Letter To Editor

آمنے سامنے

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

٭ شمارہ ۱۱۴۵ کی ’دستک‘ میں ایک دکھ کا اظہار تھا۔ ’حجا کے کارنامے‘ مزے کی رہی۔ ’کچرہ بردار چیتا‘ تحریر بھی مزے کی تھی اور سبق آموز بھی۔ ’ماسٹر اللہ بخش‘ کی دونوں قسطیں پڑھیں۔ ایک عمدہ کہانی تھی۔ ’موٹر ہماری‘ نظم تھی پیاری۔ ’آمنے سامنے‘ میں ہم استاد اور شاگرد دونوں کا خط شائع تھا۔ شمارہ ۱۱۴۶ کی سرورق کہانی نے ماں کی دعا کی تاثیر بتائی۔ آپ کی ’دستک‘ نے تجویز تو بہت اچھی دی مگر کاش اس تجویز پر عمل بھی ہوجائے۔ ’لکھنے والا‘ مرحوم کی تحریر بھی کمال کر گئی۔ اوّاب شاکر نے بہت لاجواب کہانی لکھی۔ ’محنت کا سبق‘ نظم سیرت کے پہلو پر مشتمل تھی۔ ’انڈونیشیا‘ تحریر سے خوب معلومات حاصل ہوئیں۔ ’خط لکھنے کی روداد‘ نے حیران کر دیا۔شمارہ ۱۱۴۸ کی سرورق کہانی ’کیا ہے آزادی؟‘ بہترین تحریر تھی۔جنگل کی آزادی‘ میں نعمت کی قدر کا احساس دلایا گیا۔ حافظ صاحب نے اپنے ’ماضی کے دریچوں سے‘ اچھی جھلکیاں پیش کیں۔ ’ننھا سا قطرہ‘ باہمت تحریر تھی۔ آمنے سامنے کی جگہ صرف ’ایک پورا خط دیکھ کر‘ حیرت ہوئی۔ حوصلہ افزائی کرنے پر آپ کا شکریہ۔آپ کی ’دستک‘ رحمت، انعامات اور برکتوں کی سوغات لے کر آئی۔ ذکر کردہ قیمتی تحائف کا پڑھ کر دل بہت خوش ہوا۔ خدا اُن اسیران کو جلد رہائی عطا فرمائے۔ (محمد اشرف۔ حاصل پور)

ج:آمین۔ویسے حیرت کی کیا بات تھی؟

٭آپ اپنی ’دستک‘ میں جھنگ کے بانی مدیر کے وراثت سے جو آپ کو تحریروں کے خزانے کا صندوق ملااُس بابت بتا رہے تھے۔ ہمارا دل خوش ہوا۔جزاک اللہ خیراً۔ ’میر حجاز‘ بہت اچھے انداز میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پرسلسلہ ہے۔ (حاجی جاوید ساقی۔ احمد آباد، اٹھارہ ہزاری، جھنگ)

ج:آمین وایاک۔

٭ ’مکتب کی کہانی‘ کی تحریر زبردست تھی۔ ’ہمارے بچپن کی عید‘ بھائی عتیق احمد صدیقی کے قلم سے اچھی تحریر تھی۔ ’آمنے سامنے‘ کی محفل میں کچھ نئے نام سامنے آئے۔ دل خوش ہوا۔ (بیگم اسماء جاوید۔ احمد آباد، اٹھارہ ہزاری، جھنگ)

ج:خوش رہیے۔

٭ شمارہ ۱۱۴۳ میں چاچو پروفیسر محمد اسلم بیگ کے قلم سے تحریر ’لے سانس بھی آہستہ‘ بہت اچھی تھی۔پچھلے شمارے میں آپ اپنی دستک میں قارئین کو نصیحت کی تھی کہ کم از کم ایک ایک پودا اپنے گھر کے صحن میں لگادیں۔ اسی دن سے اس بات پر عمل کرتے ہوئے ہم نے اپنے چھوٹے سے گھر میں کچھ پودے ایک قطار میں لگائے ہوئے ہیں۔ ’شجر کاری‘ کی تحریر پڑھتے ہی دل باغ باغ ہوگیا۔ (منیبہ جاوید۔ احمد آباد، اٹھارہ ہزاری، جھنگ)

ج:اللہ جل شانہ آپ کا گھراور دل ہمیشہ باغ باغ فرمائے رکھے، آمین!

