مقصد کیلئے ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے جا رہے ہیں اور لوئر کرم بگن کے علاقے میں لوگوں سے اسلحہ بھی جمع کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری طرف بگن کے متاثرین کا دھرنا بھی جاری ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ کانوائے پر حملے کے ردعمل میں اپر کرم کے لوگوں نے ان کے بازار اور مکانوں پر دھاوا بول کر قتل و غارت مچایا تھا، اس کے نقصانات کا ازالہ اور حملہ آوروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی علاقے میں مکمل امن کیلئے صرف لوئر کرم کی بجائے اپر کرم پاڑہ چنار وغیرہ میں بھی مکمل آپریشن کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور یہ مطالبہ یقینا جائز اور مناسب ہے۔ امن کیلئے ضروری ہے کہ آپریشن اگر ناگزیر ہے تو پورے علاقے میں کیا جائے، صرف ایک فریق کے علاقے میں آپریشن کرکے، انہیں غیر مسلح کرکے دوسرے فریق کو کھلا چھوڑ دینا کسی طرح بھی پائیدار امن کی ضمانت فراہم نہیں کرسکتا۔ اس سے جہاں حکومت اور ریاست سے مایوسی اور ناانصافی کا تاثر پھیلے گا وہیں کچھ عرصے بعد دوبارہ شرپسندی سر اٹھائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی بھی اقدام کسی فریق کے دباؤ کی بجائے مجموعی ملکی مفاد اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اتفاق رائے سے ہی کیا جائے۔
