Mars

ہمت کا پہاڑ (۳۶)

وہ شخص ہمت اور حوصلے کا پہاڑ تھا۔اس کی زندگی کامقصد پاکستان کے نوجوانوں کو مضبوط بناناتھا۔دینی مدرسے کا ایک طالب علم اتفاق سے اُس تک جاپہنچا، یوں شوق،لگن،جدو جہد اور عزم کے رنگین جذبوں سے سجی داستان زیبِ قرطاس ہوئی!

ایک ایسے شخص کا تذکرہ جو دولت پر فن کو ترجیح دیتا تھا…!
راوی: سیہان انعام اللہ خان مرحوم
تحریر:رشید احمد منیب

مقررہ تاریخ پر میں سنگاپور پہنچ گیا۔ پیٹر چانگ کے پاس نہیں گیا تاکہ مجھے ان کے ساتھ دیکھ کر کوئی پہچان نہ لے۔ سنگاپور چھوٹا سا شہر ہے۔ اس میں ایک شعبے کے سب ہی لوگ دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ مقابلے کے منتظمین نے مجھے دیکھ کر سوچا کہ اس کا نام کسی اچھے فائٹر کے ساتھ ڈال دیتے ہیں تا کہ اس فائٹر کو ایک حلوہ مقابلہ مل جائے اور وہ آسانی سے اگلے مرحلے میں داخل ہوجائے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ پاکستان سے آیا ہے تو اسے کیا آتا ہوگا؟ مقابلوں میں جب میری باری آئی تو پیٹر چانگ کے ایک دو شاگرد تماشائیوں میں موجود تھے اور ان کے چہروں سے لگ رہا تھا کہ وہ بہت لطف اندوز ہونے والے ہیں۔ مقابلہ شروع ہوا تو میں نے اپنے مخالف کو کچھ دیر کھلایا پھر ایک ہی ایسی ضرب لگائی کہ وہ ناک آؤٹ ہوگیا۔ اس پر مقابلے کے منتظمین ناراض ہوگئے۔ انھوں نے مجھے گھیر لیا۔ کوئی دھکے دے رہا تھا اور کوئی کپڑوں سے پکڑ کر گھسیٹ رہا تھا۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اس نے ہمیں بےوقوف بنایا ہے۔ میں ان کے ہاتھوں دھکے کھا کر باہر نکلا تو پیٹر چانگ کے شاگرد بھی نکل آئے۔ وہ گاڑی میں بٹھا کر مجھے کلب لے گئے۔ پیٹر چانگ کو شاید انھوں نے کسی ذریعے سے اطلاع کردی تھی۔ میں اس کے پاس پہنچا تو اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا۔ کہنے لگے کہ انھیں تم پر شک ہوگیا ہے کہ تم کیوکشن والے ہو، اسی لیے مار کھانے کے باوجود ڈھیٹ بنے ہوئے ہو۔ اب کل ان کے بندے تمھیں دیکھنے کے لیے یہاں آئیں گے۔ واقعی ایسا ہی ہوا۔ اگلے دن مقابلے کے منتظمین میں سے چند بندے پیٹرچانگ کے پاس پہنچ گئے۔ مجھ سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت ہنسے اور کہنے لگے کہ تم نے واقعی ہمیں بےوقوف بنا لیا۔ ان سے دوستی ہوگئی۔ سنگاپور میں گھومنے کے دوران بھی کافی کھلاڑیوں نے مجھے پہچان لیا۔ کچھ لوگ مجھے نام سے بھی جانتے تھے۔ میں پردیس جاتا ہوں تو کھانے پینے میں بہت کنجوسی کرتا ہوں لیکن اس سفر میں پیٹرچانگ نے بھی میری مہمانی کی اور نئے دوستوں نے بھی کافی گھمایا پھرایا اور خوب کھلایا پلایا۔

انڈونیشیاکے جنگلات میں کچھ دن گزارنے کے بعد جب میں واپس اپنے ٹھکانے پہنچا تو مجھ پر شوق سوار تھا کہ میں بھی انگلی کی ضرب سے ناریل میں سوراخ کرنے کا ہنر سیکھ لوں۔ سفر میں تو سیکھ نہیں سکتا تھا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ گھر واپس پہنچ کر یہ کام ضرور کروں گا۔ یہ طویل اور صبرآزما کام تھا۔ اس ہنر کے لیے جو ماحول درکار تھا، وہ مجھے میسر نہیں تھا۔ انڈونیشیا کے اِن جنگلات میں ایسے درخت موجود تھے جن پر انگلی کو مضبوط بنانے کے لیے مشق کی جاسکتی تھی۔ کراچی میں رہ کر یہ کام عملی طورپر ممکن نظر نہیں آتا تھا لیکن میں نے ہمت ہارنا نہیں سیکھا۔

