Rekodiq

خوشبو کا راز

اواب شاکر

وَنُسْلِمُہٗ حتّٰی نُصَرَّعَ حَوْلَہٗ
وَنَذْھَلَ عَنْ اَبْنَائِنَا وَالْحَلَائِلِ

درد و محبت میں ڈوبی یہ جانثارانہ پکار شعبِ ابی طالب کے کنارے سے بلند ہو رہی ہے۔ اِس آواز میں ایک عزم ہے، ایک عہدِ وفا کی کھنک اور جرأت و ولولے کی دھمک ہے۔ یہ پکار ایک دردمند دل سے اٹھتی ہے، مکے کی فضاؤں کے گرد ایک چکر لگاتی ہے اور پھر وقت کے تیز دوڑتے قافلے کی گرد و غبار میں دور کہیں گم ہو جاتی ہے۔

یہ وادی صفرا ہے۔ بدر سے مدینہ منورہ کی جانب آؤ تو راستے میں واقع یہ وادی تمھیں اپنی جانب بلاتی سنائی دے گی۔ آج ایک قافلہ صحراؤں کو عبور کرتا ہوا اِس وادی میں داخل ہوا تو ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے نے سینے کو تازگی سے بھر دیا۔ دل میں ایک انوکھی سی فرحت کی کونپل پھوٹی۔
قافلے والوں نے حیران ہو کر ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ اس ویران اجاڑ وادی میں یہ مہک؟ مگر اُن میں سے کوئی اس خوشبو کا راز جانتا نہ تھا۔

بالآخر وہ سالارِ قافلہ کے حضور پیش ہوئے۔

’’حضور! ایک انوکھی سی انجان سی خوشبو اِس وادی میں پھیلی ہے۔ یہ خوشبو کس شے کی ہے؟‘‘

جواباً امیرِ قافلہ کے ہونٹوں پر ایک دلفریب سی مسکراہٹ ابھرتی ہے۔
’’یہ خوشبو…! کیا تم جانتے نہیں کہ اس وادی میں کون ہستی مدفون ہے؟‘‘

اور جواب سن کر وہ خوشبو دل میں اتر کر روح کے گوشے گوشے میں سما گئی۔ اُن کے ذہنوں میں کچھ بھولے مناظر ابھرنے لگے۔
اور وہ دن…وہ د ن بھلا بھلایا بھی کیسے جاسکتا تھا؟

اُس روز جب زخموں سے چھلنی اُس شخص کو خیمے میں لا کر زمین پر لٹا دیا گیا تھا۔ خون تیزی سے اس کی ٹانگ سے بہہ رہا تھا۔ آج کے معرکے میں اُس کی ٹانگ کٹ گئی تھی۔ خون نکل نکل کر تیزی سے فرش کو سرخ کر رہا تھا کہ اچانک اسے محسوس ہوا کہ کچھ انتہائی نرم و گداز ہاتھوں نے اس کے سر کو اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا ہے۔
سکینت کی ایک خاموش لہر اس کے پورے بدن میں دوڑ گئی۔ اُس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ وہیں جم کر رہ گئیں۔

خوشی، طمانیت، سرشاری …!
وہ اپنے احساس کو کیا نام دے؟

وہ محبت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے، اپنے شفیق ہاتھوں کو اس کے چہرے پر پھیرتے ہوئے غبار صاف کر رہے تھے۔ اسے اپنا دل خوشیوں کے سمندر میں اترتا محسوس ہوا۔ یہ چہرہ اسے کتنا پیارا تھا۔ سارے جہاں سے پیارا، اور اب اس کا سر تھا اور اُن کی محبت بھری گود۔کاش یہ مبارک گھڑی ٹھہر جائے، مگر اُس کے پاس اب گھڑیاں بچی ہی کتنی تھیں؟ اور یہ احساس اسے اور بھی زیادہ طمانیت و سرور سے بھر گیا تھا۔
’’یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)!‘‘

اس نے دھیرے سے پکارا۔
اسے اس لمحے درد کا ذرا احساس نہ تھا۔ اس کے دل ودماغ اور تمام حسیات بس اسی ایک مبارک پرنور چہرے پر مرکوز تھیں۔

اُن کی نگاہوں میں وہی دل نشین محبت ابھری اور لب مبارک ہلے:
’’ہاں کہو عبیدہ!‘‘

’’یا رسول اللہ! کیا میں شہید ہوں؟‘‘
شہادت جو اس کی اولیں آرزو تھی، اس کی منزل تھی۔ وہ منزل جو اسے آرام و عیش کی دنیا سے بہت دور کھینچ لائی تھی۔ اِن لمحوں میں بھی جو سوال تھا اسی تمنا سے منسلک تھا۔