٭٭شمارہ ۱۱۴۹ کے سرورق پر بنا بونا دیکھا دیکھا سا لگا۔ دستک غائب تھی اس کی جگہ آپ نے ’جونک‘ جو لکھ دی تھی۔ بے ہوش کی نعت پڑھی۔ ان کا تخلص کتنا عجیب ہے شاید نعت لکھتے ہوئے ان کو ہوش نہیں رہتا ہو۔ ’پرچم اور میچ‘ آخر میں پڑھی۔ میچ سے تو مجھے خدا واسطے کا بیر ہے پتا نہیں یہ لڑکے اس پر جان کیوں چھڑکتے ہیں۔ شکر ہے شازیہ آپی ’چاند میاں‘ کو لے کر آئیں۔ ’قبر میں تر و تازگی‘ ایمان افروز تحریر تھی۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی قبروں کو تر و تازہ رکھے اور مرنے کے بعد ہم سب کی قبروں کو بھی۔ آمنے سامنے میں آٹھ خطوط ہیں۔ میں آمنے سامنے پڑھ رہی تھی بھائی نے رسالہ کھینچ لیا کہتا ہے کہ بچپن میں، میں نے ’اوپن اسپورٹس‘ کی تاریخ اشاعت بھی دو دفعہ پڑھی تھی لیکن میرا لیول اتنا کبھی خراب نہیں ہوا تھا کہ میں آمنے سامنے پڑھوں اس کو کیا پتا کہ کتنا مزہ آتا ہے اسے پڑھنے کا۔۷ ستمبر یوم ختم نبوت‘ قریب ہے امید ہے آپ حضرات بھی اس پچاس سالہ تقریب میں عقیدت کے پھول چننے کے لیے پہنچ رہے ہوں گے جو لاہور میں منعقد کی جا رہی ہے۔مدیر صاحب سے گزارش ہے کہ اس بار یوم ختم نبوت کے حوالے سے کوئی شاندار سی تحریر لگائیں۔(بنت عبدالمجید۔ فیصل آباد)

ج:اس بار اِس مبارک یوم کے سلسلے میں ہم شمارہ ترتیب نہیں دے سکے۔دفتر میںجو نہیں تھے۔

٭شمارہ ۱۱۴۸ میں ایک کہانی ’ننھا سا قطرہ بڑی ہمت‘ مجھے بہت پسند آئی۔’کیا یہی ہے آزادی؟‘ کہانی بہت اچھی تھی۔یومِ آزادی کے بارے میں آپ کو اور بھی کچھ بتانا چاہتی ہوں۔ ہر آزادی پر ہماری مسجد پر بہت بڑا جھنڈا لگتا ہے۔ ماشاء اللہ سے اس بار تو فلسطین کا پرچم بھی لہرایا تھا۔ ہر آزادی پر میرے ابو آزادی کا بیان کرتے ہیں مسجد میں۔ (اسماء بنت عبدالمجید۔ فیصل آباد)

ج:ماشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے سر پر ابو امی اور وطن کی سائبانی سلامت رکھے، آمین!

٭’گیارہویں سنچری‘ میں اپنا نام دیکھ کر خوشی ہوئی اور اس سے زیادہ خوشی اپنی کزن طیبہ راؤ علی پور کا نام دیکھ کر ہوئی۔ ساری کہانیاں بہت اچھی تھیں۔(ازکیٰ رانی۔ علی پور، ضلع مظفر گڑھ)

ج:ان شاء اللہ تعالیٰ بارھویں سنچری بھی آپ کا دل خوش کردے گی۔

٭’اُن میں کوئی عثمان نہیں‘ فلسطین کے موضوع پر دل کو جھنجھوڑنے والی کہانی تھی۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ فلسطین کو فتح نصیب فرمائے۔ ’ہمت کا پہاڑ‘ بہت خوب صورت طرز سے لکھی گئی ہے، بڑی ہی دلچسپ ہے۔ ’درود ان پر سلام ان پر‘ خوب صورت نعت ہے۔(طیبہ راؤ۔ علی پور، مظفر گڑھ)

