Parrot

کاش میں پرندہ ہوتی!

عائشہ افق۔ فیصل آباد

’’ماما! پرندے کتنے خوش قسمت ہیں ناں! مزے مزے سے ہوائوں میں اڑتے رہتے ہیں۔‘‘

شفا پرندوں کو ہوا میں اڑتا دیکھ کے ہمیشہ ہی حسرت سے شمسہ خاتون سے گویا ہوتی۔ وہ بھی ایک شام تھی جب وہ نیلے آسمان پہ پرندوں کو دیکھ کے بولی تھی۔

’’کاش میں بھی پرندہ ہوتی!‘‘

شمسہ خاتون مسکرا دیں اور کچھ سوچ کے اسے پاس بلایا۔ وہ جو کاغذ کے جہاز بنا بنا کے اڑا رہی تھی، ان کے پاس آکے بیٹھ گئی۔
’’ہمیں بھی پتا چلے کہ ہماری شفا پرندہ ہوتی تو کیا کرتی؟‘‘

ابھی ان کی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ دروازے پہ گھنٹی بجی۔ قاری صاحب شفا کو پڑھانے کے لیے تشریف لا چکے تھے۔
’’شاباش بیٹا!… جا کے سبق پڑھو اور رات کو جب ڈائری لکھو تو اس میں لکھنا اگر میں پرندہ ہوتی تو…؟‘‘

وہ پانچویں جماعت کی طالبہ تھی۔ ڈائری میں اس طرح کی باتیں لکھنے کا تو اسے کبھی خیال ہی نہیں آیا تھا۔ وہ تو بس یہی لکھا کرتی تھی کہ آج مس خدیجہ نے مجھے اسٹار دیا، مس نائلہ نے مجھے ڈانٹا، فلاں دوست کو سبق نہیں آیا، فلاں نے کھیل میں دھاندلی کی وغیرہ وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ کچھ مختلف لکھنے کے لیے بڑی پر جوش تھی۔
گلابی رنگ کے صفحات والی ڈائر ی جس ہر ورق پہ چھوٹے چھوٹے گلاب کے پھول جا بجا بنے ہوئے تھے اور سنہری رنگ کا خوبصورت سا پین جو فواد ماموں نے سالگرہ پہ گفٹ کیا تھا، وہ انہیں لے کر لکھنے بیٹھ گئی۔

’’اگر میں پرندہ ہوتی‘‘
یہ تو ہو گیا عنوان اب سوال یہ تھا کہ ’’وہ کون سا پرندہ بنے ؟ فاختہ ،چڑیا یا کوا…‘‘

’’اونہہ… میں تو طوطا بنوں گی۔‘‘
اب شفا نے کچھ یوں لکھنا شروع کیا ۔

’’اگر میں طوطا ہوتی … سرخ اور سبز پروں والا طوطا … تو میں پھولوں والے باغ میں رہتی، وہی جو اسکول کے راستے میں آتا ہے۔ وہاں پیارے پیارے پھولوں پہ بیٹھا کرتی۔ درختوں پہ اچھلتی کودتی۔ تتلیوں کو میں اپنی پکی والی سہیلیاں بناتی، کیوں کہ مجھے تتلیاں بہت پسند ہیں۔ پھر ہم گھنٹوں پکڑن پکڑائی کھیلا کرتے۔ وہاں چڑیا، فاختہ، مینا بھی ہوتیں، میں ان کو بھی دوست بناتی۔ کوے سے تو میں پکی پکی کٹی کر لیتی۔ گندا بچہ نہ ہو تو! ہاں یاد آیا کبوتر بھی تو ہوتا وہاں۔ اف!… ایک تو مجھے سارے پرندوں کے نام بھی یاد نہیں۔ چلو کوئی بات نہیں اتنے دوست ہی کافی ہیں۔
میں، چڑیا، کبوتر، فاختہ اور مینا صبح سویرے کھانا کھا کے آسمانوں کی سیر کو نکل جایا کرتے۔ تتلی چھوٹی ہوتی ہے ناں اس لیے میں اسے اپنے پروں پہ بٹھا تی۔ پھر ہم آسمان میں دوڑ لگایا کرتے اور شرط یہ رکھتے کہ جو بادلوں کو پہلے ہاتھ لگائے گا وہ جیت جائے گا۔ اف!… میں بھی پاگل ہی ہوں پرندوں کے ہاتھ کدھر سے آئے بھلا؟ چلو جو پہلے پر لگاتا وہ جیت جاتا اور جو ہار جاتا وہ واپسی پہ باقیوں کو پھل توڑ کے دیتا۔ جب میں آسمانوں میں اڑتی تو کتنا مزا آتا۔ وہاں سے میں اپنا گھر بھی دیکھتی، ماما پاپا اور بہن بھائیوں کو اوپر سے ہی ٹا ٹا کرتی۔ ہائے اللہ! سورج سے میں پوچھتی کہ اس کی روشنی اتنی تیز کیوں ہے کہ جب بھی میں اس کی طرف دیکھتی ہوں آنکھوں میں پانی آجاتا ہے۔ اڑتے اڑتے میں جہاز کی کھڑکی سے اندر جھانکتی اور جہاز کے مسافروں کو’میاں مٹھو چوری کھائے گا‘ کہہ کے پھر سے اڑ جاتی۔ میں سب دوستوں کو انسانوں کی زبان بول کے دکھاتی…‘‘ شفا خوشی سے سرشار لکھتی جا رہی تھی۔

’’پھر شام کو ہم سب اپنے اپنے گھونسلوں میں جا کے سو جاتے۔ میرا گھونسلا تو امرود کے درخت پہ ہوتا اور میں ڈھیر سارے امرود کھاتی، لیکن رات کو مجھے لوری کون سناتا اور مجھے ماما پاپا کے بغیر نیند کیسے آتی؟ پھر مجھے بہت رونا آتا۔ اور ہاں! اگر کوئی بچہ مجھے پکڑ کے پنجرے میں بند کر دیتا تو میرے ماما پاپا تو مجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک جاتے۔ نہیں نہیں! میں انسان ہی ٹھیک ہوں۔‘‘
اتنا لکھ کے شفا نے ڈائری بند کی اور پین ڈائری کے اوپر رکھ دیا۔ ابھی تو اسے یہ ماما کو بھی دکھانا تھا۔