ایک جیب کترا میرا واقف تھا۔ وہ استاد کہلاتا تھا۔ میں نے کچھ دن اس کے ساتھ گزارے۔ جیب کترے اپنے شاگردوں کو دونوں انگلیوں کے استعمال کی خصوصی مشق کرواتے ہیں۔ پانی سے بھرے ہوئے گلاس کی تہہ سے بلیڈ اس طرح اٹھانا کہ پانی کی سطح نہ ہلے، اسی طرح پانی میں رکھی ہوئی گلاب کے پھول کی پتی کو انگلیوں سے پانی کوہلائے بغیر اٹھانا۔ کچھ دن تک میں اس قسم کی مشقیں کرتا رہا۔ اس کے بعد میں نے چاولوں سے بھرے ہوئے برتن میں مشقیں شروع کردیں۔ شروع میں یہ مشقیں بےمقصد محسوس ہوتی ہیں لیکن چند دنوں بعد ہاتھ میں درد محسوس ہونے لگتاہے۔ مجھے انگلی میں کافی تکلیف ہوئی لیکن میں برداشت کرکے مشق کرتا رہا۔ چاولوں کے بعددالوں کی باری آئی۔ دالوں سے بھرے ہوئے برتن میں کچھ عرصہ مشق کی۔ اس کے بعد ان مشقوں کے اصل مرحلے کا آغاز ہوا۔ میں نے سمندری ریت،عام ریت اور اکھاڑے کی مٹی سے بھی یہ مشقیں کیں۔ اس کے بعد کیلے کے درختوں اور گوشت میں یہی مشقیں کرنی تھیں لیکن میں کیلے کے درخت اور اتنا گوشت کہاں سے لاتا کہ ان پر مشقیں کرسکتا؟

اس دور سے کافی عرصہ پہلے جب میں نے چاپ یعنی ہتھیلی کے کناروں پر کام شروع کیا تھا تو اس وقت مجھے یہ مسئلہ پیش آیا تھا کہ مشق کہاں کروں؟ اس وقت اللہ مجھے معاف فرما دے، میں گلی کے کتوں پر مشق کرنے لگا تھا، میں نے کئی کتوں پر مشق کی تو کتے مجھ سے ڈر گئے، جہاں مجھے دیکھتے بھونکتے اور دُم دبا کر بھاگ جاتے، پھر میں نے گلی میں آوارہ گھومنے والے کچھ چھوٹے لڑکوں سے دوستی کی اور انھیں پیسے دے کر اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ روزانہ کہیں سے ایک کتے کے گلے میں رسی ڈال کر لایا کریں۔ اس طرح مجھے کتے ملنے لگے، لیکن جلد ہی مجھے احساس ہوگیا کہ ان بے زبانوں کو تکلیف ہوتی ہے اور یہ ظلم ہے۔ مجھے ڈر ہواکہ قیامت والے دن رب تعالیٰ سے کہیں یہ کتے میری شکایت ہی نہ لگادیں۔ زیادہ احساس اُس وقت ہوا جب ایک کتا میرے ہاتھ کی ضرب سے مر ہی گیا، پہلے میں سمجھا کہ شاید ویسے ہی مرگیا ہوگا لیکن اس کے بعد جب ایک کتا اور مرا تو میں نے توبہ کرکے یہ کام چھوڑدیا۔

میرے ہاتھ کی ضرب میں اللہ تعالیٰ نے برکت ڈال دی تھی۔ جسے لگتا تھا اس کے چودہ طبق روشن ہوجاتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک بدمعاش سے میری لڑائی ہوگئی۔ وہ اتنا بڑا فائٹر نہیں تھا جیسا کہ خود کو دِکھاتا تھا۔ میں سمجھا کہ یہ واقعی اچھا لڑاکا ہے۔ بعض لوگ بہت دھوکےباز ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں کو دھوکا دیتے ہوئے خود بھی اِس دھوکے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ بدمعاش دوسروں پر اس طرح رعب ڈالتا تھا جیسا کہ بہادری، طاقت اور لڑائی کے فن میں اُس جیسا کوئی نہ ہو۔ مجھے ایک دوست نے اس کے بارے میں بتایا کہ کوئی بدمعاش ہے اور ہر ایک پر حکم چلاتا ہے۔ پورا محلہ اس سے ڈرتاہے۔ بازار والے بھی تنگ ہیں۔ اس کا کوئی علاج کرسکتے ہو تو بتاؤ۔

میں نے کہا کہ مجھے اللہ نے پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ بدمعاشوں اور غنڈوں کے ظلم سے لوگوں کو بچاؤں۔ میں نے اس کے متعلق معلومات لیں اور ایک دن بدمعاشوں کی طرح گلے میں مفلر، ہاتھ میں کڑا اور ہونٹوں پر پان کا کتھا لگا کر، گریبان تھوڑا کھول کر اسی محلے میں پہنچ گیا جہاں وہ بدمعاش زیادہ نظر آتا تھا۔

