علی محیی الدین القرہ داغی ایک مشہور عالم دین ہیں، عراق میں پیدا ہوئے اور قطر میں جابسے۔ آپ نے 30سے زائد کتابیں اور سو سے زائد مقالات تحریر کیے ہیں، جن میں سے اکثر کا موضوع اسلامی مالیاتی نظام ہے۔ آپ کے ڈاکٹریٹ کا موضوع بھی”فقہ المعاملات” تھا اور بعد میں زندگی بھر اسلامی مالیاتی اداروں کے ساتھ وابستگی بھی تا عمر برقرار ہے۔ عالم اسلام کے معروف عالم دین علامہ شیخ یوسف القرضاوی نے ان کے بارے میں کہا تھا:
”علی محیی الدین القرہ مروجہ مالی معاملات میں حجت بن چکے ہیں۔”
اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ حافظ قرآن بھی ہیں، احادیث پر عبور رکھتے ہیں، فقہی ذخیرے پر گہری نظر ہے، جدید دور کی تبدیلیوں پر نظر رکھتے ہیں، معاصر قانون کو جانتے ہیں، قدیم علوم اور جدید تبدیلیوں سے باخبر ہیں۔ آپ عالم اسلام کے مختلف غیرسودی بینکوں کے شریعہ بورڈ کے چیئرمین یا ممبر ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی اسلامی مالیاتی نظام پر کانفرنسز ہوں، آپ کو ضرور بلایا جاتا ہے۔
آپ نے گزشتہ دنوں اسلامی مالیاتی نظام سے متعلق ایک تحریر لکھی، جس میں اپنے 45سالہ تجربے کی روشنی میں بہت سی باتوں کی طرف نشان دہی کی۔ آئیے! اس کا خلاصہ دیکھتے ہیں:
”اسلامی بینکاری کا آغاز ہوا اور اللہ کے فضل و کرم سے اس نے اپنے آپ کو منوایا۔ 2008ء میں عالمی مالیاتی بحران کے وقت اس کا کردار واقعی قابل تحسین رہا اور اسلامی بینکاری کی بہت سی نئی پروڈکٹس سامنے آئیں۔ اسلامی بینکاری کا آغاز مرابحہ سے ہوا، اس کے بعد استصناع متعارف ہوا اور اس کے تمام ضوابط پر عمل کیا گیا، پھر اجارہ منتہیہ بالتملیک کا اضافہ ہوا، اس کے بعد بحث آگے بڑھی اور مشارکہ و مضاربہ تک جاپہنچی۔ اس کے بعد صکوک اور اس سے ملتے جلتے عقود متعارف کروائے گئے۔ یہ ایک بہت ہی عمدہ اقدام تھا، لیکن وہ نتیجہ ہرگز نہیں تھا جس کی امید رکھی جارہی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلامی بینکوں نے اپنے آپ کو صرف متبادل فراہم کرنے تک محدود کرلیا، ان کی توجہ اسلامی اقتصادی نظام اور ڈیولپمنٹ کی طرف نہیں رہی۔ مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ اسلامی بینک اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کے ہزاروں یا لاکھوں کھاتہ دار ہیں اور اگر بینک کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا تو اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ لیکن اس بات کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ اسلامی بینک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور اسلامی مالیاتی نظام کی دیگر پراڈکٹس کو نہ آزمائیں، بالخصوص صکوک کا میدان بہت وسیع ہے۔ بدقسمتی سے صکوک کو صرف بونڈز کے متبادل کے طور پر ہی استعمال کیا جارہا ہے۔ میں نے 1988ء میں اس پر لکھا اور مجمع الفقہ الاسلامی تک یہ بات پہنچائی کہ اسلامی صکوک کا دائرہ کار مزید وسیع کرنا چاہیے۔ میں نے 36سال پہلے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اسلامی صکوک کو ڈیولپمنٹ کے منصوبوں کے لیے استعمال کرنا چاہیے، اسی طرح نوجوانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
مثلاً: کچھ بینک اپنی حکومتوں کے ساتھ مل کر پروجیکٹس شروع کریں، ہر بینک سرکار سے زمین حاصل کرے۔ اس کے بعد اس زمین پر گھر، ولا یا اپارٹمنٹس تعمیر کرے۔ اس کے بعد ان کی بنیاد پر صکوک جاری کیے جائیں۔ ان صکوک کی گارنٹی حکومت کی طرف سے ہو اور لوگ ان کو خریدیں۔ جیسے جیسے لوگ ان کی نقد اور آسان اقساط میں ادائیگی کرتے جائیں مزید ولاز، گھر اور اپارٹمنٹ تعمیر ہوتے جائیں۔ اگر یہ منصوبہ شروع کردیا جاتا تو مجھے یقین ہے کہ آج اسلامی ممالک میں لاکھوں لوگوں کو اپنے گھر میسر آچکے ہوتے۔ اسی طرح صکوک کو یونیورسٹیز کی تعمیر، انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور فیکٹریز کی تنصیب کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے”۔
جمود سے بڑا دشمن دنیا میں کوئی نہیں۔ نت نئے تجربات اور نت نئی ایجادات کے دور میں جو رک گیا، وہ مرگیا۔ جو ٹھہر گیا، وہ بچھڑ گیا۔ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں۔ اسلامی بینکاری میں ایسے نئے تجربات بہت ناگزیر ہیں۔ ان کے بغیر اسلامی بینکاری کا دائرہ بھی محدود ہوگا اور اثر انگیزی بھی محدود ہوگی۔بہت سے معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اسلامی بینکاری کا ہدف معاشرے میں اسلام کی عادلانہ تعلیمات کے مطابق معاشی مساوات کا قیام ہونا چاہیے۔ اسلامی بینکاری دولت کے ارتکاز کی بجائے اس کی گردش کا ذریعہ ہونا چاہیے تاکہ غریب طبقے کو بھی اوپر اٹھنے کے مواقع مل سکیں۔ اس کے لیے اب مرابحہ اور اجارہ کی بجائے مشارکہ (شراکت) کی بنیاد پر کاروبار کی طرف بڑھنا چاہیے۔
اسلامی بینکاری جب سے شروع ہوئی ہے، اس کی پروڈکٹس ایک خاص دائرے میں محدود ہیں، اسلامی معاشی نظام کا دائرہ جتنا وسیع ہے، اس کی جھلک اسلامی بینکاری میں نظر آنا ضروری ہے۔
