محمد فضیل فاروق
’’بھائی! ذرا گاڑی روکیں، پیجھے بلی بیٹھی ہوئی ہے!‘‘
اس کی بات پر میں ایک دم چونکا، شیشے کے باہر دو بندوں کو بائیک پر دیکھ کر مجھے عجیب سا احساس ہوا۔
بلکہ ذرا ٹھہریں، تھوڑا اور پیچھے چلیں، ہمارے گھر کی کھانے کی میز پر۔
اُس دن گھر والے کھانے کے بعد جب گول میز میٹنگ کر کے اٹھے تو فیصلہ یہ ہوا تھا کہ شہزادہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کِرانچی جائے گا۔
’’بھئی ماشاء اللہ ذہین ہے، پڑھائی کا شوق بھی ہے اور کیا چاہیے۔‘‘
اس طرح کے جملے ’شہزادے‘ کو رام کرنے کے لیے تھے، لہٰذا کوئی قاری شہزادے کو سچ ہی میں ذہین نہ سمجھ لے۔ بس پھر یہ تھا کہ کچھ ہی دنوں بعد ایک دن جب صبح آنکھ کھلی تو وہ اپنا سوہنا شہر میرپورخاص نہیں تھا، بلکہ روشنیوں کا شہر کرانچی تھا کرانچی…!
شہزادے کی ساری شہزادگی اگلے چند ہی دنوں میں نکل چکی تھی اور اب وہ بھی ایک عام انسان تھا۔ انسانوں سے بھرے اس شہر کے دیگر لوگوں کی طرح ایک عام انسان۔ کراچی نے ہمیں انسان کس طرح بنایا یہ تو ایک لمبی الف لیلوی داستان ہے، البتہ ان ہزار راتوں میں سے چند راتوں کا ذکر آج زیر قلم لاتے ہیں۔
جب میں کراچی آیا تو عزیر بھائی (بڑے بھائی) کا یہاں ڈینٹل میں ایم ایس سی چل رہا تھا۔ سو زیادہ کچھ اکیلا پن محسوس نہ ہوا۔ باجی کا گھر بھی یہیں ساتھ میں تھا۔ مشکل تب شروع ہوئی جب کچھ عرصے بعد عزیر بھائی کی اسپیشلائزیشن مکمل ہوگئی اور وہ واپس میرپورخاص چلے گئے۔ ابھی بھی باجی قریب تھیں مگر بھائی کی جدائی کا سانحہ بڑا بھاری تھا۔
پھر یوں ہوا کہ ایک بار باجی بہنوئی اور بچے بھی میرپورخاص چلے گئے چند دنوں کے لیے، اس لیے کہ ہمارے بھائی ریحان کی شادی تھی۔ شادی تو کراچی میں وقوع پذیر ہونی تھی مگر تیاریاں تو ظاہر ہے اپنے گھر میں ہونی تھیں، سو باجی تو اپنا ٹین ٹبر اٹھا کر چلتی بنیں، پیچھے رہ گئے میاں شہزادے اکیلے۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ جب بڑے بھائی کی شادی تھی تو میں بھی کیوں ساتھ میں نہیں چلا گیا، تو سنیے! وہ مقصد آڑے آگیا تھا جس واسطے ہم یہاں ہجرت کر کے آئے تھے، مطلب پڑھائی! میرے سالانہ امتحانات چل رہے تھے۔ اگلی صبح پہلا پرچہ تھا۔ اوپر تلے الارموں کی کئی تہیں ترتیب سے سجانے کے بعد ڈرتے ڈرتے سوئے کہ کہیں خواب غفلت میں سوتے ہی نہ رہ جائیں۔ اسی خوف کو دماغ کی ہنڈیا میں ہلکی آنچ پر پکتا چھوڑ کر ہم سوگئے۔
اگلے دن الارم سے اٹھے، گھڑی میں وقت دیکھا، امتحان کے لحاظ سے تو ابھی کافی وقت تھا، البتہ فجر کی جماعت نکلنے والی تھی، سو آؤ دیکھا نہ تاؤ بجلی کی طرح لپک کر غسل خانے گئے، فوراً وضو کیا اور دوسرے ہی لمحے ہوا میں اڑتے ہوئے ہم مسجد کی جانب گامزن تھے۔
قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ ماشاء اللہ کتنا نیک شہزادہ ہے، جماعت کی کتنی فکر ہے اسے، مگر حقیقت کچھ اور ہے، دراصل امی نے بتا رکھا تھا کہ امتحان میں کامیابی کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں۔
’پڑھائی اور رجوع الی اللہ!‘ اب ہم نے سوچا کہ پہلی چیز میں تو ہوگئی جو کوتاہی ہونی تھی، اب کم ازکم دوسری چیز کو ہی مضبوطی سے پکڑ لو، سو اسی لیے امتحان کے دن فجر کی جماعت کا اہتمام باقی دنوں سے زیادہ تھا۔
میں اپنی پوری قوت سے مسجد کی طرف بھاگ رہا تھا کہ میری یہ بے ادبی کسی کو بری لگ گئی! اچانک ایک کتے کے بھونکنے کی آواز صبح کے سناٹوں کو چیرتی ہوئی میرے کانوں میں پڑی اور بس! میری تو ہوگئی سٹی گم، میں پہلے ہی پوری قوت سے دوڑ رہا تھا کہ اس کی آواز نے میرے لیے ’’ٹربو‘‘ کا کام کیا، وہ دو کتے تھے اور بھونکتے ہوئے بتدریج قریب ہوتے جارہے تھے۔
مجھے یاد ہے جب ہم نے مدرسے میں وہ آیت پڑھی تھی جو کتوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے پڑھی جاتی ہے تو میرے دوست نے اپنے کسی جاننے والے کا قصہ سنایا تھا۔ اس کے پیچھے ایک بار کتے لگ گئے تھے، اور آیت پڑھنے کی جگہ اس کے منہ سے گھبراہٹ کے مارے اول فول نجانے کیا کیا نکل رہا تھا۔ اس بات پر میں بہت ہنسا تھا، اور ابھی بھاگتے ہوئے جب میں وہ آیت یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا تو اپنا حال بھی سچ بتاؤں تو کچھ مختلف نہ تھا! بعد میں، میں خود پر بھی بہت ہنسا۔
مسئلہ پہلے ہی بگڑا ہوا تھا، میں حواس باختہ بھاگ رہا تھا کہ اچانک تین کتے سامنے سے بھی آگئے، بس پھر کیا تھا، انھیں دیکھ کر یکدم میرے پیر نے موچ کھوئی، اور میں سڑک پر اپنے الٹے پیر کے انگوٹھے کے بل رگڑ کھاتا ہوا کافی دور جاگرا۔ میرے گرتے ہی کتے بھی رک گئے۔ اُن میں سے ایک اتنا قریب آگیا تھا کہ شاید اگر میں نہ گرتا تو وہ اپنے نوکیلے دانت میری پنڈلیوں میں گاڑ چکا ہوتا۔
مجھے زمین پر پڑا دیکھ کر پانچوں کتے اپنی جگہ پر ساکت ہوکر مجھے ٹکر ٹکر دیکھنے لگے۔ میری چپل بھی گرنے کے دوران اتر کر دور گری تھی اور اس وقت میرے لب پر دعائے انس جاری ہوگئی، اس کے بعد بمشکل اٹھا۔ جسم پر کئی جگہ خراشیں اور چھوٹے موٹے زخم تھے، مگر سب سے زیادہ میرے الٹے پیر کا انگوٹھا زخمی ہوا تھا، یوں لگتا تھا جیسے ہڈی گئی۔ بڑی مشکل سے لنگڑاتا ہوا چپل کے پاس گیا، مگر تکلیف اتنی تھی کہ چپل ٹھیک سے پہنی نہ جاتی تھی، ہلکی پھلکی اٹکا کر میں جب مسجد پہنچا تو پتا چلا کہ ابھی تو جماعت بھی کھڑی نہیں ہوئی!
