السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
٭کچھ ملے جلے تبصرے کے ساتھ حاضر ہیں۔ شمارہ ۱۰۶۳ میں آغوشِ مادر پہ آپ کا اداریہ نہایت اہم نکتے کی طرف اشارہ تھا۔ اللہ پاک ہر مسلمان ماں اپنی گود کی قدر و منزلت کو پہچان لے۔ آمین! یہ پورا شمارہ ہی کسی خاص نمبر سے کم نہ تھا۔ ’بچے ہمارے عہد کے‘ بھی بہترین تحریر تھی۔ ’ہم پر حق ہے ان کا‘ اداس بھری مسکراہٹ سبق آموز تھیں، تازہ شماروں میں روز محشر نے دل دہلادیا تھا۔ اللہ پاک سب بہنوں کو باعمل مسلمہ بنادیں آمین۔ اکثر بچوں کا اسلام بھی پڑھ لیتے ہیں گو ہوسکتا ہے کہ اصول کے خلاف ہو لیکن محمد فضیل فاروق کا تذکرہ بھی ہم بیاں کریں گے کہ ’ان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کوچے میں‘ بہترین سفرنامہ عمرہ تھا، کتابی شکل کا انتظار ہے۔ اسی طرح ان کی تحریر ’تلاش محل‘ بہت ہنسا دینے والی تحریر تھی۔ پہلے احقرہ پڑھ کر ہنستی رہی بعد ازاں شوہر صاحب کے قہقہوں سے کمرہ گونج رہا تھا۔ اللہ پاک علم و عمل میں برکت دیں۔ آمین۔ مولانا فیصل حیات کا سفرنامہ حج بھی معلومات افزا تھا۔ جبکہ حال ہی میں خولہ غضنفراللہ کا عمرہ کا سفرنامہ بھی اچھا چل رہا ہے۔ خولہ جی سے احقرہ کی اک گزارش ہے کہ نماز قضا والا حصہ حذف کردیتی جہاں تک احقرہ کے علم میں ہے اگر کوئی گناہ ہوجائے اللہ پاک ستاریت کا معاملہ فرمائے تو ہمیں بھی پردہ پڑا ہی رہنا چاہیے۔ (اگر برا لگے تو پیشگی معذرت) ابھی بھی اس لیے احقرہ نے یوں عرض کیا کہ ان شاء اللہ جب کتابی شکل میں آئے تو یہ بات اس میں شائع نہ ہو باقی آپ سب لوگ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ صفحہ کے ایک طرف لکھنے والی اور سطر چھوڑ کر لکھنے والی بات پلو سے باندھ لی ہے کس قدر کامیاب ہوئے مدیر صاحب بتائیں گے۔ آخر میں گزارش ہے کہ وطن عزیز کے اکثر حصوں میں گرمی کی لہر ہے اللہ پاک موسم کو معتدل فرمادیں عافیت سے اور اہل فلسطین کو جلد فتح یاب کریں۔ آمین۔ مقاطعہ (بائیکاٹ) کے حوالے سے بھی رہنمائی کریں جیسے پامولو شیمپو کے بارے میں بھی کوئی کہہ رہا پاکستانی ہے کوئی کہہ رہا نہیں۔ (اہلیہ عبدالوکیل۔ ملیر، کراچی)
٭آپ کی یہ بات پڑھ کر کہ کہانیاں اس لیے نہیں چھپتی کہ ان صفحہ کے دورسے طرف بھی لکھا ہوتا ہے واقعی میں معلوم ہوا کہ ہم بھی اس کے مصداق ہی ہیں اگرچہ یہ بات ہمیں معلوم نہ تھی سو اس کے بعد کہانیاں اس طرز پر ہی لکھنا شروع کر رہی عرض یہ کرنا تھا کہ اگر ان ساری باتوں کو اس عنوان سے کہ (آخر کہانیاں کیوں نہیں چھپتی) شائع کردیا جائے تو نئے لکھاریوں کو کافی فائدہ ہوگا ساتھ ان شاء اللہ آپ کی ٹیم بھی پریشانی سے دور رہے گی۔ جزاک اللہ، اللہ آپ کو اپنے دین کے لیے آخری سانس تک قبول فرمائے اور ہم کو بھی۔ (بنت فرخ آفتاب)
