House Graphics

دیکھ تیرا شہزادہ آیا ہے!

Photo : FreePik

حافظ عبدالرزاق خان۔ ڈیرہ اسماعیل خان

’’دادی اماں آنکھیں تو کھول! دیکھ تیرا شہزادہ آیا ہے۔‘‘

مجھے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں نرمی کو کوئی صورت دیتے تووہ ماں کی صورت دیتے۔ میں امی جان کو دیکھوں تو یہی گمان ہونے لگتا ہے۔ میم سے مریم، میم سے ماں، میم سے ممتا اور میم سے اس کی مثالی محبت۔ جی ہاں! ایسی محبت جس کو بنیاد بنا کر پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ان لوگوں پر زیادہ بھروسا مت کرنا جنھیں تم چاہتے ہو لیکن ان پر شک کبھی نہ کرنا جو تمھیں چاہتے ہیں۔ خود مرادِ نبی حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ جو لوگ تم سے محبت کرتے ہیں ان کا مان کبھی نہ توڑنا۔ امی جان مجھ سے والہانہ محبت کرتی تھیں اس کا احساس مگر مجھے بہت دیر سے ہوا۔

جیسے علامہ اقبال اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں لکھتے ہیں:

عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی

میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تُو چل بسی

ہوش سنبھالتے ہی میں نے سنا تھا کہ اکلوتے بیٹے کے تو بڑے مزے ہوتے ہیں لیکن جب میں خود کو دیکھتا تو اس بات کو جھٹلادیتا کیونکہ میرے تو کوئی اضافی مزے نہیں تھے۔ انڈا ہو کہ مالٹا، پانچ برابر حصوں میں تقسیم ہوتا، چار بہنیں ایک میں۔ کپڑے لتے سب کے ایک جیسے آتے۔ حسن سلوک میں ابو جان اولاد میں مساوات قائم رکھنے کے قائل تھے البتہ جہاں تک غیر اختیاری محبت کی بات ہے تو وہ عام خیال کے خلاف مجھ سے نہیں بلکہ ساجدہ باجی سے تھی۔ بلکہ بسا اوقات اپنے اوپر بے جا روک ٹوک کو دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوتا کہ ایک ہم ہی اس جہاں میں قابلِ اصلاح ہیں۔ نہ گھر سے دور جانے دیا جاتا نہ ہی فالتو جیب خرچ ملتا۔

کبھی نظریں بچا کر چھت پر پہنچتے کہ پتنگیں لوٹیں تو امی جان کی ہانک بھی ساتھ ہی پہنچ جاتی۔ کبھی ویڈیو گیم کھیلنے نکلے تو تھوڑی ہی دیر میں برقع پہنے آ دھمکتیں اور کان پکڑ کر گھر لے آتیں، اسی طرح اگر گلی محلے میں کسی سے لڑ جھگڑ بیٹھتے اور شکایت امی تک پہنچتی تو کبھی ادھار نہیں رکھا، فوراً دھنائی کردیتیں۔ سو اب آپ ہی بتائیے میں کیسے مانوں کہ اکلوتے بیٹے کے بڑے مزے ہوتے ہیں؟ ہاں اتنا ضرور ہے کہ جب میں بیمار ہوجاتا تو سب کی توجہ کا مرکز بن جاتا۔ امی جان اس وقت اتنا خیال رکھتیں کہ جی چاہتا یہ بیماری طول پکڑ جائے، میں بس امی کی گود میں لیٹا رہوں۔

جوں جوں وقت گزرا تو میرا یہ احساس قوی ہونے لگا کہ امی جان میرے لیے ہر وقت پریشان سی رہتی ہیں۔ مجھ سے کوئی الٹی سیدھی حرکت کا صدور ہوجاتا تو ابو یہ روایتی جملہ داغتے:’’ہے جو ان پڑھ عورت کی اولاد!‘‘