پھر سمجھ میں آیا کہ غنودگی کی حالت میں، میں چالیس کو پچاس سمجھ بیٹھا تھا۔ خون رِس نہیں رہا تھا، قمیص ایک آدھ جگہ سے ذرا سی پھٹ گئی تھی، شلوار البتہ پھٹنے سے محفوظ رہی، سو میں نے دوبارہ وضو کیا، نماز پڑھی، پھر جب باہر آنے لگا تو ایک پڑوسی نے مجھے بری طرح لنگڑاتے دیکھ لیا۔ میرے کپڑوں کی حالت بھی چغلی کھارہی تھی کہ وقوعہ حال ہی میں پیش آیا ہے۔
انھوں نے آکر پیش کش کی کہ میں آپ کو نزدیکی اسپتال لے جاتا ہوں، مگر شرم کے مارے انھیں میں نے منع کردیا کہ معمولی خراش ہے، گھر پر پایوڈین لگا لوں گا، مگر گھر پہنچ کر مجھے احساس ہوا کہ صاحب! غلطی ہوگئی، تکلیف اب اپنی انتہا کو چھو رہی تھی، اور زمین پر رگڑ کھانے کی وجہ سے انجکشن بھی لگوانا ضروری تھا۔ گھر میں کوئی تھا نہیں، سو اللہ اللہ کر کے خود ہی بائیک پر بیٹھ کراسپتال گیا، وہاں زخم دھوئے گئے، پیڈنگ ہوئی، پھر گھر آکر اسی عجیب و غریب حالت میں نکل کھڑا ہوا کہ وقت بالکل نہیں بچا تھا ورنہ شاہانہ مزاج تو یہ ہے کہ سردی ہو یا گرمی، صبح اٹھنے کے بعد نہاتا ضرور ہوں ورنہ پورا دن ہی عجیب سست سست سا گزرتا ہے، مگر جیسا میں نے بتایا ناں! کِرانچی نے شہزادے کی شہزادگی بھی تو نکالنی تھی۔
کچھ دنوں بعد بھائی کی شادی میں بھی ہم ٹھاٹھ سے لنگڑا لنگڑا کر اِدھر اُدھر دوڑتے پھررہے تھے۔
پھر ایک دن میں بائکیا پر بیٹھا بنوری ٹاؤن جارہا تھا۔ حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب کے جنازے میں شرکت مقصود تھی۔ عشاء میں محض آدھا گھنٹا بچا تھا، اور قسمت سے رائڈر ایسا ملا جو ریس میں کچھوے سے بھی جیت جائے۔ (’’ہلکے ہلکے اور مستقل مزاجی سے چلنے والا ہمیشہ جیت جاتا ہے‘‘ کی بنیاد پر)
’’یار! میں ذرا جلدی میں ہوں، اگر تم تھوڑی سی رفتار بڑھا دوگے تو بہت مہربانی ہوجائے گی۔‘‘ میں نے اُس سے درخواست کی۔
مگر وہ بھائی صاحب تو مجھے لیکچر دینا شروع ہوگئے۔
کہنے لگے: ’’بھائی! زندگی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ میں نے ایک بار اس کا تجربہ کر کے دیکھا ہے، تیز چلانے سے مشکل سے چار پانچ منٹ کا فرق پڑتا ہے، آپ کیا چاہتے ہیں ان چار پانچ منٹ کے عوض ہم اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ لیں!؟‘‘
مجھے چپ لگ چکی تھی، بس بار بار موبائل پر وقت دیکھ رہا تھا کہ کہیں جنازے کا وقت نہ ہوجائے۔ ایسے میں اچانک ایک بائک میرے بالکل قریب آئی۔ دو سترہ اٹھارہ سال کے لڑکے بیٹھے تھے۔ انھوں نے مجھے کچھ کہا۔ میں ٹھیک سے سمجھا نہیں۔ میں نے کان ذرا نزدیک کیے ہی تھے کہ اچانک رائڈر نے بائک ایسی بھگانا شروع کی کہ لگتا تھا اب کی بار اس کا ارادہ خرگوش سے بھی ہار جانے کا ہے۔
ادھر اُن لڑکوں نے بھی یکدم بائیک پچھلے گئیر میں ڈالی تھی اور بائیک کے سائلنسر سے محسوس ہوگیا تھا کہ بائیک اپنے ’میٹر ٹائر‘ کا زور لگا رہی ہے، مگر وہ ہم تک نہ پہنچ پائے۔ مجھے خطرے کا احساس ہوگیا تھا، اور جس وقت رائڈر نے بائک بھگانا شروع کی تھی، میرے لب پر بے اختیار دعائے انس جاری ہوگئی تھی۔ تھوڑا آگے جاکر مجھے کہتا ہے:
’’کون تھے وہ؟‘‘
میں نے کہا:’’پتا نہیں!‘‘
’’بھائی ڈکیت تھے، آپ کو کہہ رہے تھے، موبائل دے۔‘‘
میں نے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
پھر کہتا ہے:’’وہ ہم تک پہنچ اس لیے نہیں پائے کہ یہ بائیک ہم ریسنگ میں استعمال کرتے ہیں، اُس کا انجن زیادہ طاقتور لگوا رکھا ہے۔‘‘
وہ اپنی بائیک کی اسپیسفیکشنز بتانا شروع ہوگیا تھا اور میں دل میں کراچی والوں کی اسپیسیفیکیشنز پر غور کرنے لگا۔