٭یہ میرا کسی بھی شمارے میں پہلا خط ہے۔ مدیر چاچو شمارہ ۱۱۰۷ جب کھولا تو سب سے پہلے غزہ سے ایک خط پر پڑی تو سب سے پہلے اسے ہی پڑھا بہت دکھ بھرا خط تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جلدی مکمل فتح عطا فرمائے۔ آمین۔ ’آئینہ گفتار‘ بھی اچھا تھا۔ (محمد اسعد۔ بہاول پور)
٭میں بچوں کا اسلام اور خواتین کا اسلام کی مستقل قاریہ ہوں۔ میں نے معصوم باتیں بھی تھیں شمارہ ۱۰۹۴ میں چھپ چکی ہیں، بہت شکریہ۔ دینی مسائل پوچھے ان کا تا حال جواب موصول نہیں ہوا۔ بنت البحر بہن نے اتنا تو چلتا ہے لکھ کر یہ احساس دلایا ہے کہ ایسا کہتے کہتے ہم کتنے گناہ کرلیتے ہیں یہی چھوٹے گناہ اکٹھے ہوکر انبار لگ جاتے ہیں۔ پہلے ایک خط میں شکوہ کیا تھا کہ بچوں کا ہزارواں شمارہ ہزار صفحوں کا خواتین اس سے چوتھائی بھی نہیں تھا یہ سخت نا انصافی ہے۔ مدیر صاحف صنف آہن ہیں تو صنف نازک سے انصاف نہیں کم سے کم ۵۰۰ صفحات ہونے چاہیے۔ مزید ننھی معصوم باتیں لکھ رہی ہوں جب تک ماشاء اللہ معصوم بچے دنیا میں ہیں تو معصوم باتیںہوتی رہیں گی۔ دو اسلامی واقعے بھی لکھ رہی ہوں۔ (زرینہ خانم لغاری۔ مظفر گڑھ)
٭شمارہ ۱۱۰۵ کھولا تو ’خون آرزو‘ ساجدہ غلام محمد کی کہانی پر نظر پڑی بس سب سے پہلے پھر وہی پڑھی مگر اس کے اختتام پر دل دکھ سے بھر گیا۔ ’خون آرزو‘ اس شمارے کی بہترین کہانی تھی۔ ماشاء الہ مجھے ساجدہ آپی کی کہانیاں بہت پسند ہیں۔ پھر سارا رسالہ ترتیب سے پڑھا۔ ’قرآن وحدیث‘ کے بعد ’خواتین کے دینی مسائل‘ سمجھ کر آپ کا ’آئینہ گفتار‘ پڑھا۔ آپ بالکل ٹھیک فرما رہے تھے۔ ’صابر ماں‘ بھی پسند آئی۔ عائشہ تنویر کی تحریر ’قید‘ پر نظر پڑتے ہی سمجھ آگئی کہ یہ سترہویں سالنامے میں شائع ہوئی تھی۔ ام رملہ کی آپ بیتی پڑھی اللہ تعالیٰ ان کو صبر جمیل عطا فرمائیں۔ آمین، ’ایمان کی چوٹی‘ مجھے تم یاد آتی ہوں ماں، آپ کا دستر خوان، فضا میں لبیک کی صدائیں‘ بھی شمارے کو چار چاند لگا رہی تھیں۔ بزمِ خواتین میں حیا احمد کے دو خط تھے، ماشاء اللہ بزم خواتین میں رونق بھی خوب تھی۔ آخری صفحے پر ’یک جان دو قالب‘ کو دیکھ کر بے حد حیرت ہوئی یہ کیا یہ تو پھر سے شائع ہوگئی چاچو جی ایسا کیوںہوتا ہے ایک ہی تحریر کچھ شمارے چھوڑ کر پھر سے شائع ہوجاتی ہے۔ (بریرہ بتول زہرہ بنت لطف اللہ رحمانی۔ راجن پور)