میں چند دن وہاں جاتا رہا لیکن اس سے آمنا سامنا نہیں ہوا۔ پھر ایک دن میں کسی کام سے بازار جارہا تھا تو وہ اچانک میرے سامنے آگیا۔ کہنے لگا کہ معلوم ہوا ہے تم غنڈوں والا حلیہ بنا کر میری تلاش میں آتے رہے ہو۔مجھے تمھارے بارے میں اطلاع مل گئی تھی لیکن میں دیکھنا چاہتا تھا کہ تمھارے ساتھ کتنے بندے ہیں؟

میں نے کہا تمھیں سبق سکھانے کے لیے میں اکیلا ہی کافی ہوں۔ ہاں تمھیں اپنے کچھ چمچے منگوانے ہیں تو بلا لو،میں تم سب ایک ساتھ ہی نمٹا دیتا ہوں۔

کہنے لگا تم مجھے جانتے نہیں ہو، اس لیے بڑی بڑی باتیں کررہے ہو، میں خونی ہوں، قتل کرنے میں کوئی لحاظ نہیں کرتا، تم شریف آدمی ہو اس لیے معاف کررہا ہوں۔
میں نے جواب دیا کہ اگر انعام اللہ خان تم جیسوں کے ہاتھ سے مارا جائے تو اس کا خون معاف ہونا چاہیے۔ میں اعلان کررہا ہوں کہ اگر تم نے مجھے مار دیا تو تمھیں کوئی ہاتھ بھی نہیں لگائے گا اور میرا خون تم پر معاف ہے۔ اب اس گلی میں سے یا تم اپنے پیروں پر جاؤ گے یا میں اپنے پیروں پر جاؤں گا۔ دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے اٹھا کر لے جائیں گے۔

میری بات سنتے ہی اس کا چہر ے پر سرخی چھا گئی اور آنکھوں سے آگ برسنے لگی۔ اس نے یکدم نیفے میں سے خنجر نکالا اور مجھ پر حملے کے لیے تیار ہوگیا۔ اتنی دیر میں لوگ جمع ہوچکے تھے۔ کچھ لوگوں نے شور مچایا لیکن کوئی آگے نہیں آیا۔ کچھ لوگ ہم دونوں ہی کو جانتے تھے۔ انھوں نے کہا جو ہورہا ہے، ہونے دو۔

ہم دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے تھے۔ اس کے خنجر پکڑنے کے انداز سے میں سمجھ گیا تھا کہ وہ خنجر چلانا جانتاہے اور پشتونوں کے ایک علاقے کے خاص طریقے کے مطابق مجھ پر حملہ کرے گا۔ شاید اسے اندازہ نہیں ہوا تھاکہ میں بھی پٹھان ہوں۔ میں پٹھان ہوں لیکن لوگوں پر ظلم کرنے والوں کا ساتھ نہیں دیتا۔

خیر میں نے اسے اچھی طرح پڑھ لیا تھا، اس لیے اس کا حملہ ناکام بنانا آسان تھا۔ وہ دونوں ہاتھو ں میں خنجر بدل رہا تھا، میں نے نظر جما کر رکھی ہوئی تھی۔ عام طورپر میں اس قسم کے بدمعاشوں کو پہلے خود پر حملے کا موقع دیتاہوں لیکن اُس وقت میں ایک نیا تجربہ کرنا چاہتا تھا۔ لڑائی میں برق رفتاری، درست نشانے اور وار کے وقت کی بہت اہمیت ہے۔ اچھا فائٹر کبھی بے موقع ضرب نہیں لگاتا۔ ضرب موقع پر ہی اچھی لگتی ہے اور نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے۔ وہ میری توجہ بٹنے کا انتظار کررہا تھا۔ اتنا تو وہ بھی سمجھ گیا تھا کہ اس کا مخالف میدان سے بھاگنے والا نہیں ہے۔ یکدم اس نے مجھ پر حملے کا فیصلہ کرلیا اور جیسے ہی اس نے خنجر کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کیا میں نے اسی ہاتھ پر ضرب لگادی۔ خنجر اس کے ہاتھ سے نکل گیا اور اس نے یکدم مجھ سے لپٹنے کی کوشش کی تاکہ مجھے زمین پر گر ادے۔ میں اس کے داو ٔمیں آجاتا تو گلی محلے کا فائٹر ہی کہلاتا۔ میں نے اسے دھوکا دے کر جوڈو کا ایک داؤ لگایا اور زمین پر پھینک دیا۔ اسے تکلیف تو ہوئی لیکن جان دار بندہ تھا،ایک دم اٹھ کر مجھ پر حملہ آور ہوا۔ میں نے اسے ڈھیل دی تاکہ اس کے داؤ دیکھ سکوں، دراصل کافی عرصے سے کشتی کا موقع نہیں ملا تھا تو میں پرانی یاد تازہ کرنا چاہتا تھا لیکن وہ گدھوں کی طرح ہاتھا پائی پر اتر آیا تھا اور اس کے منہ سے اب گالیاں نکل رہی تھیں۔

گالیاں سن کر میں سمجھ گیا کہ یہ فائٹر نہیں ہے،نرا بدمعاش ہی ہے۔اس کے ساتھ اصول کے مطابق لڑنے کا مطلب وقت ضائع کرنا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