ج:تو آپ نے بھی کچھ ہمت کے اسباق سیکھے اس روداد سے؟

٭ ’دستک‘ پڑھی۔ آپ کو تحریر کے عنوان ’لاڈلی‘ نے اپنی طرف کھینچا۔ ٹھیک ہے ہم بھی پھر ایک ’لاڈلا‘ بھیج دیتے ہیں۔ ’مکتب کی کرامت‘ میں مولوی شبیر صاحب نے بتایا کہ کس طرح بیماری میں ان کی خدمت ہوئی۔ عبدالقادر نے نظم’گھر کی جھلک‘ میں اپنے متعلق صرف جملے لکھے۔ پہلے لگا کہ شاید وہ نظم بڑھانا نہیں چاہتے تھے۔ (محمد وقاص۔ جھنگ صدر)

ج:نظم سے متعلق آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی، اورآپ کا لاڈلا بھی ہمیں نہیں ملا۔

٭شمارہ ۱۱۴۸ کا سرورق بہت روشن تھا۔ قرآن اور حدیث پڑھنے کے بعد کہانی ’چال کی موت‘ پڑھی۔ بہت ہی ایمان افروز تحریر تھی۔ ’دستک‘ ہمیشہ کی طرح لاجواب تھی۔ ’کیا ہے آزادی‘اور ’ننھا سا قطرہ‘ دونوں ہی بہت عمدہ تحریریں تھیں۔ ’کہو مہتاب سے ہمت نہ ہارے‘ بہت ہی متاثر کن رہی۔ ’میرحجاز‘ کی یہ قسط بھی اعلیٰ تھی۔ ’ہمت کا پہاڑ‘ میری پسندیدہ کہانی ہے۔ ’پرچم‘ اور ’کیا آپ جانتے ہیں؟‘ بہت دلچسپ اور معلوماتی تحریریں تھیں۔ ’مسکراہٹ کے پھول‘ اور ’آمنے سامنے‘ کو غائب پایا۔ ’ماضی کے دریچوں سے‘ ایک دلچسپ تحریر تھی۔ (ازکیٰ عرفان۔ کراچی)

ج:ہمت کا پہاڑ ’’کہانی‘‘ نہیں ہے بلکہ سچی روداد ہے۔

٭کیسے ہیں آپ مدیر چاچو، یہ میرا تیسرا خط ہے لیکن اب تک رسالے میں ہمارا نام روشن نہیں ہوسکا اور میرے قلم کا فیوز اڑ گیا ہے اور اب یہ خط ایک نئے قلم سے لکھا جا رہا ہے۔میں نے بہت سے رسالے پڑھے لیکن ’بچوں کا اسلام‘ جیسا کوئی نہیں اور میں چاہتی ہوں کہ میرا خط آمنے سامنے میںشائع ہوجائے اور میرا دل گارڈن گارڈن ہوجائے۔ آنکھوں میں خوشی کے مارے آنسو جھلملانے لگیں پھر وہ تھوڑے سے بہہ جائیں اور سب پوچھیں کیا ہوا؟ تو میرا جواب یہ ہو کہ میرا خط آگیا رسالے میں۔ آمنے سامنے کے لیے خط لکھتے ہوئے میرا قلم رکتا نہیں، دماغ کبھی تھکتا نہیں، تو اب پلیز میرا خط بھی شائع کردیں۔ اور اس معصوم بچی کی خواہش کو پورا کردیں۔ اچھا ایک بات بتاؤں مجھے لگتا ہے کہ آمنے اور سامنے یہ دو دوست ہیں جو الگ الگ جگہوں پر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو خط لکھتے ہیں اور جس دن آپ کو یہ بات پتا چلی آپ نے اپنے رسالے میں خطوط کے سلسلے کا نام آمنے سامنے رکھ دیا۔ آپ کے لیے میرا ایک مشورہ ہے کہ جب خالی گھر میں داخل ہوں سلام کریں بس دھیان کیجیے گا کہ کوئی آگے سے جواب نہ دے دے۔ (مریم امتیاز، حور عینا)

ج:لیجیے ہم نے آپ کا دل ’گارڈن گارڈن‘ کرنے کے لیے خط شائع کردیا۔ آمنے سامنے نام بانی مدیر جناب اشتیاق احمد رحمہ اللہ نے رکھا تھا۔ انھیں ہی ملے ہوں گے یہ دونوں دوست۔ سلامتی کی دعا کا آگے سے جواب بھی سلامتی ہی کا آئے گا سو اس میں کیا مضائقہ ہے؟

٭٭٭