٭شمارہ ۱۰۱۳ میں ’آئینہ گفتار‘ حقیقت کی عکاسی کر رہا تھا۔ واقعی یہ ڈرامے بھولے بھالے اور معصوم لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا رہے ہیں۔ ’سہارا‘ سنسنی خیز موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ جویریہ بشیر کی زندگی کی پہلی تحریر بھی اداس کر گئی۔ ’آشیانہ ریاضی‘ آسیہ زینی کی نئے موضوع اور نئے انداز میں لکھی گئی تحریر زبردست رہی۔ پروفیسر صاحب نے انوکھا فیصلہ کیا جس کی ہمارے آج کے زمانے میں کمی ہے۔ اگر ایسا ہوتا رہے تو کتنی سلمیٰ پھوپی جیسی عورتوں کو ایک بار پھر زندگی مل جائے گی۔ ’سارے جہاں کا درد‘ ایک حقیقت پر مبنی تحریر تھی۔ ایسا ہی ہے پہلے کہا جاتا تھا کہ جس میں انسانیت کا درد نہیں، وہ انسان ہی نہیں، لیکن آج کل کے زمانے کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’بھلائی کا زمانہ نہیں رہا‘ آج کل کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہم بس دعا ہی کرسکتے ہیں اور کوئی آپشن ہی نہیں رہا۔ الف نمبر کے تاثرات ام حبیبہ نے بہت اچھے انداز میں بیان کیے۔ (میمونہ اعجاز۔ رتیڑہ)
٭ ’مشکل میں رابطہ کیجیے‘ اچھی تھی۔ ہمیں ہر مشکل میں اللہ سے مدد مانگنی چاہیے۔ صبیحہ عماد کا ناول ’زمین، درخت اور ننھی سی بیل‘ اچھی قسط تھی۔ ’دوہری خوشی‘ اچھی تھی۔ ’مشورہ دیں مگر‘ آج کل مفت مشورے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ ’حاجی اماں‘ پڑھ کر حاجی اماں کو ایصال ثواب کیا۔ ’فضا میں لبیک کی صدائیں‘ اللہ پاک ہم سب کو حج و عمرہ کرنے کی سعادت نصیب فرمائیں۔ آمین۔ بزم خواتین اتنے دنوں بعد نظر آیا سب کے خط بہت اچھے تھے اور جواب اس سے بھی زیادہ اچھے تھے۔ ’وہ کہاں جائیں‘ پڑھ کر افسوس ہوا۔ زیر لب پہلے کے پڑھے ہوئے تھے۔ اللہ پاک آپ کو خیر و عافیت والی لمبی عمر عطا فرمائے۔ آمین (فریحہ مجید۔ راجن پور)
دعا کی برکت سے
عبدالصمد زاہد۔ ملتان
جب آدمی کسی مشکل میں گھرا ہو یا اسے کوئی پریشانی درپیش ہو یا وہ بے وسیلہ ہو تو یہ دعا کرے۔
رب انی لما انزلت انی من خیر فقیر
ترجمہ: میرے پروردگار! جو کوئی بہتری تو مجھ پر اوپر سے نازل کردے، میں اس کا محتاج ہوں۔
(سورہ القصص۔ آیت 24)
قرآن کریم میں ہے کہ یہ دعاحضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت مانگی تھی جب وہ فرعون اور اس کے کارندوں کے ظلم سے نجات پانے کے لیے مصر سے فرار ہوکر مدین پہنچے تھے اور وہاں بظاہر ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی برکت سے ان کی ملاقات حضرت شعیب علیہ السلام سے کرائی اور ان کی خوشگوار زندگی کا آغاز ہوا۔
(پرنور دعائیں۔ ص۔ 38۔ از مفتی تقی عثمانی)