اور یہ طعنہ سنتے ہی امی جان رو پڑتیں مگر کچھ کہتی نہیں۔ میں کڑھتا کہ قصور میرا تھا اور سزا امی کو ملی۔ ابو کو یہ طعنہ نہیں دینا چاہیے تھا۔ اگرچہ ابو تھے ٹرپل ایم۔ اے اور ایک سرکاری ادارے میں انیسویں اسکیل کے افسر جبکہ امی چِٹی اَن پڑھ تھیں۔ انھوں نے کبھی اسکول کا منہ دیکھا نہ ہی مدرسے گئیں مگر یقین مانیے ہماری تربیت اس انداز سے کی کہ کیا کوئی جدید تعلیم یافتہ خاتون کرتی۔ ابو جان اکثر خود اس بات کے معترف ہوتے کہ امورِ خانہ داری، خاوند کی خدمت گزاری، کفایت شعاری اور سلیقہ مندی میں تمھاری ماں اپنی مثال آپ ہے مگر کبھی طعنہ دے بیٹھتے اور عموماً اس قسم کے طعنوں کا سبب میں ہی ہوتا تھا۔ الغرض جب میری شرارتیں حد سے بڑھنے لگیں تو امی جان کی بے قراری بھی حد کو چھونے لگی۔ میں دیکھتا کہ وہ مصلے پر بیٹھی رو رہی ہیں۔ مجھے خود سے شرم سی آنے لگتی۔

آخر اس سراپا محبت کی دعائیں رنگ لائیں اور میٹرک کے زمانے میں خدا نے ہمارا رُخ اپنی طرف موڑ لیا۔ میں ایسا بدلا، ایسا بدلا کہ بہت سوں کے لیے قابلِ رشک ٹھہرا لیکن یہ کیا! میں نے دیکھا کہ امی جان اب بھی بے چین ہیں۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ سارا دن مدرسے رہتا ہے، شام کو دوست آگھیرتے ہیں، میرے لیے اِس کے پاس وقت نہیں ہے، دیر سے گھر آتا ہے۔

اوہ اچھا تو یہ بات ہے! میرا دل تھوڑا پسیجا مگر میں نے من ہی من میں سوچا کہ واقعی امی اَن پڑھ ہیں، انھیں کیا معلوم کہ علمی مصروفیات کیا ہوتی ہیں؟ بہرحال وہ ہمیں دیکھ کر دل کا بوجھ رو کر ہلکا کرلیتیں اور دینے لگتی دعائیں!

جب میری حفظ سے فراغت ہوئی تو ابو بی اے کا داخلہ فارم لے آئے، اور جب میں نے اس فارم کے چھے سو چھتیس ٹوٹے کرکے ابو کے سامنے ڈال دیے تھے تو ان کی زبان گنگ ہوکر رہ گئی تھی، اور جب میں نے یہ فیصلہ سنایا تو سکتے کے عالم میں آگئے۔

’’میں نے نہیں پڑھنا اب کالج والج… عالم بننا ہے عالم… اور وہ بھی کسی مقامی مدرسے میں نہیں، تلمبے جاؤں گا یا پھر دارالعلوم کراچی، آدمی پڑھے تو کسی مشہور مدرسے میں تو پڑھے۔‘‘

’’میرے لعل! کسی بڑے سے مشورہ تو کرلیا ہوتا، اتنا جذباتی نہ بن۔‘‘

امی نے لجاجت سے کہا تو میں نخوت سے بولا: ’’ٹھیک ہے آپ کا یہ ارمان بھی پورا کردوں گا مگر یہ بات آپ کے ذہن میں ہونی چاہیے کہ پڑھنا میں نے باہر ہی ہے۔ حصولِ علم کے لیے ہجرت شرط ہے اور محبتوں کو کچلنا بھی لازم ہے۔‘‘

’’ہائے اللہ! تُو اگر ہم سے دور چلا گیا تو ہم تو ویسے ہی مر جائیں گے۔ تجھے دیکھ دیکھ کر تو ہم جی رہے ہیں۔‘‘امی رو پڑیں۔

’’میرے علاوہ چار بہنیں بھی تو ہیں۔ وہ میری کمی محسوس نہیں ہونے دیں گی۔‘‘

میں نے بے دلی سے دلاسہ دیا تو نحیف سی آواز میں بولیں: ’’وہ تو پرایا دھن ہیں، انھوں نے کب سدا رہنا ہے اس گھر میں؟‘‘
حضرت شیخ الحدیث مفتی سراج الدین صاحب مدظلہ سے مجھے ہرگز توقع نہ تھی کہ وہ میرے استفسار پر یہ جواب دیں گے:

’’برخوردار! تمھارا جذبہ قابلِ تحسین ہے اور یقینا تم کتابیں پڑھ بھی جاؤ گے مگر علمِ نافع کبھی حاصل نہ کرسکو گے، اس کے لیے دل سے والدین کا راضی ہونا ضروری ہے، اُن کی اجازت کے بغیر نہ نکلنا۔‘‘
جب اگلے روز امی جان سے یہ بات میں نے نقل کی تو مجھے سینے سے چمٹا کر دیوانوں کی طرح پیار کرتے ہوئے بولیں:

’’میں کب کہتی ہوں کہ تو عالم نہ بنے؟ میری تو دعا ہے کہ تُو جگ جگ جیے، تیرے سہرے بندھیں، تو خواجہ خضر کی عمر پائے، دیکھنا خدا تجھے دین و دنیا دونوں میں سرخ رُو کرے گا ان شاء اللہ تعالیٰ! بس میں یہ چاہتی ہوں کہ تو ہر وقت میری نظروں کے سامنے رہے جب تک کہ میں زندہ ہوں۔‘‘
بس جی پھر ہم نے اپنے ہتھیار ڈال دیے اور والدین کی منشا کو سامنے رکھ لیا۔ اف اللہ! جن ہستیوں کو محض ایک بار پیار سے دیکھنے پر مقبول حج کا اجر ملے، ان کا مان اور من رکھنے پر کیا کچھ ملے گا؟ میں نے اُن کی آرزو پوری کی ان کے پاس رہنے کی تو خدائے بزرگ و برتر نے کراماتی طور پر علمِ دین کے اسباب پیدا کیے اور خوب پیدا کیے۔ جب پہلی بار چار ماہ کے لیے جانا ہوا تو نکلنے سے قبل امی جان کا ہاتھ ٹھیک چار دن قبل ٹوٹ گیا۔

میرے چہرے پر ہوائیاں اڑتی دیکھ کر بھانپتے ہوئے کہنے لگیں:
’’تو اپنا ارادہ ترک مت کر… میں حکم دیتی ہوں تجھے… تو ضرور جائے گا۔‘‘

’’امی دنیا والے کیا کہیں گے؟‘‘میں نے الجھن سے کہا۔

’’میں جانوں اور دنیا والے جانیں۔ تو جا… مگر میرے لیے دعا کرنا۔‘‘
یوں ہم دعوت کے کام سے جڑے۔ خیر ایک لمبی داستان ہے پیارو! کیا کیا سناؤں؟ بات کو سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہمارے گھر میں چلتی ابو کی تھی مگر گھر کو چلاتی امی ہی تھیں۔ مجھے تو انھوں نے قدم قدم پر سہارا دیا۔ میں میٹرک تک منہ بھی امی سے ہی دھلواتا تھا کہ میل اچھا اتارتی ہیں۔ شادی کے بعد بھی ہم نے اپنے لاڈ امی سے پورے کروائے۔ یہ اُن کی شفقت ہی تو تھی کہ بیالیس برس کا ہوکر بھی امی کے سامنے دس بارہ سال کا تھا۔ وہ کبھی کبھی میری کسی غلطی پر برملا ڈانٹ دیتیں، میرے بچے منہ چھپا کر ہنستے کہ ابو کی شیم شیم ہوگئی مگر مجھے فخر تھا کہ میرے ماں باپ بلا جھجک مجھے ڈانٹ سکتے ہیں۔ زندگی بھر امی جان کو مجھ سے صرف یہ گلہ رہا کہ دیر سے گھر آتا ہے۔ میری اہلیہ تو انتظار کرتے کرتے سوجاتی لیکن جب دبے قدموں سے گھر پہنچ کر امی جان کے کمرے میں جھانکتا تو وہ ٹکٹکی باندھے انتظار کر رہی ہوتیں اور پھر مصنوعی خفگی سے کہتیں:

’’واہ شہزادے! ہوگیا تیرے آنے کا وقت؟‘‘ اور پھر ماتھا چوم لیتیں۔
پچھلے دو سال میں، میں خود کو بدلنے میں بہت حد تک کامیاب ہوگیا تھا۔ عشا کے بعد کی مجلس ترک کردی اور رات گئے اپنے اسٹڈی روم کی بجائے امی کے کمرے میں بیٹھا رہتا۔ وہ جب بھی کروٹ بدلتیں تو کن اکھیوں سے اپنے شہزادے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرلیتیں۔ ہماری بیگم نے بھی کبھی برا نہیں مانا کہ آدھی رات تک امی کے کمرے میں بیٹھا رہتا ہوں۔ وہ برا بھی کیوں مانتی کہ امی نے اسے بہو کبھی سمجھا ہی نہیں، ہمیشہ بیٹی کے روپ میں دیکھا۔

گزشتہ برس ماہِ جون میں اچانک امی جان کی ٹانگوں پر ذیابیطس نے کچھ اس طرح حملہ کیا کہ چلنا موقوف ہوگیا۔ پوری زندگی ہم نے امی جان کو رات کے علاوہ کبھی چارپائی پر لیٹے ہوئے نہیں پایا۔ الاً یہ کہ شدید بیمار ہوگئی ہوں وگرنہ چھوٹی موٹی بیماریوں کی تو کبھی پروا نہ کی۔
اور پھر اُدھر اکتوبر میں فلسطین کے حالات بگڑے اِدھر امی زمین پر آگریں۔

نومبر کی ایک ٹھٹھرتی رات پیٹ میں شدید درد اٹھا تو ساری رات اپنے خورد و کلاں (بچوں بزرگوں) کو یاد کرکرکے روتی رہیں۔ اصرار پر بھی اسپتال نہ گئیں۔ صبح چیک اپ کرایا تو جسے ہم معدے کا درد خیال کر رہے تھے وہ دل کا دورہ تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا دل چالیس فی صد کام کر رہا ہے۔ یہ سن کر میرا اپنا دل مٹھی میں آگیا۔ بائی پاس کا تو انھوں نے منع کردیا کہ خطرہ ہے مگر جلد از جلد اسٹنٹ ڈلوانے کو کہا۔

ہم نے امی کو نہیں بتایا اور اس عمل سے گزر گئے۔ بعد میں انھیں پتا چلا تو کہنے لگیں تُو اتنے پیسے کہاں سے لایا؟ لگتا ہے جو تونے اپنی کتاب کی اشاعت اور تقریب کے لیے جوڑ رکھے تھے وہ لگادیے ہیں؟

میں نے کہا: ’’پیاری ماں! آپ کی بنسبت اِن پیسوں کی کیا حیثیت ہے؟ خدا کا شکر ہے کہ تیرا شہزادہ تجھ پر کچھ خرچ کرنے کے قابل ہوا۔‘‘
یہ سن کر بہت خوش ہوئیں اور پیٹھ تھپتھپا کر کہنے لگیں:
’’کتاب تو تیری ضرور آئے گی ان شاء اللہ! دیکھنا تجھے حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی شفاعت بھی نصیب ہوگی۔ تیری بوڑھی ماں کی دعا تیرے ساتھ ہے۔‘‘

اور جس دن ’’کراماتی چھتری‘‘ کراچی سے ڈیرے پہنچی تو پیر و مرشد حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب مدظلہ کے حکم پر سب سے پہلے امی ہی کی خدمت میں پیش کی۔ انھوں نے اسے چوما، مجھے پیار دیا اور پھر پوتے پوتیوں کو جمع کرکے اپنا فریکچر شدہ ہاتھ فضا میں بلند کرکے ختمِ نبوت زندہ باد کا نعرہ لگوایا۔

پندرہ شعبان سے اگلی رات امی جان کا پلستر کٹا تو بےحد خوشی ہوئی مگر اسی رات فالج نے آلیا۔

اے اللہ! تیری مصلحتوں کو سمجھنے سے عاجز ہوں! اس کے بعد امی کی حالت نہ سنبھلی۔ ۲۳ شعبان المعظم ۱۴۴۵ھ منگل کا دن میری زندگی کا پہلا دن تھا جب امی سے پیار لیے بغیر گھر سے باہر جا رہا تھا کہ وہ ہوش میں نہ تھیں۔ دفتر میں تازہ گل صاحب میری پریشانی کو دیکھ کر کہنے لگے:

’’عبدالرزاق صاحب! والدہ کے علاج کے لیے جتنی رقم درکار ہے، میں دینے کے لیے تیار ہوں۔‘‘