وہ عرب کا بہادر جوان تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حارث کا بیٹا عبیدہ، بنو ہاشم کا ایک سجیلا جوان۔ بچپن سے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت و ہم نشینی ملی تھی اور پھر جب مکے کی اُس سب سے حسین، سب سے پاکیزہ صفت، خوش اخلاق و خوش اطوار، سب سے سچی اور امانتدار ہستی نے غارِحرا کی تنہائیوں سے نکل کر پیغام حق کی مشعل مکے کی وادی میں روشن کی تو وہ اُن خوش نصیب جوانوں میں سے تھا جنھوں نے آگے بڑھ کر اُس مشعل کو ہاتھوں میں تھام لیا، پھر حالات کے تیور، ستم کی آندھیاں، جورو تشدد کے چلتے جھکڑ اسے ہلا نہ سکے۔ مشعل ِایمان کو بجھا نہ سکے۔ دل میں شوق و جنون کے شعلے ہواؤں کے تھپیڑے کھا کھا کر اور بھڑکتے گئے۔ یہ وہی عبیدہ ہے۔ خدا کی محبت میں ساری خوشیوں کو تج دینے والا عبیدہ۔ آج زخموں سے چور اپنی کٹی ٹانگ کے ساتھ حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گود میں سرر کھے نہایت بے چینی سے ایک جواب کا منتظر ہے، اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خوب جانتے ہیں کہ آج کے دن میں اُس کا کردار کیا رہا ہے۔
آج کا دن وہ دن ہے جو قرآن کے روشن اور اق میں’یوم الفرقان‘ کے لقب سے فروزاں ہے۔ ۱۷ رمضان، یومِ بدر، کفر و اسلام کے مقابل اولین معرکے کا دن۔ وہ دن جو (کَمْ مِنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللہ ) شہادت اپنے لمحوں میں سمیٹے ہوئے ہے۔ وہ دن جو مومنوں کی خوشی کا دن ہے اور باطل کی رسوائی کا۔ وہ دن جب جبرائیل علیہ السلام ملائکہ کے جھرمٹ میں تلوار چلاتے غبار میں اٹے دکھائی دیتے ہیں اور جب۳۱۳ نفوس کا یہ مختصر لشکر کائنات کی وسعتوں سے بلند ہو کر قرب ِالٰہی کے عظیم درجوں پر فائز ہونے والا ہے۔

آج جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو سب سے پہلے کفر کی صفوں سے نکل کر نمودار ہوتا ایک جوان اتراتا ہوا میدان میں اترا۔

یہ ولید بن عتبہ تھا۔ چست و چالاک اور جنگ میں تلوار کے جوہر دکھانے والا، مگر یہ جانتا نہ تھا کہ اس کے مقابل ایمان کی صفوں سے نکل کر جھپٹتا بانکا جوان شیرِ خدا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔

علی نے ولید کو ٹھہرنے اور تلوار چلانے کا زیادہ موقع نہ دیا اور آن کی آن میں ولید کا بدن خون میں نہاتا زمین پر گرا گرم ریت چاٹتا دکھائی دیا۔ ولید کا گرنا تھا کہ کفار کی صفوں میں ہلچلمچ گئی اور پھر مکے کا مشہور بہادر جوان شیبہ بن ربیعہ میدان میں اترتا نظر آیا۔ یہ ولید کا چچا ہے۔ قریش کے سرداروں میں بڑا نام، جو آج غم وغصے سے بپھرا ہے۔

اور پھر قریش نے دیکھا کہ مومنوں کے لشکر سے دراز قد اور کشادہ سینے والا ایک پہلوان نمودار ہوا۔
’’ ہاں!یہ برابر کا جوڑ ہے۔‘‘

ایک سرگوشی سی قریش کی صفوں میں رینگی۔
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے بہادر شخص کو کون نہیں جانتا؟ جن کی شجاعت اور دلیری کے قصے مکہ بھر میں مشہور تھے۔ بڑے بڑے سرداروں کو جن سے نظریں ملانے کا یارا نہ ہوتا تھا۔ وہ سینہ پھلائے، سر اٹھائے، تلوار تھامے چلتے ہوئے شیبہ کے عین سر پر آکھڑے ہوئے۔

فریقین دم بخود دیکھ رہے ہیں مگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے محبوب جانثار چچا نے ولید کے چچا شیبہ کو جلد ہی خاک میں گر کر تڑپنے پر مجبور کر دیا۔
عتبہ شیبہ کا بھائی تھا۔ قریش کا مشہور سالار عتبہ بن ربیعہ۔ صاحب فراست اور صاحب الرائے۔ جنگ میں وہی اپنے خاندان کو سب سے پہلے دشمن پر وار کرنے لایا تھا۔ بالآخر صفوں سے اس کا چہرہ ابھرا اور یہ اونچے قد کا مضبوط نوجوان نہایت غرور و تمکنت سے آگے بڑھتا چلا گیا۔

اس کے بازو میں بجلیاں بھری تھیں اور تلوار شعلے گویا اگل رہی تھی۔
مومنوں میں سے حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کے مقابلے کے لیے چنا گیا تھا۔ عبیدہ ایمان کی حرارت سے پرجوش صف سے نکلے اور عتبہ کی جانب بڑھتے ہوئے اسے مقابلے کی دعوت دی۔

