Marriage Hall

دوسری بیوی

محمد اسعد بن عبدالحفیظ۔ بہاول پور

قاضی ابوالحسین بن عقبہ کہتے ہیں کہ میرے چچا کی بیٹی نہایت دولت مند اور امیر تھی۔ میں نے اس سے شادی کرلی، مال کی بدولت میں نے خفیہ طورپر ایک اور شادی کرلی۔ ادھر کسی شخص نے میری پہلی بیوی کو بتادیا کہ میں نے دوسری شادی کرلی ہے۔ بس پھر کیا تھا، گھر میں طوفان آگیا۔ میری بیوی سخت ناراض ہوئی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ دیکھو تم میری دولت استعمال کرتے تھے، آج کے بعد تم ایسا نہیں کرسکوگے، میں تمہارے گھر میں نہیں رہنا چاہتی۔ تمہارے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ یا مجھے رکھو یا اس دوسری بیوی کو۔ مجھے رکھنا چاہتے تو اسے فوراً طلاق دو۔ گھر میں یہ جھگڑا چلتا رہا۔

میں دو کشتیوں کا سواربن چکا تھا۔ پہلی بیوی میری چچا زاد اور نہایت امیر تھی، مگر مجھ کو پسند نہ تھی اور دوسری بیوی غریب مگر سمجھ دار تھی۔ میں گھر میںلڑائی نہیں چاہتا تھا۔ پہلی بیوی نے میرا خرچہ بند کردیا تھا۔ اب میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کروں کہ میری پہلی بیوی بھی راضی ہوجائے اور اس کو تسلی ہوجائے کہ میں نے کوئی شادی نہیں کی اور دوسری بیوی کو طلاق بھی نہ دینی پڑے۔ خاصے سوچ بچار کے بعد میں اپنی دوسری بیوی کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ تم اپنے ہمسایوں کے پاس جاؤ ان سے ایک عمدہ اور خوب صورت لباس عاریتاً لے لو اور پھر خوب بن سنور کر خوشبو لگا کر پہلی بیوی کے پاس جاؤ، تاکہ اسے احساس ہوجائے کہ تم نہایت امیر اور مالدار عورت ہو۔ ملاقات کے وقت خوب رو رو کر آنسو بہانا اور اس کے حق میں خوب دعائیں کرنا۔ جب وہ تمہاری کثرت گریہ وزاری سے متاثر ہوجائے گی تو یقینا تم سے پوچھے گی کہ تمہاری مشکل اور پریشانی کیا ہے؟ اب تم اس کو بتانا کہ میرے چچا زاد نے مجھ سے شادی کی ہے اور مجھے بتائے بغیر ایک اور شادی بھی کرلی ہے اور میرا مال اپنی دوسری بیوی پر خرچ کرتا ہے۔ مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے چونکہ تمہارا خاوند قاضی ہے، اس سے میری مشکل اور پریشانی بیان کرو۔ میری سفارش کرو کہ میرے ساتھ انصاف کرے اور میرے شوہر کو عدالت میں بلا کر اس سے پوچھ گچھ کرے۔ جب وہ تمہاری بات سن کر تمہیں میرے پاس لے کر آئے گی، تو باقی معاملہ میں خود سنبھال لوں گا۔

میری تدبیر نہایت کامیاب رہی۔ میری ہدایت کے مطابق میری نئی بیوی نے نہایت خوب صورت لباس زیب تن کیا اور ایک مالدار عورت کے روپ میں ہمارے گھر آئی۔ میں اسے وقت گھر ہی پر تھا۔ اس نے آتے ہی زور زور سے رونا شروع کردیا۔ میری پرانی بیوی نے اس کے آنسو پونچھے، اسے چپ کرایا۔ اس کی دلجوئی کی اور کہا کہ بہن بتاؤ تمہارا مسئلہ کیا ہے، کیوں رو رہی ہو؟

اب اس نے میرے کہے ہوئے الفاظ دہرادیے۔ اس نے فوراً کہا:

بہن میرا شوہر قاضی تو تمہارے شوہر سے بھی بدتر ہے۔ وہ بھی مجھے دھوکے میں رکھ کر شادی کیے ہوئے ہے۔

یہ کہہ کر وہ میری نئی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر غصے میں میری مجلس میں آئی اور کہنے لگی:

اس بدنصیب بی بی کا حال بھی میرے جیسا برا ہے۔ اس کی بات سنو اور اس کے ساتھ انصاف کرو۔

میں نے نئی بیوی سے پوچھنا شروع کردیا: کیا بات ہے، کیا شکوہ لے کر آئی ہو؟ اس کو جو کچھ پڑھایا سکھایا گیا تھا، وہ عرض کیا۔ میں نے اس سے پوچھا: کیا تیرے چچا کے بیٹے (یعنی برے شوہر) نے تمہارے سامنے اعتراف کیا ہے کہ اس نے دوسری شادی کر رکھی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! بھلا وہ میرے خوف کے مارے کیوں کر اعتراف کرے گا؟ میں نے پوچھا: پھر کبھی تونے اس کی دوسری بیوی کو دیکھا ہے اور اس کی شکل پہچانتی ہو؟ وہ کہنے لگی: نہیں نہیں۔ پھر میں نے کہا: اے خاتون! اللہ سے ڈر اور سنی سنائی باتوں پر یقین مت کر، کیونکہ حاسد لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو میاںبیوی کی خوشی دیکھ نہیں پاتے۔ اس طرح جو لوگ عورتوں کو بگاڑتے ہیں۔ ان کے پاس اس قسم کا ڈراما رچانے کے لیے بہت سے حیلے بہانے ہوتے ہیں اور وہ جھوٹ بھی بہت بولتے ہیں۔ مثال کے لیے میری ہی بیوی کو دیکھو، اس سے بھی کسی نے یہ چغلی کھائی ہے کہ میں نے اس کے علاوہ بھی کسی عورت سے شادی کر رکھی ہے، جبکہ میں اس کے سامنے یہ قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس دروازے کے باہر اگر میری کوئی بیوی ہے تو میں اسے تین طلاقیں دیتا ہوں۔

یہ سنتے ہی میرے چچا کی بیٹی یعنی میری پہلی بیوی اٹھی اور کہنے لگی: مجھے اب یقین ہوگیا اے قاضی کہ تم پر جھوٹ باندھا گیا ہے۔ اس طرح میرا کام چل گیا اور چونکہ میری دونوں بیویاں میرے پاس موجود تھیں۔ اس لیے میری قسم بھی واقع نہیں ہوئی۔ (کیونکہ قسم تو کھائی گئی تھی دروازے سے باہر موجود بیوی کو طلاق کی)