میں نے کہا: ’’محترم اگر شفا دے سکتے ہو تو وہ دے دو، باقی کچھ درکار نہیں۔‘‘
گھر آیا تو امی بدستور بےہوش تھیں۔ ان کا چہرہ دیکھا نہ جاتا تھا۔ کھانا کھائے بغیر مسجد چلا آیا۔ وہاں تیونس سے مہمانوں کی جماعت آئی ہوئی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں گڑیا کا فون آیا کہ حافظ صاحب جلدی گھر پہنچو۔ امی ہوش میں آئی ہیں اور آپ کا نام لے رہی ہیں۔

میں گھڑی کی چوتھائی میں امی کے پاس موجود تھا۔
خالہ کہنے لگیں:’’دیکھ مریم! عبدالرزاق آگیا۔ دیکھ تو سہی تیرا شہزادہ آگیا۔‘‘

امی جان نے گویا آخری بار میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اشارے سے کچھ کہا بھی مگر بول نہ پائیں۔ میں نے بلند آواز سے سورۂ یٰسین کی تلاوت شروع کردی۔ ادھر آخری آیت پر پہنچا کہ پاک ہے وہ ذات کہ جس کے قبضے میں ہر شے کی بادشاہی ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے، اُدھر امی جان کی روح بھی اپنے خالق کی طرف لوٹ گئی۔
اے اللہ! ہم تو ہیں ہی تیرے!

ابوجان بھی اس وقت ادھر ہی موجود تھے۔ اپنے ساتھی کی جدائی پر بلک بلک کر رونے لگے۔ امی کہتی تھیں کہ اللہ کرے پہلے میں مروں کہ خاوند کے بعد عورت کی کوئی زندگی نہیں… سو اللہ نے یہ آرزو بھی پوری کردی۔ مغرب کے بعد جب امی کو غسل دے دیا گیا تو مجھے زیارت کے لیے گھر میں لے جایا گیا۔ میں نے بڑا ضبط کیا ہوا تھا۔ اپنا منہ رومال سے ڈھانپے آہستہ آہستہ ان کے سرہانے کے قریب پہنچا تو بیٹی فاطمۃ الزہرا نے مجھے رلا ہی دیا۔

’’دادی اماں! آنکھیں تو کھولیں! دیکھیں آپ کا شہزادہ آیا ہے۔‘‘
مگر امی نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ میں دیر تک کھڑا آنسوؤں کی برسات میں بےبسی سے ان کے پاکیزہ چہرے پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ مجھے لگا جیسے کہہ رہی ہوں کہ اب تو جنت میں ملاقات ہوگی۔

بیالیس برس میں پہلی رات تھی جو امی کے بغیر گزری۔ سوتے نہیں جاگتے!
اگلی صبح خواب میں دیکھتا ہوں کہ تارے اور موتیوں سے بھرا سوٹ پہنا ہوا ہے اور سرخ رنگ کا دوپٹا اوڑھ رکھا ہے اور مسکرا کر نیچے کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ بیٹھی تو اپنی قبر ہی میں ہیں۔ میں نے پوچھا: ’’اے میری پیاری امی! کیا گزری؟‘‘

دوبار پوچھنے پر سر اوپر نہیں کیا۔ میں نے پریشان ہوکر تیسری بار پوچھا تو اوپر کی طرف خاموشی سے دیکھا۔

پھر کیا دیکھتا ہوں کہ امی کے ہاتھ میں ’’کراماتی چھتری‘‘ تھی جسے انھوں نے سینے سے لگایا ہوا تھا۔ کہنے لگیں: میں فلسطینی بچوں کے لیے دعا کرتی تھی اور مجھ پر پے در پے تکلیفیں آئیں تو اللہ نے میرا حشر فلسطینی شہید ماؤں کے ساتھ کردیا ہے۔‘‘

اف اللہ! میں خواب ہی میں رو دیا۔ آنکھیں کھلیں تو آنسو ڈاڑھی میں جذب ہو رہے تھے۔ جس روز سے امی گئیں بلا ناغہ ان کی مرقد کے سرہانے بیٹھ کر یٰسین شریف سنا آتا ہوں۔ دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوجاتا ہے۔ انتہائی شکریہ آمنہ کے لعل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کہ انھوں نے والدین کی قبر پر جانے کا حکم دیا۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
٭٭٭