اس سے ٹھیک ایک دن پہلے ہی میں اکیلا سمندر کے کنارے نکل گیا تھا۔ وہاں تو جو ہوا میرے ساتھ وہ تو پورا مضمون ہے۔ اگر مدیر صاحب کا دل چاہے تو الگ سے شائع کر سکتے ہیں، البتہ آج! آج میں مزے سے گاڑی میں بیٹھا اپنے ایک کزن سے ملنے جارہا تھا۔ میں اکیلا ہی تھا۔ ڈرائیو کرتے کرتے موبائل میں گوگل میپ پر رستہ دیکھ رہا تھا کہ اچانک مجھے احساس ہوا کہ ایک بائک کافی دیر سے میرے ساتھ ساتھ چل رہی ہے، اور مزے کی بات یہ کہ اس پر بیٹھے دونوں لڑکے مجھے ہی دیکھ رہے ہیں، باقاعدہ گردن گھما کر۔
میں نے ان کی طرف دیکھا تو ایک کہتا ہے:
’’بھائی! اندر بلی بیٹھی ہے۔‘‘
مجھے بات کچھ ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ میرے چہرے پر نا سمجھنے والے سوالیہ تاثرات دیکھ کر وہ تھوڑا اونچا بولے: ’’ذرا گاڑی روکیں اندر بلی بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘
اس بات چیت میں گاڑی کافی ہلکی ہوچکی تھی، اسی لمحے مجھے بلی کی آواز بھی سنائی دی، اور پھر مجھے یاد آیا کہ بلی کی آواز اس تھوڑی سی دیر میں دو تین بار آچکی ہے۔ ایک لمحے کے لیے میں نے سوچا گاڑی روک کر بلی نکال لیتا ہوں، کہیں جھپٹا نہ ماردے، مگر دوسرے ہی لمحے اِن لڑکوں نے بڑی عجیب حرکت کی، اپنی بائیک کو قریب کرکے مجھے فٹ پاتھ کی طرف سائڈ میں لگانے کی کوشش کرنے لگے، جیسے پولیس والے کرتے ہیں، مگر یہ ساتھ میں تھوڑے تھوڑے ڈر بھی رہے تھے۔ میں نے ایک جھٹکے سے گاڑی آگے بڑھا دی اور لب پر بے ساختہ دعائے انس جاری ہوگئی۔
رستے بھر میں پریشان رہا کہ یار بلی واقعی نہ بیٹھی ہوئی ہو، میں نے بار بار پلٹ کر دیکھا بھی مگر کچھ نظر نہیں آیا۔ بعد میں میرے بھائی نے بتایا کہ یہ ڈکیتوں کی گاڑی روکنے کی چال ہوتی ہے، کچھ لوگ تو گاڑی کے پاس آکر کہتے ہیں بھائی آپ کی نمبر پلیٹ گر گئی ہے، اور ہاتھ میں جعلی نمبر پلیٹ لہرا کر بھی دکھا دیتے ہیں۔ اب بھی انھوں نے یہی کیا ہوگا کہ بلی کی آواز خود نکال رہے ہوں گے اور کچھ انسان پر نفسیاتی اثر بھی ہوتا ہے کہ کسی بات کا سن کر اسے وہ آواز بھی آنے لگتی ہے۔
تو بھائیو! جب تک حکومت ان ڈکیتوں کا کوئی بندوبست نہیں کرتی آپ لوگ ہی کم ازکم دعائے انس کا اہتمام کیا کریں۔ حفاظت کی یہ مشہور دعا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سکھائی تھی۔ الحمدللہ ہمارے ابو کی مہربانی سے ہم سب کو اِس کا اہتمام رہتا ہے۔
ویسے ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومتی سطح پر ان ڈاکوؤں کو شرعی سزائیں ملنی چاہیے۔ ایک بار جب مدینہ منورہ میں کتوں کی بہتات ہوگئی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو کتوں کو مارنے کا حکم دیا تھا…!
اوہ! یہ کتوں کا ذکر کہاں سے نکل آیا، ہاں تو میں کہہ رہا تھا اللہ پاک نے ڈاکوؤں کی سزا کی تفصیل میں قرآن پاک کی آیت نازل فرمائی ہے:
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے اور زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ انھیں قتل کردیا جائے، یا سولی پر چڑھا دیا جائے، یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا انھیں زمین سے دور کردیا جائے۔ یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے، اور آخرت میں ان کے لیے زبردست عذاب ہے۔‘‘
اس پر فقہاء نے تفصیل بیان کی ہے کہ اس آیت میں چار الگ الگ طرح کے فسادیوں کی الگ الگ سزائیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک وہ جو چرائے بھی اور قتل بھی کردے، دوسرا وہ جو قتل کردے مگر چرا کچھ نہ سکے، تیسرا وہ جو صرف ڈکیتی کرے مگر قتل نہ کرے اور چوتھے وہ جو کوشش تو کریں مگر نہ قتل کر پائیں اور نہ ہی کچھ چھین پائیں۔
ریاستی اداروں کو ان ڈاکوؤں کا یہی علاج کرنا چاہیے جو قرآن نے ان کے لیے خاص طور پر بیان فرمایا ہے۔
کیا خیال ہے…!؟
٭٭٭