عتبہ اس کی طرف بڑھا اور تلوار سے تلوار ٹکرانے لگی۔ دونوں پوری مہارت سے ایک دوسرے پر وار کرتے ہوئے اپنے دفاع کا بھی ساتھ ساتھ سامان کر رہے تھے، اور پھر حضرت عبیدہ نے موقع پا کر ایک کاری وار عبیدہ کی جانب یوں کیا کہ تلوار عتبہ کے کندھے کو چیرتی چلی گئی۔ عتبہ کا کندھا لٹک گیا تھا اور خون کے فوارے چھوٹنے لگے۔
وہ بپھرے بھیڑیے کی طرح پلٹ کر جھپٹا اور تلوار کا ایک سخت وار حضرت عبیدہ کی ٹانگ پر کیا۔

تلوار نشانے پر یوں بیٹھی کہ عبیدہ کی پنڈلی کٹ کر علیحدہ ہو گئی اور عبیدہ تڑپ کر زمین پر آ رہے۔
علی اور حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما قریب ہی کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ عبیدہ کی یہ حالت اُن سے دیکھی نہ گئی۔ وہ دونوں دوڑ کر لپکے اور چند لمحوں میں تلوار کی کاٹ سے عتبہ کے جسم کے ٹکڑے کر دیے۔

اور اب وہ زخموں سے چور کٹی پنڈلی کے ساتھ اپنے محبوب کی گود میں سر رکھے اپنی انتہائی خواہش کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔
’’یا رسول اللہ!کیا میں شہید ہوں؟‘‘

’’ہاں عبیدہ!‘‘
خیمے میں وہ آواز گونجی جو کائنات کی سب سے پیاری آواز ہے۔

’’بے شک تم شہید ہو اور میں اس پر گواہ ہوں۔‘‘
اور انھیں بھلا اور کیا چاہیے تھا؟ ان کی سب سب سے بڑی آرزو ان کی منتظر، اپنے محبوب کی گود میں لمحہ لمحہ آفریں ان کا سر اور حشر کے دن سے قبل ہی اُن کی عظیم گواہی کی تصدیق!

’’سبحان اللہ!‘‘ عبیدہ کی روح مسرت سے جھوم اٹھی اور پھر اس لمحے نجانے کہاں سے وقت کے دبیز پردوں میں کھوئی ہوئی، ابو طالب کے محبت بھرے دل سے نکلی وہ آواز، زمانے کی حدوں کو پھلانگتی ہوئی اس کے کانوں سے آٹکرائی۔
وہ منظر سبھی پھر سے تازہ ہو گئے۔ وہ مکے کی گلیوں میں درد و الم سے لبریز روز و شب، وہ درختوں کی چھال کھا کھا کر گزارا کرنا، وہ شعب ابی طالب کی مہیب راتیں، ابو طالب کی فدائیت، وہ اپنے محبوب بھتیجے کے لیے زمانے بھر سے ٹکرا جانا، مگر اِن لمحوں میں جب عبیدہ کی روح سرور کی فضاؤں میں بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی تھی، انھوں نے مچل کر کہا:

’’یا رسول اللہ! آج اگر ابو طالب مجھے اِس حال میں دیکھتے تو یقین کر لیتے کہ میں اُن کے اِس شعر کا ان سے زیادہ حقدار ہوں:
وَنُسْلِمُہٗ حتّٰی نُصَرَّعَ حَوْلَہٗ

وَنَذْھَلَ عَنْ اَبْنَائِنَا وَالْحَلَائِلِ
(ہم اپنے بیوی بچوں سے غافل ہو کر بھی ان کی حفاظت کرتے رہیں گے یہاں تک کہ ہم کٹ کٹ کر ان کے ارد گرد زمین پر بکھرے ہوں گے!)

عبیدہ کے مقدر میں اب حیاتِ دنیوی کے لمحے کچھ زیادہ نہ تھے، سو بالآخر مدینے کی طرف فتح یاب لوٹتے اِس قافلے نے اللہ رب العزت کی اس پاکیزہ امانت کو وادی صفرا کی خاک کی آغوش میں دے دیا۔
قافلہ تو گزر کر مدینہ پہنچ گیا مگر اس خوشبو کا سفر آج بھی جاری ہے۔ لق ودق صحراؤں، گھنے جنگلوں، بلند کوہساروں وسیع و عریض میدانوں، زمانے کی منزلوں کو عبور کرتی، وقت کی طنابیں کھینچتی وہ خوشبو ابو طالب کا پیغام لیے آج بھی ہمارے درِ احساس کو کھٹکھٹا رہی ہے۔

یہ عبیدہ کے خون کی خوشبو ہے۔ یہ خوشبو اُس عزم و جرأت کی ہے کہ زمین و آسمان جس کی وسعتوں میں سمٹ آتے ہیں۔ یہ خوشبو اس حلاوتِ ایمان کی ہے جو خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے آگے ہر خواہش، ہر تمنا، ہر جذبے، ہر احساس کو فنا کر دیتی ہے۔ یہ خوشبو اس لذتِ آشنائی کی ہے جو دلِ مومن کو دو جہانوں کی رنگینیوں سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ اور سنو! یہ خوشبو تمھارے ضمیر کو جھنجوڑتی تم سے کچھ کہنا چاہتی ہے:
’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔‘‘

٭٭٭