عجب کا کفارہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ نئی قمیص پہنی اور دیکھ کر خوش ہونے لگی۔ وہ مجھے بہت اچھی لگ رہی تھی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’کیا دیکھ رہی ہو؟ اس وقت اللہ تعالیٰ تمھیں (نظر رحمت) سے نہیں دیکھ رہے ہیں۔ ‘‘
میں نے کہا: ’’یہ کیوں؟‘‘
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
’’کیا تمھیں معلوم نہیں ہے کہ جب دنیا کی وجہ سے بندہ میں ’’عجب‘‘ (خود کو اچھا سمجھنا) پیدا ہوجاتا ہے تو جب تک وہ بندہ وہ زینت نہیں چھوڑ دیتا، اس وقت تک اس کا رب اس سے ناراض رہتا ہے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے وہ قمیص اتار کر اسی وقت صدقہ کردی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’شاید یہ صدقہ تمھارے گناہوں کا کفارہ ہوجائے۔‘‘ (ماخوذ: حیاۃ الصحابہ)(مرسلہ: افشاں اشفاق)
کلمہ اوردرود شریف کی برکت:
ایک عالم دوسرے عالم سے ملنے کے لیے گئے۔ وہاں مٹی کا کورا پیالہ رکھا ہوا تھا۔ مہمان عالم نے کنوئیں سے پانی نکالا اور اس میں ڈال کر پیا تو پانی کڑوا لگا۔ انھوں نے میزبان عالم سے کہا: ’’کیا آپ کے کنوئیں کا پانی کڑوا ہے؟‘‘
انھوں نے حیران ہوکر نفی میں جواب دیا اور پانی خود بھی چکھا۔ انھیں بھی کڑوا لگا۔ اس پر وہ بولے:’’ظہر کی نماز کے بعد دیکھیں گے کہ پانی کڑوا کیوں ہے۔ کلمہ اور درود شریف کا ورد کریں۔‘‘
سب کلمہ اوردرود شریف پڑھنے لگے۔ اس کے بعد میزبان عالم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ پھر وہ برتن اٹھا کر پانی پیا تو پانی میٹھا تھا۔ مہمان عالم نے بھی چکھا تو انھیں بھی پانی میٹھا لگا۔ بہت حیران ہوئے۔ تب میزبان عالم نے فرمایا:
’’اس برتن کی مٹی اس قبر کی ہے جس پر عذاب ہورہا تھا۔ الحمدللہ یہ ورد کرنے سے عذاب ختم ہوگیا ہے۔‘‘(مرسلہ: اہلیہ مفتی لطف الرحمن۔ شیخ لاہوری جھنگ صدر)
شیطان کاسوال
حضرت یوسف بن ارطات رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’جب کوئی نوجوان اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی اطاعت کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو شیطان اپنے دوستوں سے کہتا ہے: دیکھو اس کی غذا کیا ہے؟ اس کی خوراک کیسی ہے؟ اگر اس کا کھانا پینا مال حرام سے ہے، حرام کھاتا ہے، حرام پیتا ہے، حرام پہنتا ہے، تو شیطان اپنے دوستوں سے کہتا ہے کہ اب تم اس کی طرف سے بے فکر رہو، اب تمھیں اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ حرام کھانے سے اس کی عبادت اس کو بالکل فائدہ نہیں دے گی۔‘‘(کتاب الکبائر)
والدہ مولانا محمد علی جوہر:
ان کا نام آبادی بیگم تھا،بی اماں کے لقب سے مشہورتھیں۔۱۸۵۲ء میں پیدا ہوئیں اور ۱۹۲۴ء میں فوت ہوئیں۔ ان کے والد نے جنگِ آزادی ۱۸۶۷ء میں حصہ لیا تھا، پھر ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگئے تھے۔ آبادی بیگم کی تعلیم اگرچہ معمولی تھی مگر وہ صوم وصلوٰۃ کی پابند اور تہجد گزار خاتون تھیں۔ ۲۷سال کی عمر میں شوہر کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان کی اولاد میں چھے لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ ترکہ میں معمولی سی زمین تھی۔اُن باوقار خاتون نے اپنی اولاد کو پڑھایا اوربہترین تعلیم دلائی۔ زیور بیچ کر بچوں کی تعلیم جاری رکھی۔وہ بڑی معاملہ فہم اور خود دار خاتون تھیں۔ انھوں نے اپنی اولاد کے اندر دین سے لگائو اور محبت پیدا کی۔ بچوں کی سخت نگرانی کرتی تھیں۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ بڑے ہوجانے کے بعد بھی کسی اولاد کی یہ مجال نہیں تھی کہ ماں کا کہا ٹال دے۔یہی بچے تحریک آزادی ہند کے مشہورترین قائد بنے۔ (محمد علی ابوبکر۔ کوٹ ادو)
٭٭٭